کابل پہ دستک
شیئر کریں
کابل میں دوام مسجد میں گونجنے والی اذان کو ہے۔حضرتِ بلال حبشی کا تکلم اپنے ہونٹوں پہ کھِلانے والے طالبان دارالحکومت پر دستک دے رہے ہیں۔ اللہ اکبر! اللہ اکبر!!ابھی بگرام ہوائی میدان سے خود کو سمیٹنے والے امریکا کی پہلو دار شکست زیرِ بحث نہیں۔ یہ ایک طویل اور ہمہ جہت موضوع ہے، چشم کشا اور عبرت افزا بھی۔ ابھی تو مقطع میں سخن گسترانہ بات کی طرح اشرف غنی آپڑا ہے۔
امریکا کا بچہ سقہ ، اشرف غنی وہائٹ ہاؤس( قصرِ ابیض) میں ماتھا ٹیک آیا۔ کیا شاہ شجاع اور نجیب اللہ فروغ پاسکے تھے ؟آقا غلاموں کی کہاں پروا کرتے ہیں۔اشرف غنی ایسے لوگ کب حمیت رکھتے ہیں۔ مارے جاتے ہیں۔فارسی شاعر نے مگر کہاتھا:
نے علم و عمل، نہ عزّ و جاہے داریم
جاں محو ِجمالِ پادشاہے داریم
ما از سخنِ دینی و دیں خاموشیم
بر یادِ کسے نالہ و آہے داریم
(ہم نہ علم و عمل رکھتے ہیں اور نہ ہی عز و جاہ، ہم اپنی جان کو اُس بادشاہ کے جمال میں ہی محو رکھتے ہیں،
ہمیں ابحاث دینی سے کیا لینا دینا، ہم تو بس کسی کی یاد میں نالہ و فریاد و آہ و فغاں ہی میں مگن ہیں)۔
امریکا کا بچہ سقہ بھی مگن ہے۔ اشرف غنی اپنے دس رکنی وفد کے ہمراہ امریکا گیا تو کیا وہ اُس تاریخ سے لاعلم ہوگا جو کسبی کی حیا سے جنم لیتی ہے۔ جہاں دوست دشمن وقت اور بستر کے ساتھ بدلتے ہیں۔ اشرف غنی کے لیے سوچنے کا اچھا موقع تھا۔ امریکی صدر گزشتہ کئی ماہ سے اُن کی ملاقات کی درخواستوں کو ٹال رہے تھے۔ غنی امریکی صدر سے تنہا ملاقات کے خواہش مند تھے۔ مگر بائیڈن کا اِصرار تھا کہ تنہا ملاقات نہیں ہوگی، وہ خود کو ایک وسیع البنیاد نمائندے کے طور پر پیش کریں اور اپنے وفد کو اس کا آئینہ دار بنائیں۔ غنی کوایک وفد ترتیب دینا پڑا۔ اپنی بیگم کے ساتھ عبداللہ عبداللہ بھی شامل کیے گئے۔ مگر وہ کیسا ہی وفد بنا تے۔افغانستان میں بے نہاد و بنیاد ہی رہیں گے۔ چنانچہ امریکا میں اُن کے ہاتھ کچھ نہ لگ سکا۔ امریکی صدر جو بائیڈن کی طرف سے ملاقات کے لیے ٹال مٹول کے عرصے میں اشرف غنی کے پاس خود کو تولنے ٹٹولنے کا اچھا موقع تھا، وہ ضائع کر گئے۔ اُنہیں اپنے پیش رو صدر حامد کرزئی کے ساتھ جوبائیڈن کے سلوک کے متعلق کچھ معلومات جمع کرنی چاہئے تھی۔ مگر غلام کہاں ایسا کرتے ہیں۔ وہ مختلف انجام کی آرزو میں ہمیشہ یکساں سلوک کے شکار ہوتے ہیں۔
وہ نہیں، تب حامد کرزئی افغانستان کے کٹھ پتلی صدر تھے۔اُدھر امریکا میںکٹر عیسائی عقیدے سے تعلق رکھنے والے ایواینجلیکن بش۔نو قدامت پسندوں (نیوکانز) کا یہ طبقہ دنیا کو حیوانوں کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ جانوروں کی طرح شہ رگ کا خون چاٹتا ہے۔ کٹر صیہونی ان کے حلیف ہیں۔ مسلمان ان کا مشترکہ نشانا۔مسلم ممالک کی قیادت اکثر ان کا چارہ رہتی اور گماشتہ بنتی ہے۔ اِ دھر مشرف اس ٹولے کے عزائم میں آلۂ کار تھے۔ کرزئی اور مشرف میں کوئی فرق ڈھونڈے سے نہ ملتا تھا۔دونوں بش کے رنگ سے لتھرے ہوئے تھے۔ پاکستان میں مشرف بش کے نام کے امتزاج سے ”بُشرف” کہلائے۔دورِ جدید کے غلام ”دوستی” کے بھرم میں رہتے ہیں، اب کس کو یاد رہا کہ دونوں کے مابین گاڑھی چھننے سے پہلے بش ، مشرف کے نام سے بھی واقف نہ تھے۔مسلمانوں کے قاتل بش 2000ء کی اپنی انتخابی مہم میں تب مذاق بن گیا تھا، جب اُنہیں پاکستان کے صدر مشرف کا نام تک معلوم نہ تھا۔وہ طالبان کو بھی کوئی ”آل گرل پاپ گروپ ”سمجھتا تھا۔ یہ دونوں باتیں بعدازاں بش کی ٹانگیں کھینچنے اور مضحکہ اڑانے کے لیے استعمال ہوتی رہیں۔نوگیارہ کے بعد اِدھر مشرف اور اُدھر حامد کرزئی کا بش سے تعلق تکلف کے تمام پردوں کو چاک کر گیا تھا۔ باب وُد ورڈ نے اس کا احاطہ کیا: صدر بش نے کرزئی کو خاص مقام دے رکھا تھا۔ وہ ہر دوہفتوں میں ایک ویڈیو کانفرنس پر کرزئی سے بات کرتا۔ اس دوران میں کرزئی اپنے نوزائیدہ بیٹے کو گود میں بٹھائے بہلاتا رہتا”۔ بش کے بعد اُباما منصب ِ صدارت پر بیٹھے تو اُن کے پاس موجود انٹیلی جنس رپورٹ آشکار کرتی تھی: کرزئی صرف ٹینشن دے سکتا ہے، اس کے سوا کچھ نہیں”۔پھر کرزئی کے کان مروڑنے کا فیصلہ ہوا۔ اُباما نے تب اپنے نائب صدر اورآج کے صدرجوبائیڈن اور سینیٹر گراہم کو کابل بھیجا۔(برسبیل تذکرہ! ان دونوں نے ملاقات پاکستانی صدر جناب زرداری سے پہلے کی تھی۔ اسلام آبا دسے کابل جاتے ہوئے بائیڈن اور گراہم یہی سوچتے رہے کہ آخر زرداری صاحب کہنا کیا چاہتے تھے؟ موصوف کی گفتگو پاکستانیوں کو بھی سمجھنے میں اتنی ہی دشواری ہوتی ہے)۔ یہ دونوںصاحبان کابل میں کرزئی کو صرف ”رگڑا” لگانے آئے تھے۔ بائیڈن نے کرزئی سے تنہا ملاقات میں احتیاط برتی۔ مگر کھانے کے موقع پر جب کٹھ پتلی افغان حکومت کے تمام وزراء موجود تھے، کرزئی کی دُھلائی کی گئی۔ اُس کی ناکامیوں کو گنوایا گیا، پھر اعلان ہوا : کرزئی ! اب یہ نہیں ہوگا کہ جب آپ کا دل چاہا فون اُٹھا یا اور امریکی صدر سے بات کرنے کی خواہش ظاہر کردی۔ جیسے صدر بش کے دور میں ہوتا تھا”۔ کرزئی تب اپنی خجالت مٹاتا رہا۔ اس دوران میں ”جی جی، ارے کوئی بات نہیں، بالکل بالکل ” جیسے الفاظ ہی اس کی زبان سے ادا ہوتے رہے۔
بائیڈن اور گراہم کٹھ پتلی صدر پر پِل پڑے تھے، صدر کرزئی کے رگڑے کے بعد نائب امریکی صدر جوبائیڈن نے طعامی رومال (نیپکن) کھینچ کر ٹانگوں پر پھیلایا اور کھانا شروع کردیا۔ امریکی مصنّف لکھتا ہے کہ اس ملاقات کے بعد صدر کرزئی کے قریب ترین وزراء امریکی سفارت خانے فون کرکے یہ کھوج لگاتے رہے کہ کیا کرزئی کے ستارے ڈوب رہے ہیں؟ صدر اشرف غنی کو کرزئی دور کی یہ سہولت بھی حاصل نہیں۔ کیو نکہ اُن کے قریب ترین لوگ اب امریکی سفارت خانے فون نہیں کریں گے۔ وہ طالبان سے رابطے کریں گے۔ اطلاعات یہی ہیں کہ اشرف غنی کی منتشر الخیال حکومت کے اکثر پرزے اس مشق میں مصروف ہیں۔ اشرف غنی کے ہاتھ میں ہاتھ ملنے کو بھی کچھ باقی نہیں رہ گیا۔ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کی خبر یہ ہے کہ امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی کا مشترکہ نتیجہ ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے چھ ماہ کے اندر ہی افغان حکومت طالبان کے آگے ڈھ پڑے گی۔ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ مینڈکوں کی طرح پُھدک رہے ہیں تو بات سمجھ میں آتی ہے۔اگر قصر ابیض (وائٹ ہاؤس ) میں اٹھارہ ہزار اُن افغان مترجمین کی زندگیوں کے حوالے سے پریشانی لاحق ہے جو امریکی افواج کے لیے کام کرتے تھے، تو اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کو زیادہ پریشان ہونا چاہئے۔امریکی چمنی سے نکلنے والے دھویں کا رنگ کثیف ہے اور کابل کی کٹھ پتلیوں کی زبان سے نکلنے والی بھاپ بدبو دار۔ انگریزوں کے بچہ سقہ اور شاہ شجاع یہاں پنپ نہ سکے تھے، روس کا نجیب اللہ برقرار نہ رہ سکا تھا۔ اب امریکیوں کا بچہ سقہ ، اشرف غنی بھی کہاںباقی بچے گا۔کابل میں طالبان دستک دیتے ہیں جہاں دوام صرف مسجد میں گونجنے والی اذان کو ہے۔ طالبان اپنی عبادتوں میں وقت کے پابند ہیں،یہ وقت کابل میںاللہ کی کبریائی بیان کرنے کا ہے۔روس نہ امریکا ، سپر پاؤر ہے اللہ۔۔ اللہ اکبر ! اللہ اکبر!!
٭٭٭٭٭٭