میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
جلال آباد کی جیل پر داعش کا دھاوا 28افراد ہلاک، 50زخمی

جلال آباد کی جیل پر داعش کا دھاوا 28افراد ہلاک، 50زخمی

ویب ڈیسک
منگل, ۴ اگست ۲۰۲۰

شیئر کریں

افغانستان کے شہر جلال آباد میں جیل پر داعش کے حملے میں 29 افراد ہلاک جبکہ افغان سکیورٹی فورسز نے 18 گھنٹوں کی لڑائی کے بعد 8 حملوں کو آور کو مار ڈالا ہے۔ جبکہ 50زخمی ہوگئے۔ غیرملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق پیر کو حکام نے کہا کہ افغان جیل پر کیے گئے حملے کے دوران سیکیورٹی فورسز اور داعش کے جنگجوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں کم از کم 20افراد ہلاک ہوئے ہیں۔مشرقی شہر جلال آباد کے جیل پر گزشتہ روز ہونے والے حملے کے بعد سے لڑائی کا سلسلہ جاری ہے۔اس حوالے سے صوبہ ننگرہار کے ہسپتال کے ترجمان ظہیر عدیل نے بتایا کہ سیکیورٹی اہلکار سمیت اب تک 20افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ گورنر کے ترجمان نے ہلاکتوں کی تعداد 21 بتائی۔ظہیر عدیل نے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا کیونکہ 40سے زائد زخمیوں کی حالت اس وقت تشویش ناک ہے۔واضح رہے کہ اس حملے نے عید الاضحی کے موقع پر افغان سیکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان ہونے والے جنگ بندی کے سکون کو ختم کردیا۔اگرچہ یہ 3روزہ جنگ بندی اتوار کو ختم ہوگئی تھی لیکن کابل کو امید تھی کہ اس میں توسیع ہوسکتی ہے۔ادھر داعش کے نیوز ادارے اماق نے اعلان کیا کہ جیل پر حملے کے پیچھے ان کے جنگجو ہیں۔دوسری جانب ایک سیکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ حملے کے وقت جیل میں 1700سے زائد قیدی موجود تھے جس میں زیادہ تر داعش اور طالبان کے جنگجو ہیں۔اس حوالے سے ننگرہار کے گورنر کے ترجمان آیت اللہ خوگیانی نے خبررساں ادارے کو بتایا کہ حملے کے دوران فرار ہونے والے تقریبا 700 قیدیوں کو دوبارہ گرفتار کرلیا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ لڑائی جاری ہے کیونکہ مسلح افراد جیل کے اندر اور باہر موجود ہیں۔علاوہ ازیں امریکی خبررساں ادارے نے رپورٹ کیا کہ اتوار کو حملہ اس وقت شروع ہوا جب داعش کے خودکش بمبار نے دھماکا خیز مواد سے بھری گاڑی کو جلال آباد جیل کے داخلی راستے سے ٹکرا دیا۔رپورٹ کے مطابق اس کے بعد عسکریت پسندوں نے جیل کی سیکیورٹی فورسز پر فائرنگ شروع کردی۔گورنر کے ترجمان آیت اللہ خوگیانی کا کہنا تھا کہ اب تک 3 حملہ آور ہلاک ہوچکے ہیں لیکن یہ لڑائی پیر کو بھی جاری رہی اور جیل کے گراونڈ سے فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا۔انہوں نے بتایا کہ مرنے والوں میں شہری، قیدی، گارڈز اور افغان سیکیورٹی فورسز کے اہلکار شامل ہیں۔دریں اثنا حکام کا کہنا تھا کہ پولیس کا ماننا ہے کہ کئی عسکریت پسند قریبی واقع رہائشی کمپلیکس میں چلے گئے جس کی وجہ سے انہیں وہاں سے نکالنا زیادہ مشکل ہوگیا ہے۔اس حملے کی ذمہ داری دولت اسلامیہ خراساں کے نام سے مشہور داعش سے منسلک گروہ نے قبول کی ہے۔اس حملے کے پیچھے کا مقصد ابھی تک واضح نہیں ہوسکا، تام ایک اور صوبائی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس لڑائی کے دوران کچھ قیدی فرار ہوگئے۔یہ حملہ اس واقعے کے ایک روز بعد سامنے آیا جس میں افغان خصوصی فورسز نے جلال آباد کے قریب داعش کے سینئر کمانڈر کو مار دیا تھا۔دوسری جانب طالبان کے سیاسی ترجمان سہیل شاہین نے بتایا کہ جلال آباد حملے کے پیچھے ان کا گروپ ملوث نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے جنگ بندی کی ہے اور ہم ملک میں اس طرح کے کسی بھی حملے میں ملوث نہیں۔علاوہ ازیں طالبان نے جمعرات کی رات میں مشرقی صوبے لوگر میں ہونے والے خودکش حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی۔واضح رہے کہ اس حملے میں 9 افراد ہلاک اور 40 زخمی ہوگئے تھے۔یہ یاد رہے کہ افغانستان نے حالیہ دنوں میں پرتشدد واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے جس میں زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری داعش سے منسلک مقامی گروپ کی جانب سے قبول کی گئی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں