میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ججز کے خلاف سوشل میڈیا مہم چلانے والوں کا پتہ لگائیں، اسلام آباد ہائیکورٹ

ججز کے خلاف سوشل میڈیا مہم چلانے والوں کا پتہ لگائیں، اسلام آباد ہائیکورٹ

ویب ڈیسک
منگل, ۴ جون ۲۰۲۴

شیئر کریں

اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس بابر ستار کے خلاف سوشل میڈیا مہم اور فیملی کا ڈیٹا لیک کرنے پر توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے ہدایت دی کہ جنہوں نے سوشل میڈیا مہم کا آغاز کیا ان کا پتا لگائیں۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی کی سربراہی میں 3 رکنی لارجر بینچ نے مقدمے کی سماعت کی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس سردار اعجاز اسحق خان بینچ میں شامل ہیں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دگل عدالت میں پیش ہوئے ۔سماعت کے آغاز پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ایف آئی اے حکام کو ہدایت کی کہ جنہوں نے سوشل میڈیا مہم کا آغاز کیا ان کا پتا لگائیں، جو اصل لوگ ہیں ان کا تعین کریں، ہم آرڈر کردیں گے آپ اصل ذمہ داروں کا تعین کریں۔جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ مہم کا آغاز کرنے والے لوگوں کے خلاف تحقیقات کریں، آپ نے ان کا تعین کرنا ہے جنہوں نے جج کی فیملی کا ڈیٹا سب سے پہلے شیئر کیا، ہم اس حوالے سے ایک مناسب آرڈر بھی جاری کر دیں گے ۔جسٹس سردار اعجاز نے ریمارکس دئیے کہ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ایک ہی روز میں تین مختلف مہم چلائی گئیں؟ اگر ملک دشمنوں کی جانب سے فائیو جی وار شروع کردی جائے ، اگر ملک دشمن یہ الزام عائد کردیں کہ آرمی چیف، صدر مملکت توہین مذہب کے مرتکب ہوئے ہیں اور ان الزامات کے نتیجے میں جلاؤ گھیراؤ ہو، بلڈنگز کو جلا دیا جائے تو کیا آئی ایس آئی ان ملک دشمن عناصر کو ٹریس کر سکے گی یا نہیں؟جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ یہ ایک ہاں اور نا کا سوال ہے ، بتائیں آپ کی استعداد ہے کہ نہیں؟جسٹس اعجاز نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ حکومت کے پاس فائیو جی وار فیئر کے خلاف کوئی سافٹ ویئر موجود نہیں؟ آپ بتائیں کہ فائیو جی وار فیئر کا مقابلہ کرنے کے لیے آپ کے پاس کیا وسائل موجود ہیں؟ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ قومی سلامتی کے معاملات خفیہ ہے تو سربمہر لفافے میں جمع کرا دیں۔ جسٹس سردار اعجاز اسحق خان نے حکام کو کہا کہ آپ نے ہمیں بہت مایوس کیا ہے ، ایف آئی اے نے اس رپورٹ سے بہت بہتر رپورٹ جمع کروائی ہے ، ہم سپیرئیر ایجنسی سے ویسا ہی کام کی توقع کررہے تھے ، جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی اے نے واقعی بہت کام کیا ہے ۔عدالت نے استفسار کیا کہ کیا گرین کارڈ والے کو امریکی شہری کہیں گے ؟ امیگریشن حکام نے بتایا کہ وہ امریکی شہری نہیں ہے ۔جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ جج کی انفارمیشن جو صرف ایف آئی اے کے پاس ہوسکتی تھی وہ کسی سسٹم سے نکال کر اپلوڈ ہوئی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٹریول دستاویز پبلک ہوئی ہیں۔بعد ازاں عدالت نے سسٹم سے دستاویزات نکالے جانے پر ڈی جی امیگریشن ڈیپارٹمنٹ سے رپورٹ طلب کرلی۔عدالت نے ریمارکس دئیے کہ کیا یہ بتا سکتے ہیں کہ سسٹم میں معزز جج کی یہ انفارمیشن کتنی بار چیک کی گئی؟ آپ نے بتانا ہے کہ یہ انفارمیشن کیسے لیک ہوئی، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کہا کہ ڈی جی امیگریشن کہتے ہیں کہ یہ انفارمیشن ہمارے پاس نہیں ہوتی۔امیگریشن حکام نے بتایا کہ ہماری تکنیکی ٹیم آئندہ سماعت پر عدالت کی معاونت کردے گی، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ انفارمیشن کے لیے لاگ ان کیا گیا ہوگا وہ آپ نے بتانا ہے ۔عدالت نے آئی ایس آئی سے دوبارہ رپورٹ طلب کرلی۔جسٹس محسن اختر نے کہا کہ آپ نے اسٹینڈ لے لیا ہے کہ پی آر کارڈ ہونے کا مطلب امریکا کی شہریت نہیں ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پی آر کارڈ ہونے کا مطلب شہریت نہیں ہے ۔بعد ازاں کیس کی سماعت تین ہفتوں تک ملتوی کردی گئی، عدالت نے ریمارکس دیے کہ آئندہ کی تاریخ تحریری حکمنامہ میں ہوگی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں