دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا !
شیئر کریں
جاوید محمود
عالمی شہرت یافتہ میگزین فوربس نے رئیل ٹائم ارب پتی رینکنگ کے مطابق دنیا کے ٹاپ 10 امیر ترین افراد کی تازہ ترین فہرست شائع کر دی ہے۔ دنیا کے دس امیر ترین افراد کی لسٹ میں برنارڈ آرنالٹ 221.5 بلین ڈالر کی مجموعی مالیت کے مالک ہیں۔جیف بیزوس 200.3بلین ڈالرز کے مالک ہیں۔ ایلون مسک 191.2بلین ڈالر ،مارک زکربرگ 177.6 بلین ڈالرلیری ایلیسن 155.5 بلین ڈالر،وارن بفیٹ138بلین ڈالر کے مالک ہیں۔ بل گیٹس130.8بلین ڈالر کے مالک ہیں ۔لیری پیج 129.2 بلین ڈالر کے مالک ہیں۔ سٹیو بالمر.4 124بلین ڈالرز سرگنی برل 124 بلین ڈالر کے مالک ہیں۔ آنے والا ہر دن دولت کے حصول کی دوڑ میں اضافہ کر رہا ہے۔ قدرت نے دولت کے استعمال کے جو طریقے بتائے ہیں اگر اس پر عمل کیا جائے تو دنیا کے غریبوں میں احساس محرومی کا خاتمہ ہو جائے۔ افسوس آج دنیا کی غربت سے اموات کی جو شرح ہے وہ جنگوں کے مقابلے میں بھی بہت زیادہ ہے۔ دنیا کی صرف ایک فیصد آبادی امیر ترین لوگوں پر مشتمل ہے ۔ان میں سے بڑی تعداد اُن کی ہے جو بالواسطہ یا بلاواسطہ اقتدار کے مزے بھی لوٹ رہے ہیں۔ دنیا کے امیر ترین ممالک میں امریکہ سر فہرست ہے جس کے بعد چین دو ملین دولت مندوں اور جاپان ایک ملین دولت مندوں کے ساتھ نمایاں ہیں ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ دولت کی اپنی جگہ اہمیت ہے لیکن اس کے حصول میں اندھے پن کے مظاہرے نے جو سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ ہے نے جنگوں کو دوسرے ملکوں پر مسلط کرنے کے ساتھ اس پر قبضہ کرنے کے لیے راہ ہموار کی، جس کی بنیادوں پر عالمی سطح پر انارکی کا راج ہے۔ پس پاندہ ممالک بے بس ہیں، جبکہ ترقی پزیر ممالک کا دارومدار ترقی یافتہ ممالک کے پالیسیوں کے تحت چل رہا ہے۔ یہ دنیا کا نظام سرمایہ دارانہ نظام پر کھڑا ہے جس نظام میں غلطی کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ دولت انتہائی بے وفا چیز ہے۔ اس کے سہارے عالمی نظام پر ایمان رکھنا خطرے کی بات ہے جو ایک چھوٹی سی غلطی سے دھڑام سے گر جائے گا۔ آخر دنیا میں احساس محرومی کیوں بڑھتی جا رہی ہے اور دنیا میں امیر نہ ہوتے تو پھر غریب بھی نہ ہوتے امیری اور غربت کی وجہ سے دولت کی غیر مساوی تقسیم ہے۔ دنیا بھر کے ممالک امیر اور غریب ملکوں میں تقسیم ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک ترقی پزیر ممالک اور پسماندہ ممالک لیکن ان ملکوں کے اندر بھی امیر اور غریب کی تقسیم واضح طور پر نظر آتی ہے اسفارم انٹرنیشنل ایک فلاحی ادارہ ہے جو دنیا بھر میں عدم مساوات ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔ اسفارم کے مطابق گہانہ سے لے کر جرمنی تک اور اٹلی سے لے کر انڈونیشیا تک امیر اور غریب کے درمیان فرق بڑھتا جا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہر 10 انسانوں میں سے سات ان ممالک میں آباد ہیں جہاں گزشتہ 30 برسوں کے دوران امیروں اور غریبوں کے درمیان فرق اپنی بدترین سطح کو پہنچ چکا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے 85افراد اتنی دولت کے مالک ہیں جو مجموعی طور پر دنیا کی نصف غریب ترین آبادی کے پاس ہے جو تقریبا 3.5 ارب افراد پر مشتمل ہے۔ دولت کی اس غیر مساوی تقسیم نے دنیا کو بدصورت بنا دیا ہے اور ہر آنے والے دن اس کی بد صورتی میں اضافہ ہو رہا ہے ۔دولت کی تقسیم کے پیچھے بڑی بڑی سازشیں کام کر رہی ہیں۔ دنیا نے 21ویں صدی کی پہلی دہائی میں فائننشل سیکٹر کا بدترین بحران دیکھا ہے ۔دنیا بھر کے بڑے بڑے بینک اور اسٹاک ایکسچینج تاش کے پتوں کی طرح گرتے ہوئے دیکھے گئے اور جب اس کساد بازاری پر قابو پا لیا گیا تو دیکھنے میں آیا کہ ارب پتیوں کی تعداد میں دگنے سے زیادہ اضافہ ہو گیا۔
عدم مساوات نے دنیا کو کیسے بد صورت بنایا اس کی مثال کچھ یوں ہے کہ اگر دنیا کا امیر ترین انسان میکسیکو کا کارلو سلم اپنی دولت میں سے روزانہ 10 لاکھ ڈالرز بھی خرچ کرے تو اس کی ساری دولت کو ختم ہونے میں 220 سال لگ جائیں گے اور اگر وہ اپنی ساری دولت ایک عام سیونگ اکاؤنٹ میں رکھے تو اس کی دولت پر اسے جو منافع ملے گا اس کی رقم روزانہ 43 لاکھ ڈالر سے زیادہ ہوگی۔ ایک اور اندازے کے مطابق اگر دنیا کے تین دولت مند ترین افراد روزانہ 10 لاکھ ڈالرز بھی صرف کریں تو ان کی دولت 200 سال تک ختم نہ ہوگی یعنی ان کی نسل در نسل اس دولت سے مستفید ہوتی رہے گی ۔عدم مساوات ہمارے عہد کا اہم ترین مسئلہ ہے جب ایک طرف دنیا کے امیر ترین افراد کی تعداد دگنی ہوئی تو دوسری طرف اسی دوران کم از کم 10 لاکھ مائیں بچوں کی پیدائش کے دوران موت کا شکار ہو گئیں کیونکہ انہیں طبی نگہداشت کی سہولتیں میسر نہیں تھیں ۔ایک ایسی دنیا جہاں اس دنیا کے پسماندہ ممالک کے لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں جنہیں پیٹ بھر کر کھانا نہیں ملتا جہاں اسکولوں سے بچے اس لیے باہر ہیں کہ ان کے والدین ان کی تعلیم کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ لاکھوں نوزائیدہ بچے اپنی عمر کے پہلے سال ہی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور جو بچ جاتے ہیں وہ مختلف امراض کی لپیٹ میں ا جاتے ہیں۔ کیونکہ ان ملکوں میں انہیں صحت کی سہولتیں حاصل نہیں ہیں ۔تصور کریں جنوبی افریقہ میں عدم مساوات اب اس سطح سے بھی بڑھ گئی ہے جب وہاں نسل پرست حکومت قائم تھی ۔گہانہ میں ایک بچے کو اسکول بھیجنے کے لیے خاندان کو اپنی آمدن کا 40 فیصد حصہ صرف کرنا پڑتا ہے۔ دنیا کی 70 فیصد آبادی ایسے ملکوں میں رہتی ہے جہاں گزشتہ تین برسوں میں دولت کی غیر مساوی تقسیم میں مزید اضافہ ہوا ہے ۔سرمایہ دارانہ نظام کے حامیوں کا یہ کہنا ہے کہ اگر دولت چند ہاتھوں میں مرتکز بھی ہو جائے تو اس کا بآلاخر فائدہ عوام کو ہی پہنچتا ہے کیونکہ یہ لوگ سرمایہ کاری کرتے ہیں جس سے صنعتوں اور کاروبار کو فروغ ملتا ہے لوگوں کو روزگار ملتا ہے ان کی آمدنیوں میں اضافہ ہوتا ہے اور فلاحی ادارے چلائے جاتے ہیں جن سے ضرورت مندوں کو فائدہ پہنچتا ہے لیکن مخالفین کہتے ہیں کہ غریب اپنے حقوق سے دستبردار ہو کر اس کی قیمت چکاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان فلاحی اداروں کی ضرورت ہی اس لیے پڑتی ہے کہ دولت کی تقسیم منصفانہ نہیں ہے اگر دولت منصفانہ انداز میں تقسیم ہو تو کسی شخص کو فلاحی اداروں کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہی نہ ہو۔ ماہرین کے اعداد و شمار کے مطابق اگر ایک ارب ڈالر سے زیادہ دولت رکھنے والوں کی دولت پر 1.5فیصد کی شرح سے ٹیکس لگا دیا جائے تو اس سے سالانہ 74 ارب ڈالرز آمدنی ہو سکتی ہے اور یہ رقم اتنی ہوگی کہ دنیا کا ہر بچہ اسکول میں داخلہ لے سکتا ہے اور دنیا کے غریب ترین ممالک کو صحت کی نگہداشت کی سہولتیں حاصل ہو سکتی ہیں ۔کیا دولت مند افراد صرف ترقی یافتہ ممالک ہی میں ہیں۔ شاید ایسا نہیں ہے امیر اور غریب کا فرق ترقی پزیر اور پسماندہ ممالک میں زیادہ واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں کم از کم آبادی کی وسیع حصوں کو تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بنیادی سہولتیں حاصل ہیں ۔جبکہ ترقی پزیر اور پسماندہ ممالک میں دولت کی غلط تقسیم اپنی انتہاکو پہنچ چکی ہے۔ آج پاکستان میں 10 ملین افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں لیکن ماہرین معاشیات کے مشوروں کے باوجود حکومتیں ایسی پالیسیاں بنانے میں ناکام رہی ہیں جن کے نتیجے میں معیشت کی ترقی کا فائدہ عوام تک پہنچے۔ ٹیکسوں کا نظام ایسا ہے کہ دولت مندوں کو ٹیکسوں میں چھوٹ ملتی ہے اور سارا بوجھ اس طبقے پر لاد دیا جاتا ہے جو پہلے ہی بھاری ٹیکسوں کی زد میں ہیں ۔نتیجہ یہ ہے کہ امیر اور غریب کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ نادار طبقے کو بنیادی سہولتیں حاصل نہیں ہیں جبکہ سرمایہ داروں کی آمدنیوں میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے۔ جس کی وجہ سے جرائم اور بدعنوانیاں پرورش پاتی ہیں ۔نتیجتاً حکومت پر عوام کا اعتماد کمزور پڑتا جاتا ہے اور سیاسی بے چینی پیدا ہوتی ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشی پالیسیاں عوام دوست ہوں اور معاشی ترقی کا زیادہ فائدہ عوام تک پہنچے ٹیکس کے نظام میں اصلاح کی جائے اسے منصفانہ بنایا جائے تاکہ دولت مند افراد ٹیکس ادا کریں جتنا انہیں دینا چاہیے۔ عوام کے لیے بنیادی خدمات فراہم کرنے کے منصوبوں مثلا تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بڑھتی ہوئی شرح سے سرمایہ کاری کی جائے ہر شخص کو روزگار اور مناسب معاوضے کی ضمانت دی جائے۔ ایسی معاشی پالیسیاں بنائی جائیں کہ عورتوں اور مردوں کو مساوی کام کا مساوی معاوضہ ملے۔ ان کے درمیان جنس کی بنیاد پر اُجرت کا فرق ختم کیا جائے ۔حکومتیں اپنے عام شہریوں کی ضروریات کو ترجیحی بنیادوں پر پورا کریں نہ کہ دولت مندوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جائے۔ مختصر یہ ہے کہ دنیا بھر میں دولت کی تقسیم کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ تمام ممالک ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں ۔باہمی تعاون کے ذریعے ہی دنیا بھر سے غربت کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام اس بڑی تبدیلی کے لیے نیک نیتی سے مخلص ہو۔ نظام کی بہتری کے ساتھ ساتھ ہمیں ایک دوسرے کا برے وقت میں ساتھ دینا چاہیے ۔اگر ہم ایسا کریں تو ہمارے بڑے بڑے مسئلے حل ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ مسلمان ہونے کے ناطے ہم پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اللہ کے احکامات پر عمل کریں ۔اللہ کا فرمان ہے کہ میں جسے چاہوں بے حساب دوں جسے چاہوں نپاتلا۔
جن کے پاس بے حساب ہے ان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے رشتہ داروں ،دوستوں اور سفید پوش لوگوں کی اس طرح مدد کریں کہ ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو اگر یہ سلسلہ شروع ہو جائے تو غربت اپنی موت آپ مر جائے گی اور جرائم بھی سر نہ اٹھا سکیں گے ۔ دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا۔