میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سیاست دان؟

سیاست دان؟

ویب ڈیسک
جمعه, ۴ اگست ۲۰۱۷

شیئر کریں

ابھی عائشہ گلالئی کی بات چھوڑیے!جس نے اپنے کاندھوں پر جاوید ہاشمی جتنا بوجھ اُٹھا لیاجن کا معاملہ سیاسی شریعت میں کچھ یوں رہا کہ
خلافِ شرع کبھی شیخ تھوکتا بھی نہیں
مگر اندھیرے اُجالے میں چوکتا بھی نہیں
اب اُن کے ماننے والے پارسی کہلاتے ہیں۔ جناب زرتشت ، حضرت عیسیٰؑ سے چھ صدیاں قبل افغانستان کے مقام گنج میں غوروفکر فرمایا کرتے۔ اُنہوں نے نیکی کی قوت کو یزداں اور بدی کی طاقت کو اہرمن سے یاد کیا۔کوئی بات تو اُن میں رہے ہوگی، ایک مسلسل چلا آتا تجربہ اور مستقبل میں انسانی جبلتوں کے تعامل سے پھوٹنے والی حیرت انگیز تضادات کا نفرت انگیز ادراک بھی۔ جناب زرتشت نے سیاست دانوں کے بارے میں ایک ناقابلِ فراموش فقرہ کہاکہ ’’ سیاست دان کھٹی قے ہے۔‘‘آج بھی سیاست دانوں کی زندگیوں میں جھانکا جائے تو کم وبیش ڈھائی ہزار سال قبل کا یہ فقرہ حرف بہ حرف درست معلوم ہوتا ہے۔عائشہ گلالئی کی اپنی باتوں پر ہی غور کیا جائے تو وہ امیدوں اور اندیشوں کے بیچ اپنا بیچ بچاؤ کرتی سوداکی زبان میں یہ کہہ رہی ہے کہ
فکرِ معاش، عشقِ بتاں، یادِ رفتگاں
اس زندگی میں اب کوئی کیاکیا، کیا کرے
بیچاری گلالئی!!!!پٹھان معاشرے کی غیرت کے پیچھے چُھپ رہی ہے۔ مگر تضادات کی عریانی اُنہیں چھپنے نہیں دیتی۔ سب سے اہم سوال وقت کا ہے؟ عمران خان کی سیاست کے بہت سے پہلو ناقابلِ دفاع ہیں۔ یہی نہیں اُن کی زندگی اور ماضی کے بہت سے باب بھی خوشگوار نہیں۔ مگر اس میں کون سی ایسی بات تھی جو گلا لئی کو اب پتہ چلی اور پہلے معلوم نہیں تھی۔ عمران خان پر جتنے بھی الزامات ابھی لگائے جارہے ہیں اُن میں سے ہر الزام اُن پر سیاست میں آنے سے پہلے بھی لگ سکتا تھا پھر اس کی تکرار اب کیوں کی جارہی ہے؟عمران خان ایک بہت بڑا معرکہ سر کرچکے ہیں۔ وہ وزیراعظم نہ بھی بنیں تب بھی نوازشریف کی سیاست کا تابوت تیار کرنے کا معرکہ اتنا بڑا ہے کہ وہ اُن کی اب تک کی کامیابیوں میں شاید پہلے درجے میں شمار ہو۔ نوازشریف کا جن کوئی ایسا نہیں تھا جسے کسی الہ دین کے چراغ کو رگڑ کر بوتل میں بند کیا جاسکتا۔ یہ ایک بدبودار طرزِ فکر کی ایک ایسی نوعِ سیاست تھی جس نے اپنی ایک ثقافت پید اکرلی تھی۔ اور جو پاکستان کے شب وروز کو نہ ختم ہونے والی تاریکیوں میں دھکیل چکی تھی۔ یہ مسئلہ اگلے برسوں میں پاکستان پر اعتماد اور عدم اعتماد سے جڑ چکا تھا۔یہ ایک الگ موضوع ہے جو ذرا تفصیلی تجزیے کا تقاضا کرتا ہے۔ ابھی تو مقطع میںایک سخن گسترانہ بات کی طرح گلا لئی آپڑی ہے جو اس نادر موقع کو استعمال کر نا چاہتی ہے یا جس میں استعمال ہونا چاہتی ہے۔سوال یہ پید ا ہوتا ہے کہ اُن کے پاس عمران خان کے کردار پر انگشت نمائی کے لیے ذاتی طور پر کیا کیاکچھ ہے؟اخلاقی نوعیت کے الزامات کبھی بھی عمومی نہیں ہو سکتے۔ ایک قانونی ذہن اِن الزامات کو ہمیشہ متعین طور پر زیرِبحث لاتا ہے۔چنانچہ اُن کے الزام کی تان 2013 کے ایک ایس ایم ایس پر آکر ٹوٹتی ہے۔ پھر اس ایس ایم ایس کوبھی وہ بطور ثبوت پیش نہیں کرسکی۔ اس کامطلب یہ ہے کہ وہ جو الزام لگا رہی ہے وہ عدم ثبوت کے باعث جوابی طور پر خود الزام لگانے والے کو ملزم بنانے کی نوعیت رکھتا ہے۔ مگر یہ مان بھی لیا جائے کہ 2013 کا ایک ایس ایم ایس انتہائی قابل اعتراض نوعیت کا اُنہیں عمران خان کی طرف سے ازراہِ تلطف بھیجا گیا تھا ، تو سوال یہ ہے کہ اُن کی ’’غیرت‘‘ چار سال تک کون سی وادی میں بھٹک رہی تھی ؟وہ اس دوران میں غفلت کے کس پنگھوڑے میں سکوت کی کون سی لوری سن رہی تھی؟ اتنے طویل سکوتِ حکیمانہ کے بعد اچانک وہ اس ہمتِ مردانہ اور ضربِ کلیمانہ کے لیے کیوں تیار ہوئی؟سوال اُسی وقت کا ہے ،سیاست میں جس کی معنی خیزی ارد گرد رونما ہونے والے واقعات سے منسلک رہتی ہے اور اس کی تشریح کا سیاق وسباق بنتی ہے۔
آدمی میں غیرت ہوتی ہے مگر غیرت کی کوئی سیاست نہیں ہوتی۔ مگر یہ کون سی غیرت ہے جس کا پورا سیاق وسباق سیاسی ہے۔ ہمارے نزدیک یہ پٹھان روایت کا اپنی مکروہ سیاست کے لیے غلط استعمال ہے۔اس کا ایک اور پہلو نہایت خطرناک ہے۔ گلا لئی عمران خان کے خلاف الزامات کے ساتھ بروئے کا ر آنے سے محض ایک دن پہلے عمران خان کے پاس بنی گالہ جاتی ہے۔ جہاں تحریک انصاف کے کارکن نہیں بلکہ آزاد اخبار نویس اور ٹی وی اینکرز موجود ہوتے ہیں اور گلا لئی سے عمران خان کے ہونے والے مکالموں کو خود بھی سنتے ہیں جس میں اُن کی جماعت کے اندر مختلف شکایتوں پر عمران خان اُنہیں ڈانٹ رہے ہوتے ہیں۔اس ڈانٹ ڈپٹ سے کسی کو کیا لینا دینا، مگر سوال یہ ہے کہ گلا لئی کی جانب سے عمران خان پر الزام باری سے محض ایک روز قبل وہ بنی گالہ کا سفرِ پرخطر کیوں کرتی ہے؟ساتھ ہی اُنہیں اس کی بھی وضاحت کرنا چاہئے کہ اگر اکتوبر 2013 کا الزام تاحال باعثِ خطرناک تھا تو اس پورے عرصے میں عمران خان اور اُن کی تحریک کے ساتھ وہ کیوں وابستہ رہی ؟ یہ وضاحت اس لیے ضروری ہے کیونکہ وہ اپنی پریس کانفرنس اور ٹی وی کی حد سے زیادہ رونمائی میں خواتین کو یہ مشورہ دے رہی ہے کہ وہ عمران خان اور اس جماعت سے الگ رہیں کہ یہاںخواتین کی عزتیں محفوظ نہیں۔ تو پھر اکتوبر 2013 سے اب تک وہ خود اس معاملے میں کیوں محتاط نہیں رہی؟
نوازشریف کی تاحیات نااہلیت کے بعد عمران خان ایک ہدف ہے۔ مسلم لیگ نون سے کہیں زیادہ یہ شریف خاندان کی بقا کا مسئلہ ہے۔ اور تمام آثاروقرائن یہ بتا رہے ہیں کہ نوازشریف اور اُن کا خاندان اس کا انتقام لینے پر تُلا رہے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ا س جنگ کی کوئی حدودوقیود بھی ہوگی یا نہیں؟نوازشریف کا بے نظیر بھٹو سے جنگ کا بھی ایک ماضی ہے۔ وہ اپنے سیاسی حریفوں میں خود اپنی اور مخالف صف میں بھی امتیاز کے قائل نہیں رہے۔ محمد خان جونیجو سے لے کر غلام مصطفی جتوئی تک رازونیاز کی ایک پوری دنیا آباد ہے ۔ اگرچہ اب وہ جمہوریت کی جنگ کے سرخیل ہیں۔مگر موصوف کبھی اس پورے کھیل میں جرنیلی تحفظ کے ساتھ بروئے کار رہے ہیں۔ اس تاریخ کے ساتھ جاری یہ معرکہ اخلاقی طور پر حدود آشنا نہیں رہے گا۔چنانچہ یہ اطلاعات گردش میں ہیں کہ کچھ اور بڑے فضیتے (اسکینڈلز) بھی منظرعام پر آنے کے لیے مچل رہے ہیں۔ بات اتنی نہیں۔ یہ تیاری دوسری طرف بھی ہے۔ خود شریفوں کے دامن میں بھی ایسی بہت سی ’’بجلیاں‘‘ چھپی ہیں جو اُن کے خرمن کو راکھ کا ڈھیربنا سکتی ہیں اور اس سے تحریک انصاف کے رازونیاز’’ پکے پکائے‘‘ ہیں۔ تو کیا پاکستان کی سیاسی فضاء میں ایسی دھول اُڑنے والی ہے کہ کوئی بھی منظر واضح نہ رہ سکے۔ درحقیقت یہ سارا معاملہ حضرت عیسیٰ ؑ سے منسوب اُس شہرہ آفاق محاورے کی مانند بنتا جارہا ہے کہ
’’those who live by the sword, die by the sword‘‘
( جو تلوار سے زندہ ہیں، وہ مرتے بھی تلوار سے ہی ہیں)
لطف کی بات یہ ہے کہ اس گندے اور غلیظ کھیل کے لیے خواتین خود کو مہیا کرنے کے لیے تیار بیٹھی ہیں۔ اس سے بھی بدتر معاملہ یہ ہے کہ ہم اپنی اجتماعی حیات میں جاری اس مکروہ کھیل کی دہائیوں پر پھیلی تاریخ کا شمار جمہوریت کے خانے میں کرتے ہیں اور رضاربانی جیسے سنجیدہ آدمی اس کھیل کو جاری رکھنے کے لیے اِسے جمہوریت کی تقدیس دینے کو تیار رہتے ہیں، اب اُن کا تازہ بیان سامنے آچکا ہے۔ شرم کسی کو نہیں آتی۔ کم ازکم یہ بات تو بلاامتیازِ جنس اور کسی بھی گروہ کی تفریق کے بغیر کہی جاسکتی ہے۔ اسی لیے جناب زرتشت کا یہ فقرہ حسب ِ حال لگتا ہے کہ ’’سیاست دان کھٹی قے ہے‘‘۔
٭٭…٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں