کِس کی مانیں اور کِسے رَد کریں
شیئر کریں
حمیداللہ بھٹی
رواں برس آٹھ فروری کے انتخابی نتائج کی شفافیت پر اندرونِ ملک سوالات اُ ٹھانے کا سلسلہ تو جاری ہے ہی ، بیرونِ ملک سے بھی تحفظات ظاہر کیے جارہے ہیں۔ یورپی یونین نے ووٹنگ کے عمل اور نتائج کے اعلان پر تyyyyyyyyحفظات کا اظہار کیا۔ ہمسایہ ملک چین نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیراب صاف کہہ دیا ہے کہ ترقی کرنی اور بیرونی سرمایہ کاری لانی ہے توملک میں سیاسی استحکام لائیں ،کیونکہ سیاسی استحکام کے بغیر بیرونی سرمایہ کاری نہیں آسکتی۔ ظاہرہے ایسا تبھی ممکن ہے جب سیاسی قوتوں میں محاذآرائی نہ ہو ۔دنیا کے جس ملک میں عدمِ استحکام بڑھ جائے تو عوامی رائے معلوم کرنے کے لیے انتخابات کا سہارا لیا جاتا ہے تاکہ عوام اپنی آزاد مرضی سے نمائندے منتخب کر یں مگر پاکستان میں عام انتخابات بھی سیاسی استحکام کا باعث نہیں بن سکے۔ قبل ازیں ایک عدمِ اعتماد کے ذریعے حکومت تبدیل کی گئی جو کسی طور خلافِ آئین نہیں۔ البتہ قومی اسمبلی کے توبروقت عام انتخابات کرادیے گئے لیکن دوصوبائی اسمبلیوں کے حوالے سے ایسا نہ کیا جا سکا بلکہ بلاجواز تاخیر کردی گئی ایسا کیوں ہوا؟اِس کاتسلی بخش جواب ابھی تک کسی طرف سے نہیں دیا جا سکا جس سے جانبداری کے شبہات نے جنم لیا۔ امریکی کانگریس نے پاکستانی الیکشن بارے ایک قرارداد پا س کردی ہے۔ قراداد کاحیران کُن پہلو یہ ہے کہ 98.3فیصد اراکین نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جس سے انتخابات کی شفافیت پر ایک بار پھر سوالات گردش کرنے لگے ہیںاور لوگوں میں دوبارہ چہ مگوئیاں ہونے لگی ہیں کہ کہیں نہ کہیں خرابی ہوئی ہے عوامی محافل میں قرارداد سے پاکستان کے انتخابی نتائج پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لیا جارہا ہے امریکہ کے لیے پاکستان ایک غیر اہم ملک ہے مگر پاکستان کے لیے امریکہ کی خاص اہمیت ہے کیونکہ وہ نہ صرف پاکستان کا اہم تجارتی شراکت دار ہے بلکہ دفاعی سازوسامان کے حوالے سے بھی اہمیت کا حامل ہے اسی لیے امریکی قرارداد کوبالکل نظر انداز کرناممکن نہیںبظاہر حکومتی حلقے قرارداد کو غیر اہم قراردیتے ہیں لیکن پریشانی کی کیفیت صاف محسوس ہوتی ہے۔
دفترِ خارجہ کاردِ عمل یہ ہے کہ امریکی ایوانِ نمائندگان کی جانب سے منظور کی گئی قرارداد پاکستان کے انتخابی عمل سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ یہ تبصرہ بظاہر قرارداد کو مسترد کرنے کے مترادف ہے مگر بات اتنی سادہ نہیں جتنی ظاہر کرنے کی کوشش ہورہی ہے ۔آٹھ فروری کے انتخابی نتائج کے اعلان میں کئی دن کی تاخیر سے شکوک و شبہات نے جنم لیا حکومتی جماعت کے خواجہ آصف جیسے کئی لوگ جو ابتدامیں بُری طرح ہار رہے تھے اُن کی اچانک جیت کے اعلان کو عوامی حلقے ابھی تک درست تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ۔اِ ن حالات میں امریکی قرارداد بہت اہم ہے۔ علاوہ ازیں جب سائفر بارے امریکہ نے پی ڈی ایم موقف کی حمایت کی تب وزیر ِ دفاع سے لیکر تمام حکومتی وزراء اِس امریکی حمایت کو بخوشی اپنے موقف کی درستگی قراردیتے اور بطورثبوت پیش کرتے تھے ۔حالانکہ ایسا امریکی ترجمان کی طرف سے کہا گیا تھا اب تو ایک منتخب ایوان کی طرف سے عدمِ اطمنان ظاہر کیا گیا ہے ۔لہٰذا مطمئن کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ ایسا کرنا پڑے گا تاکہ امریکیوں کو باورکرایا جا سکے کہ جو ہوا ہے وہ آئین اور انتخابی قوانین کے مطابق ہے ۔وگرنہ شکوک و شبہات کا اظہار ہو چکاکچھ یقین دلانا ہی پڑے گامگر اِس آڑ میں خدشہ ہے کہ ایسے مطالبات جو پاکستان ماضی میں پورے نہیں کرسکا اور پس وپیش کا شکاررہا ہے منوانے کے لیے دبائو بڑھایاجا سکتا ہے۔ ضرورت اِس امرکی ہے کہ پاکستان ایک تو غیر ملکی ہدایات ومداخلت روکنے کا طریقہ کار بنائے دوم تحفظات کا شکارممالک کو انتخابی شفافیت کا یقین دلانے کے لیے ملکی قواعد وقوانین سے آگاہ کرے محض سوالات پر سیخ پا ہونا دانشمندی نہیں اگر کہیں سقم موجود ہیں تو ایسا انتظام کرنا ہوگا جس سے نہ صرف جمہوریت مضبوط ہو بلکہ غیر ملکی مداخلت روکنے میں مدد ملے اور پاکستان کا جمہوری تشخص بہتر ہو۔
یہ کہنا کہ امریکی قرارداد پی ٹی آئی کی لابنگ کانتیجہ ہے ایسا الزام حقائق کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔ ایک حکومتی دانشور عرفان صدیقی فرماتے ہیں قرار داد کے بعدپی ٹی آئی کی طرف سے پاکستان پر پابندیاں لگوانے کی کوشش ہورہی ہے جبکہ وفاقی وزیر رانا تنویر بانی پی ٹی آئی کو یہودی پراڈکٹ ثابت کرنے کی کوشش میں ہیں۔ ایسے خیالات کسی طور دانشمندانہ نہیں بلکہ عدمِ استحکام کی بنیاد بنتے ہیں اور حکومت کے لیے مسائل بڑھانے کے موجب بھی، کیونکہ ایسی باتیں سراسر اشتعال انگیزی ہیں جس سے اور کچھ نہیں ملک میں انتشار اور افراتفری میں اضافہ ہوسکتاہے ایسا ہونے سے حکومتی موقف توکمزور ہو گا ہی ،حکومتی رٹ بھی زوال پذیر ہو سکتی ہے اسی لیے بہتر یہ ہے کہ ملک میں عدمِ استحکام اورمسائل بڑھانے سے گریز کیاجائے اور افہام و تفہیم کی فضابنائی جائے تاکہ سیاسی استحکام کی منزل حاصل ہو اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کیا جا سکے یادرہے کہ ملکی معیشت مسلسل زوال کا شکار ہے جسے بہتر بنانے کے لیے سرمایہ کاری ناگزیر ہے اِ ن حالات میں غیر سنجیدگی ملکی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے۔
امریکی ایوان نمائندگان کی قرار داد نے اگر حکومتی مینڈیٹ پر سوال اُٹھائے ہیں تو پی ٹی آئی کے موقف (امریکہ خلاف ہے)کوبھی بُری طرح غلط ثابت کیا ہے ۔ایسے حالات میں جب پی ٹی آئی کو کہیں سے امید کی کرن دکھائی نہیں دے رہی تھی امریکی قرارداد ایسی نعمت ہے جس سے پی ٹی آئی کو انتخابی نتائج کے حوالے سے اپنا موقف درست پیش کرنے میں آسانی ہوئی ہے لیکن اب وہ یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں رہی کہ امریکہ اُس کے خلاف ہے بلکہ قرارداد سے وہ امریکہ کی چہیتی جماعت بن کر سامنے آئی ہے۔ اسی طرح حکومتی حلقے جو کہہ رہے تھے کہ بانی پی ٹی آئی کی غلط حکمتِ عملی سے امریکہ سے تعلقات خراب ہوئے اب موجودہ حکومت کی بدولت بہتر ہونے لگے ہیں جو بائیڈن کے خط کو اپنے اسی موقف کے حق میں بطوردلیل پیش کیا جارہا تھا مگر موجودہ حالات میں حکومتی موقف زمین بوس ہو گیا ہے ۔اسی لیے جب قرار داد کے اثرات کی بات کی جاتی ہے تو اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ متاثرین میں حکومت اور پی ٹی آئی دونوں شامل ہیںپی ٹی آئی تو مولانا فضل الرحمٰن کے حوالے سے بھی اپنے موقف پر نظر ثانی کر چکی۔ اب دیکھتے ہیں حکومتی ارسطو کب امریکہ کو اپنا حمایتی کہنے کی بجائے اپوزیشن کا طرفدار کہنا شروع کرتے ہیں اور پی ٹی آئی کب امریکہ کو جمہوریت پسند ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے فی الحال تو کِس کی مانیں اور کِسے رَد کریں؟ عوام آجکل ایسی سوچ وبچار کی کیفیت میں ہے۔