میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
جسٹس فائزعیسیٰ کیس ، جج کی بددیانتی یاکرپشن دکھائیں، سپریم کورٹ

جسٹس فائزعیسیٰ کیس ، جج کی بددیانتی یاکرپشن دکھائیں، سپریم کورٹ

ویب ڈیسک
جمعرات, ۴ جون ۲۰۲۰

شیئر کریں

سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کو چیلنج کرنے کے معاملہ پر سماعت کے دور ان حکومتی وکیل فروغ نسیم سے عدالتی بینچ نے مختلف سوالات کیے ہیں وفاقی حکومت سے تحریری معروضات طلب کی ہیں جبکہ جسٹس عمر عطا بندیال نے حکومتی وکیل سے کہا ہے کہ قانون دکھا دیں جس کے تحت جج کو اپنی اور خاندان کے افراد کی جائیداد کو ظاہر کرنا ضروری ہے؟ جسٹس قاضی فائز پرکرپشن کا الزام نہیں توایمنسٹی اسکیم کا حوالہ کیوں دیا گیا؟بظاہرلگتا ہے ٹیکس قانون کی پیروی نہیں کی گئی،جج کی بددیانتی یا کرپشن دکھائیں،کچھ ایسا بتائیں جس سے جرم سامنے آئے،سیکشن 5 کے تحت جج کیلئے غیرملکی جائیداد ظاہرکرنے کی پابندی نہیں۔بدھ کو عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست پر سماعت کی۔خیال رہے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس بھیجا گیا تھا جسے سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا تھا۔معاملے پر اب تک طویل سماعتیں ہوچکی ہیں جبکہ سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان اس کیس میں پہلے وفاق کی نمائندگی کر رہے تھے تاہم ان کے مستعفی ہونے کے بعد نئے اٹارنی جنرل نے مذکورہ معاملے میں حکومتی نمائندگی سے انکار کردیا تھا۔بعد ازاں مذکورہ معاملے کی 24 فروری ہونے والی آخری سماعت میں عدالت نے حکومت کو اس معاملے کے ایک کْل وقتی وکیل مقرر کرنے کا کہا تھا جس کے بعد مذکورہ معاملے میں وفاقی کی نمائندگی کے لیے فروغ نسیم نے وزیر قانون کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اب وہ اس کیس میں پیش ہورہے ہیں۔اس کیس کی گزشتہ روز ہونے والی سماعت میں عدالت نے حکومتی وکیل سے 4 سوالوں پر جواب طلب کیے تھے جبکہ فروغ نسیم نے ساتھ ہی ایک ‘گمشدہ’ دستاویز پیش کرکے سپریم کورٹ کو بھی حیران کردیا تھا کیونکہ اسی کی بنیاد پر جسٹس عیسیٰ کے خلاف بدعنوانی پر مبنی پورا صدارتی ریفرنس بھیجا گیا تھا لیکن یہ دستاویز نہ تو ریفرنس اور نہ ہی عدالت عظمیٰ کے پاس موجود تھا۔معاملے کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو حکومتی وکیل فروغ نسیم روسٹرم پر آئے اور کہا کہ میں عدالتی سوالات کا جواب دینے سے قبل چند حقائق عدالت کے سامنے رکھوں گا۔فروغ نسیم نے عدالت کو بتایا کہ 10 اپریل 2019 کو عبدالوحید ڈوگر نے اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو شکایت بھیجی۔ اپنے دلائل دیتے ہوئے فروغ نسیم نے کہا کہ8 مئی کو عبدالوحید ڈوگر نے لندن کی جائیدادوں کے حوالے سے اے آر یو کو خط لکھا، جس میں میں لندن کی جائیدادوں کی قیمت خرید اور مارکیٹ ویلیو کے بارے میں بتایا۔اس پر عدالتی بینچ کے رکن جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ فروغ نسیم یہ بتائیں لندن کی جائدادوں کی معلومات کس طرح سے انٹرنیٹ پر شائع کی گئیں، وحید ڈوگر کی شکایت پر انکوائری کی تحقیقات کی اجازت کس نے دی۔جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ اے آر یو نے شکایت پر انکوائری کا آغاز کیسے کر دیا، اس پر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ عدالت کے تمام سوالات کے جوابات میرے پاس ہیں، اے آر یو نے کیسے سارے معاملے کی انکوائری کی، عدالت کو سب بتاؤں گا۔فروغ نسیم نے کہا کہ 1988 کے بعد برطانیہ میں پر جائیداد کا ریکارڈ اوپن ہے اور اے آر یو کو قانون کی مدد حاصل ہے۔اس پر بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ منی ٹریل کی بات کرتے ہیں، بظاہر یہ ٹیکس کی ادائیگی کا معاملہ ہے، اس مقدمے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر کرپشن کا الزام نہیں لگایا گیا۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ الزام ہے کہ لندن کی جائیداد ظاہر نہیں کی گئی، جو ظاہر کرنا چاہیے تھی، اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ عدالت کی بات بالکل ٹھیک ہے۔حکومتی وکیل کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بچوں اور اہلیہ نے بھی لندن کی جائیداد ظاہر نہیں کی، معزز جج کی اہلیہ نے 2014 میں اپنی آمدن 9285 روپے ظاہر کی جبکہ 2011 اور 2013 میں بچے تعلیم سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد کیسے مہنگی جائیداد خرید سکتے تھے۔انہوں نے کہا کہ 2011 اور 2013 میں بچوں کی عمر بھی زیادہ نہیں تھی، بلاشبہ قاضی خاندان امیر ہے لیکن ریکارڈ زرعی زمین پر زرعی ٹیکس ظاہر نہیں کرتا۔جس پر بینچ کے ایک اور رکن جسٹس مقبول باقر نے پوچھا کہ ایف بی آر نے اس معاملے پر کارروائی کیوں نہیں کی، اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ ایف بی آر نے خوف کی وجہ سے ٹیکس کے معاملے پر جج کے خلاف کارروائی نہیں کی۔فروغ نسیم کی بات پر پھر جسٹس مقبول باقر نے پوچھا کہ ایف بی آر حکام کارروائی نہیں کرتے تو کیا صدر مملکت قانونی کارروائی کو بائی پاس کر سکتے ہیں؟ اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ ایف بی آر حکام کو خوف تھا جج کے خلاف کاروائی کی تو انہیں کٹہرے میں کھڑا کر دیا جائے گا۔اس پر جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ یہ ذہن میں رکھیں کہ ہر ایک کو اپنا مؤقف پیش کرنے کا حق ہے، مقدمے کے حوالے سے ہر ایک چیز کا جائزہ لیا جائے گا، کسی نقطہ کو بغیر جائزہ لیے نہیں چھوڑا جائے گا، یہ بھی دیکھنا ہے کہ اہلیہ اور بچے زیر کفالت تھے یا نہیں۔اپنے ریمارکس میں انہوں نے کہا کہ اس سارے معاملے میں کسی چیز کو شارٹ کٹ نہیں کیا جاسکتا، ساتھ ہی جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ وحید ڈوگر کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے نام کا پتہ کیسے چلا؟اسی دوران جسٹس سجاد علی شاہ نے یہ کہا کہ وحید ڈوگر کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے نام کی اسپلینگ نہیں آتی تو جب نام کی اسپیلنگ درست نہیں ہوگی تو ویب سائٹ پر کیسے سرچ ہوسکتا ہے؟بینچ اراکین کے مختلف استفسار دوران ہی جسٹس مقبول باقر نے پوچھا کہ وحید ڈوگر کس میڈیا کے لیے کام کر رہے ہیں؟ ان کا ماضی کیا ہے، ان کی کی درخواست پر بڑی تیزی سے کام کا آغاز کر دیا گیا، کیا وحید ڈوگر کو غیب سے معلومات ملتی تھیں؟ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی ریمارکس دیے کہ اس ملک میں بہت سے کام غیب سے ہی ہوتے ہیں۔اس پر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ عدالتی فیصلہ کے مطابق مجھے معلومات کو دیکھنا ہے۔سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہم نے یہاں دیکھا ہے کہ غیرملکی جائیداد کو ٹرسٹ کے ذریعے چھپایا گیا، جس پر فروغ نسیم بولے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بینک ٹرنزیکشنز کا ریکارڈ دکھا دیں، میرا ایک سطر کا جواب ہے کہ منی لانڈرنگ سنگین جرم ہے۔اس جواب پر جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال کیا کہ اگر پیسے بینکوں کے ذریعے گئے ہیں تو منی لانڈرنگ کی تعریف کیا ہوگی؟اسی دوران فروغ نسیم نے صدارتی ریفرنس اور فیض آباد دھرنے کے کیس کے فیصلے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے دوسرے جج کے خلاف بھی ریفرنس فائل کیا ہے، انہوں نے تو دھرنے کا فیصلہ نہیں دیا۔ نجی ٹی وی کے مطابق فروغ نسیم کی جواب دینے والی بات پر جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ آپ کہتے ہیں کہ جواب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ دیں؟ ساتھ ہی جسٹس مقبول باقر نے یہ سوال اٹھایا کہ ایف بی آر میں انکم ٹیکس کا معاملہ کس مرحلے میں ہے؟اسی کے ساتھ بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے یہ پوچھا کہ کیا ایف بی آر کا غیرملکی جائیداد ظاہر کرنے کا کوئی قانون نہیں ہے؟


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں