میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعات منظم مغربی سرپرستی کا نتیجہ ہیں!!

قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعات منظم مغربی سرپرستی کا نتیجہ ہیں!!

جرات ڈیسک
منگل, ۴ جولائی ۲۰۲۳

شیئر کریں

سوئیڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں عین عیدالاضحی کے روز شہر کی سب سے بڑی مسجد کے باہر قرآن کریم نذر آتش کردیا گیا۔ سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی پر دنیا بھر کے مسلمان سراپا احتجاج ہیں۔ اس پر او آئی سی کا ہنگامی اجلاس بھی طلب کرکے احتجاج کیا گیا ہے اور دنیا سے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ مراکش، ایران، عراق اور اردن سمیت متعدد ممالک میں شدید احتجاج ہوا۔ مظاہرین نے سویڈن سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ یورپی یونین نے بھی قرآن پاک کی بے حرمتی کے عمل کو مسترد کردیا ایک بیان میں یورپی یونین نے کہا سوئیڈن واقعہ جارحانہ اوراشتعال انگیزی کا واضح عمل ہے۔ قرآن پاک کی بے حرمتی پر پاکستان نے بھی شدید احتجاج کیا ہے۔دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ اظہار رائے اور احتجاج کی آزادی کے لبادے میں امتیازی سلوک، نفرت اور تشدد کے لیے مشتعل کرنے والے عمل کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ دفتر خارجہ نے عالمی برادری سے اسلامو فوبیا اور مسلم مخالف نفرت کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنے کے لیے قابل اعتماد اور ٹھوس اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا۔ ایران نے سویڈش ناظم الامور کو طلب کرکے اس واقعہ پر شدید احتجاج کیا ہے۔ سویڈن میں قرآن کی بے حرمتی کے واقعے پر قائم مقام صدر صادق سنجرانی نے عالمی پارلیمانوں سے رابطے کے لیے خط بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ صادق سنجرانی نے کہا ہے کہ پاکستان کی پارلیمان، حکومت اور عوام واقعے پر شدید رنجیدہ ہیں، سویڈن حکومت فوری ایکشن لے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آزادی اظہار رائے کی آڑ میں جذبات مجروح کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، نفرت انگیز حرکتیں بین الاقوامی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہیں۔قرآن کریم کی بے حرمتی، بغداد میں سویڈش سفارتخانے پر ہزاروں افراد کا احتجاج یورپی یونین نے بھی قرآن کریم کی بے حرمتی کے عمل کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ واقعہ جارحانہ، بے عزتی اور واضح طور پر اشتعال انگیزی پر مبنی ہے۔
یورپی یونین نے اپنے بیان میں مزید کہنا تھا کہ نسل پرستی، نفرت انگیزی کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ نبی مہربانؐ کی شانِ اقدس میں گستاخی اور قرآن پاک کی توہین کوئی نیا واقعہ نہیں۔ امریکا کی سرپرستی میں مغرب کے گھناؤنے کھیل کی اپنی ایک تاریخ ہے، قرآن مقدس کی سرِعام بے حرمتی کا آغاز بھی 2010ء میں امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر گینزول میں ہوا تھا کہ جب ایک چرچ کے اسلام دشمن پادری نے نائن الیون کی یاد میں 11 ستمبر کو قرآن جلانے کا دن قرار دیا تھا۔ مسلمانوں کو صدمہ پہنچانے کے لیے قرآن مقدس کی بے حرمتی مغرب کے انتہا پسندوں کا خاص ہتھیار ہے۔ اس سال کے 21 جنوری کو اسٹاک ہوم میں ترک سفارت خانے کے سامنے دائیں بازو کے ڈنمارک نژاد سوئیڈش سیاستدان اور انتہا پسند Hard Line پارٹی کے سربراہ راسمس پلوڈن (Rasmus Paludan) نے ایک گھنٹے تک اسلام، قرآن اور متبرک شخصیات کے خلاف مغلظات بکنے کے بعد سگریٹ لائٹر سے قرآن کے نسخے کو آگ لگادی۔ اس دوران پولیس نے پلوڈن کو حفاظتی حصار میں لیا ہوا تھا۔ اس واقعے پر احتجاج کے ساتھ مسلمانوں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ عوامی مظاہروں سے حکومت بھی پریشان تھی چنانچہ پولیس نے فروری میں قرآن سوزی کو امن عامہ کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی لگادی۔ اسی دوران جرائم پیشہ ماضی کے حامل عراق سے فرار ہوکر سوئیڈن میں سیاسی پناہ لینے والے 37 سالہ سلون ممیکا کے سرپر جنون سوار ہوا اور اس نے قرآن کو انسانیت کا دشمن قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی کا علم اٹھالیا۔ سلوان اور اسلام مخالف عناصر نے قرآن سوزی پر پابندی کو آزادی اظہار پر غیر آئینی قدغن قرار دیتے ہوئے پولیس کی جانب سے قرآن سوزی پر پابندی کے حکم کے خلاف عدالت میں درخواست دیدی۔ اپریل میں عدلیہ نے فیصلہ سنایا کہ اجتماع اور احتجاج کے حق کو آئینی تحفظ حاصل ہے لہٰذا ہر قسم کے احتجاج کو تحفظ فراہم کرنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کا فرض ہے۔ یعنی قرآن سوزی کی نہ صرف سوئیڈن کے قانون میں اجازت ہے بلکہ اس ’آئینی حق‘ کا تحفظ پولیس کی ذمے داری قرار پایا۔ عدالت سے اجازت ملتے ہی سلوان ممیکا نے قرآن سوزی کے لیے عیدالاضحی کا انتخاب کیا اور اسٹاک ہوم کی مرکزی جامع مسجد کے سامنے سوئیڈن کے دو بڑے پرچم نصب کیے اور لاوڈ اسپیکر پر قومی ترانہ اور رزمیہ گیت کے دوران اس نے قرآن پر Bacan (سور کی چربی) ملی اور حقارت سے اس کے صفحات پھاڑ کر پیر تلے روندے اور پھر نسخے کو آگ لگادی۔ اس دوران سلوان کے گرد پولیس نے حفاظتی حصار بنا رکھا تھا۔
سلوان جیسے انتہا پسندوں کی دنیا میں کمی نہیں لیکن اس معاملے کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ قرآن سوزی کی واردات عدالتی حکم پر ہوئی اور پولیس نے سلوان ممیکا کو جو تحفظ فراہم کیا وہ وی آئی پی پروٹوکول کے مساوی تھا۔ اس موقع پر بھی اسلام کے بارے میں مغرب کا غیر حساس رویہ کھل کر سامنے آیا۔قرآن سوزی کی مذمت کرتے ہوئے ترک صدر طیب اردوان نے واشگاف انداز میں کہا ہے ”ہم مغرب کے متکبرین کو ان شاء اللہ سکھا دیں گے کہ مسلمانوں کی توہین آزادی اظہار نہیں ہے“۔ تحفظ اظہار رائے کا یورپی فلسفہ، انسدادِ توہین مذہب کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے۔ سوئیڈن ایک آئینی بادشاہت ہے اور وہاں سلطانِ معظم کارل سولہ گستاف (Carl XVI Gustaf) پر تنقید کی اجازت نہیں۔ اسی نوعیت کی سرخ لکیر کھینچ کر انبیا ئے کرام، الہامی کتب اور شخصیات کی حرمت و توقیر کو یقینی کیوں نہیں بنایا جاسکتا؟ اس واقعے کے بعد روسی صدر ولادمیر پیوٹن گزشتہ روز ڈاگستان کے شہر ڈربنٹ میں قائم روس کی سب سے قدیم مسجد پہنچے جہاں انہیں عید کے روز قرآن پاک کی کاپی تحفے میں پیش کی گئی۔ روسی صدر کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ”قرآن پاک مسلمانوں کی مقدس کتاب ہے، اور یہ دیگر مذاہب کے لوگوں کے لیے بھی مقدس کتاب ہونی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم جانتے ہیں کہ دیگر ممالک میں کیا ہورہا ہے، یہ لوگ دوسروں کے مذہبی احساسات کا احترام نہیں کرتے اور پھر ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ یہ کوئی جرم نہیں“۔ پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی مذمت کی ہے، سعودی وزارت خارجہ نے شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے واقعات اسلاموفوبیا کی علامت ہیں۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنانی نے کہا، ’یہ ایک اشتعال انگیز، ناجائز اور ناقابل قبول عمل ہے جس سے مقدسات کی بار بار بے حرمتی کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ او آئی سی نے بھی کوئی اپنا روایتی اجلاس منعقد کیا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان ویدانٹ پٹیل نے کہا کہ مذہبی کتب کو جلانا توہین اور دل شکنی کا باعث ہے اور قانونی ہونے کی صورت میں بھی یہ کام مناسب نہیں ساتھ ہی انہوں نے ترکیہ کو تلقین کی کہ سوئیڈن کی ناٹو کے لیے رکنیت کی جلد از جلد توثیق کردی جائے۔ ایسا ہی مذمتی بیان ناٹو کے سیکرٹری جنرل جینس اسٹولٹن برگ کا ہے۔ برسلز میں اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اس عمل کو پسند نہیں کرتے تاہم کچھ لوگوں کے لیے یہ آزادی اظہار رائے کا معاملہ ہے۔ ہمیں مسلمانوں کے جذبات کا اندازہ ہے مسلم اْمّہ کو اقوام عالم میں اپنا تشخص قائم اور برقرار رکھنے کے لیے اسلام کی آغوش کی طرف پلٹنا ہوگا۔ جدید علوم سے استفادہ وقت کی ضرورت ہے لیکن غیروں کی غلامی بہر حال تباہی کا راستہ ہے“۔ اصل بات ہی یہ ہے کہ یہ واقعات پورے دنیا کے مسلمان ملکوں کی بد بختی، پستی اور کمزوری کی علامات ہیں یہی وجہ ہے کہ سب سے بڑی اور سب اہم قابل احترام کتاب کی بے حرمتی کے باوجود امت مسلمہ خاموش اور اپنے اپنے روزمرہ کے کاموں میں مشغول ہے۔ یہ امت کی ساتھ میں بدنصیبی بھی ہے کہ بد قسمتی سے آج اس کے پاس کوئی قیادت نہیں ہے اور حکمران امریکا اور مغرب کی کاسہ لیسی میں مشغول اور بدمستیوں میں گم ہیں۔ اقوام متحدہ میں قرار داد نمبر 16/18منظور ہوئی جس کے بعد او آئی سی نے مذہبی منافرت کے خلاف بین الاقوامی معاہدہ کی کوششیں ترک کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ماضی کے تنازع کو جاری رکھنے کی اب گنجائش باقی نہیں رہی کیونکہ اس میں مذہب کی توہین سے اجتناب شامل تھا مگر بدقسمتی سے اس کے باوجود بھی دنیا کے بیشتر ممالک میں اسلام مخالف اور مذہبی شعار کی توہین کے واقعات رونما ہوتے رہے۔ سویڈن میں ہی رواں برس جنوری میں توہین قرآن کا واقعہ پیش آیا تھا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ او آئی سی کی طرف سے معاملہ بھرپور انداز میں اقوام متحدہ میں اٹھایاجاتا مگر اسی تساہل پسندی کا نتیجہ ہے کہ اس بار ملعون گستاخ نے مقامی عدالت سے اجازت لے کر قرآن پاک کی بے حرمتی کی۔ المیہ یہ ہے کہ 57 مسلمان ممالک پر مشتمل دنیائے اسلام کی اکثریت آفاقی نظام سے آج تک ہم آہنگ نہ ہو سکی۔ ایک چوتھائی عالمی آبادی پر مشتمل مسلم دنیا میں سے 49فیصد کا اعلانیہ سرکاری مذہب اسلام ہے، 51 فیصد ممالک نے اپنے آئین میں سرکاری مذہب کی نشاندہی نہیں کی یا وہ خود کو سیکولر کہلاتے ہیں جبکہ 19فیصد نے سیاسی نظام میں اسلام کو نظریاتی بنیاد قرار دے رکھا ہے۔ بہتر ہو گا اسلامی ممالک بالخصوصی او آئی سی اس حوالے سے دو ٹوک اور واضح موقف اختیار کرے اور توہین مذہب کے معاہدہ کی منظوری کے لئے کوشش تیزکی جائے تاکہ کسی شرپسند کو مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کی جرات نہ ہو۔کتنا بڑاالمیہ ہے کہ چاردانگ عالم میں موجود پونے دوارب مسلمانوں کے ہوتے ہوئے مغرب نے اظہارآزادی کے نام پر اسلام اورمسلمانوں کے خلاف طوفان بدتمیزی برپا رکھا ہے اور مغرب جس تسلسل کے ساتھ مسلم دنیا کے جذبات سے کھیلتا ہے۔یہ مغرب کی اسلام دشمنی اور طویل المیعاد منصوبہ بندی کا حصہ ہے کیونکہ مغرب یہ سمجھتا ہے کہ جب تک مسلمان قرآن مجیداوراپنے نبی ﷺ کی ذات اقدس سے عقیدت اور محبت کا اعلیٰ معیار برقرار رکھے ہوئے ہیں تو ان کے اندر سے غیرت دینی اور حمیت اسلامی کھرچی نہیں جا سکتی ہے اور جب تک مسلم سماج میں اپنے مراکز اللہ کی کتاب قرآن اورآخری نبیﷺ سے وابستگی کا جذبہ برقرار ہے مسلم سماج میں مغرب کی پیوندکاری کی تمام مذموم کوششیں ناکام اورنامراد ہوتی رہیں گی اور انہیں مغرب کی مادرپدرآزادسوسائٹی کے زیر نگیں نہیں بنایا جا سکتا۔کیونکہ یہ قرآن کی تعلیمات اوررسول اللہ ﷺ کی بے پناہ محبت ہی ہے کہ جس نے مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات کے ساتھ جوڑا ہوا ہے۔ جس دن یہ تعلق کمزور ہو گیا مسلمانوں اور غیر مسلموں میں کوئی فرق باقی نہیں رہے گا۔ پھر نہ صرف یہ کہ ان کے تہذیبی،نظریاتی، فکری اور ثقافتی ڈھانچے کو زمین بوس ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا ’فکری یلغار“ سے لے کر ”فزیکل یلغار“ تک دنیائے اسلام کو ہر طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔اغیار اور استعمار کی سازشوں سے مسلم ممالک کے مابین اعتماد کا فقدان ہے۔ بلکہ ان کا مملکتی کردار مشکوک بن چکا ہے جس وجہ سے امت مسلمہ کا وہ رعب اور دبدبہ نہ رہا جو کبھی ہوا کرتا تھا جس کے نتیجے میں
ان کی جغرافیائی سا لمیت کو سامراجی قوتوں نے پاؤں تلے روند دیا۔ وسائل امت مسلمہ کے ہیں لیکن ان پر مغرب کی اجارہ داری ہے۔ ”نیو ورلڈ آرڈر“ کی بساط پر مہرے آگے بڑھائے جا رہے ہیں اور طاقت کی بنیاد مسلم ممالک کا ناطقہ بند کر دیا گیا ہے۔ مسلم دنیا پر مغربی جارحیت مسلمانوں کو یہ دعوت فکر دیتا ہے کہ دین سے وابستگی ہماری بنیاد ہے اور بنیاد کمزور ہو جائے تو شجر سایہ دار بھی خزاں رسیدہ بوسیدہ ٹہنی کی طرح کمزور اور پامال ہو جاتا ہے مسلمان ہونے کے باوصف اگر کوئی مسلمان فکری الجھنوں کا شکار ہو تویہ بڑا المیہ ہو گا۔ فکری انتشار کی وجہ سے ایمان کا وہ معیار حاصل نہیں ہو سکتا جس کا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے تقاضا کرتا ہے۔ عالم کفر مہیب طوفان کی طرح سب کچھ اپنی لپیٹ میں لیے جا رہا ہے۔ ایک طرف اغیارکی طرف سے توہین قرآن کاارتکاب کرتے ہوئے مسلمانوں کے غیرت ایمانی کوللکاراجارہاہے تو دوسری طرف 57 مسلمان ممالک پر مشتمل مسلم دنیا با صلاحیت قیادت سے محروم ہے۔ کیا وجہ ہے کہ دنیا کے ہر گوشے میں مسلمان ہی مظلوم، مغلوب اور مصلو ب ہے۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں