میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
افریقا میں عیسائیوں کی جانب سے مسلمانوں کاقتل عام۔۔مغربی میڈیا کوسانپ سونگھ گیا

افریقا میں عیسائیوں کی جانب سے مسلمانوں کاقتل عام۔۔مغربی میڈیا کوسانپ سونگھ گیا

ویب ڈیسک
منگل, ۴ جولائی ۲۰۱۷

شیئر کریں

ایک لاکھ 30 ہزار افراد پر مشتمل مسلمانوں کے شہر بنگوئی میں اب صرف ایک ہزار لوگ رہ گئے ،ہزاروں مسلمان ، لاکھوں دربدر
عیسائی ملیشیا کی اکثریت بچہ فوجیوں پر مشتمل ہے جو منشیات کے عادی ہیں اور منشیات کے نشے میں ہی کارروائیاں کررہے ہیں
ایڈمنڈو بر
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تازہ ترین رپورٹ میں انکشاف کیاگیاہے کہ ہیرے پیدا کرنے والا دنیا کا بارہواں سب سے بڑا ملک اور تیل کے وسیع ذخائر اور یورینیم سمیت دیگر قیمتی معدنیات سے مالامال افریقا کاچھوٹا ساملک وسطی افریقی جمہوریہ ان دنوں شدید خلفشار کاشکار ہے اور وسطی افریقی جمہوریہ میں عیسائیوں کے گروہ مسلمانوں کا قتل عام کررہے ہیں لیکن پور ی دنیا کا میڈیا خاص طورپر معمولی معمولی باتوں پر آسمان سر پر اٹھالینے والا مغربی میڈیا اس قتل عام پر بالکل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے جیسے ان سب کو سانپ سونگھ گیاہو ۔ میڈیا کی جانب سے مسلمانوں کے قتل عام کے ان واقعات کی رپورٹنگ سے گریز کی وجہ سے اس قتل عام میں ملوث گروہ کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے اور کوئی روک ٹوک نہ ہونے کی وجہ سے وہ زیادہ سنگدلی کے ساتھ مسلمانوں کو نشانا بنارہے ہیں ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کے اس قتل عام میں انتہا پسند عیسائی نوجوان جن میں سے بیشتر کا شمار بچہ فوجیوں میں ہوتاہے، یہ لوگ نسلی صفائی کے نام پر اس قتل عام میں مصروف ہیں اور ان کا مقصد اپنے معاشرے کو مسلمانوں سے پاک کرنا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق فوجی تربیت حاصل کیے ہوئے ان نوجوان عیسائیوں کی جانب سے قتل عام سے بچنے کے لیے سیکڑوں مسلمانوں نے وسطی افریقی جمہوریہ کے سرحدی شہر ’’بنگاسو‘‘ کی ایک مسجد میں پناہ لے رکھی ہے جہاں انھیں بنیادی سہولتوں کی شدید کمی کاسامناہے۔
اقوام متحدہ کے حکام اور امدادی کارکنوں کے مطابق عیسائی ملیشیا نے گزشتہ اختتام ہفتہ مسلمانوں کے خلاف کارروائی کے دوران کم از کم 30 مسلمانوں کو شہید کیا جس کے بعد علاقے کے مسلمان عیسائی ملیشیا کے حملوں اور اس قتل عام سے بچنے کے لیے مساجد اور دیگر مقامات پر پناہ لیے ہوئے ہیں۔ رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق کانگو کی سرحد کے قریب واقع شہر بنگاسو پر گزشتہ اختتام ہفتہ حملے کے دوران حملہ عیسائی ملیشیا نے بھاری ہتھیار استعمال کیے ،ان کا واضح ہدف مسلمان تھے ،خبر ایجنسی کے مطابق ان کے اس حملے سے ظاہرہوتاہے کہ اس ملک کی ناکا بندی کی صورت حال خراب سے خراب تر ہورہی ہے۔
اس جنگ زدہ علاقے میں کام کرنے والے اقوام متحدہ کے مشن ’’مینوسکا‘‘ کے سربراہ پرفیٹ اونانگا انوانگا نے رائٹرز کو بتایا کہ صورت حال انتہائی خراب اور مخدوش ہے اور اب ہم بنگاسو شہر کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مشن ’’مینوسکا‘‘ کے سربراہ پرفیٹ اونانگا انوانگاکے مطابق عیسائی ملیشیا کی اکثریت بچہ فوجیوں پر مشتمل ہے جو منشیات کے عادی ہیں اور منشیات کے نشے میں ہی کارروائیاں کررہے ہیں۔
اس علاقے میں امدادی کاموں میں مصروف ریڈ کراس کے سربراہ انٹونی ایم بائو بوگو نے بتایا کہ حالیہ لڑائی کے دوران ان کے عملے کے ارکان نے بنگاسو میں مرنے والوں کی 115 لاشیںدیکھی تھیں۔خبر رساں اداروں کی رپورٹوں کے مطابق امریکی عوام اس سنگین صورت حال سے ناواقف معلوم ہوتے ہیں جبکہ امریکی حکومت اس پر توجہ دینے کو تیار نظر نہیں آتی جس کی وجہ سے صورتحال کی سنگینی بڑھتی جارہی ہے اورایسا محسوس ہورہاہے کہ یہ سلسلہ ابھی کچھ عرصہ جاری رہے گا۔
اس حوالے سے خبر دیتے ہوئے گارجین نے لکھاہے کہ اس جنگ کے نتیجے میں ہزاروں مسلمان قتل یا دربدر کئے جاچکے ہیں، اخبار لکھتاہے کہ لڑائی شروع ہونے سے قبل ایک شہر بنگوئی میں مسلمانوں کی آبادی کم وبیش ایک لاکھ 30 ہزار افراد پر مشتمل تھی اور اب اس شہر میں مسلمانوں کی آبادی ایک ہزار سے بھی کم ہوچکی ہے۔
رائٹر کاکہنا ہے کہ عیسائی ملیشیا کے بدمست فوجی اپنے سامنے آنے والے ہر ایک انسان کو کچل کر رکھ دینے کی کوشش کررہے ہیں جس کااندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ بنگاسو میں اقوام متحدہ کے اڈے کو بھی حملے کانشانہ بنایا جاچکاہے۔
وسطی افریقی جمہوریہ میں یہ لڑائی 2013 سے اس وقت سے جاری ہے جب مسلمان جنگجوئوں نے اس وقت کے صدر فرانکوئس بوزز کو اپنا عہدہ چھوڑنے پر مجبور کردیاتھا اس کے بعد سے اس چھوٹے سے ملک میں نسلی صفائی کے نام پر لڑائی کاسلسلہ جاری ہے اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں کہاگیاہے کہ نسلی صفائی کے نام پر جاری یہ لڑائی اب پھیلتی اور سنگین صورت اختیار کرتی جارہی ہے۔
اس لڑائی میں شدت آنے اور اس کے سنگین صورت اختیار کرنے کے باوجود مغربی میڈیا کی جانب سے اس کو زیادہ نمایاں نہ کرنے اور اس لڑائی سے ہونے والی تباہ کاریوں کی خبروں کو دبائے جانے اور اس حوالے سے مکمل خاموشی اختیار کیے جانے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس لڑائی میں صرف ارد گرد کے مسلمان ممالک کے جنگجو ہی شہریوں کو دہشت زدہ کرنے میں مصروف نہیں ہیں بلکہ عیسائی ملیشیا بڑے پیمانے پر تباہ پھیلارہی ہے اور بڑی تعداد میں مسلمانوں کو قتل اور اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کررہی ہے۔
2015 میں اقوام متحدہ کا جو ترقیاتی انڈیکس جاری کیاگیا، اس میں بتایاگیا تھا کہ ہیروں، قیمتی معدنیات اور تیل کی دولت سے مالامال اس ملک کے عوام کو جدید دور کی سہولتیں دستیا ب نہیں ہیں، اور عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے اعتبار سے اس ملک کا شمار سب آخر میں ہوتاہے۔جبکہ خانہ جنگی کی صورت حال نے اس ملک کانقشہ بگاڑ کررکھ دیاہے۔2015 کے بعد اس صورتحال میںکسی طرح کی بہتری کے بجائے حالات اور خراب ہوتے چلے گئے ،اس لئے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اقوام متحدہ اس ملک میں خانہ جنگی کی صورت حال کاخاتمہ کرنے اور اس ملک کے مسلمانوں کو عیسائی ملیشیا کے حملوں سے بچانے کیلئے فوری طورپر اپنے فوجی وہاں بھیجے اورجو مکمل امن کے قیام اور بے لگام عیسائی ملیشیا کے مکمل خاتمے اوربیخ کنی تک وہاں موجود رہے تاکہ اس افریقی ملک کے عوام بھی سکھ کاسانس لے سکیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں