بلوچستان کے نومنتخب وزیر اعلیٰ کے عزائم
شیئر کریں
پاکستان پیپلز پارٹی کے میر سرفراز بگٹی نے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کا حلف اٹھالیا ہے۔اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی نے اسپیکر کیلئے ہونے والی پولنگ کے بعد نتائج کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ میر سرفراز بگٹی 41 ووٹ لیکر وزیراعلیٰ منتخب ہو گئے ہیں۔ بلوچستان کی وزارت اعلیٰ کیلئے صرف سرفراز بگٹی نے کاغذات جمع کرائے تھے، ان کو مسلم لیگ ن اور بلوچستان عوامی پارٹی کی حمایت بھی حاصل تھی اس طرح وہ بلامقابلہ اس مسند کیلئے منتخب ہوئے ہیں۔بلوچستان اسمبلی کے 51 رکنی ایوان میں پیپلز پارٹی کے اراکین کی تعداد 11 ہے جبکہ مسلم لیگ ن 10 سیٹوں کے ساتھ دوسرے اور بلوچستان عوامی پارٹی 5 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے، 6 آزاد امیدوار بھی 8 فروری کو ہونے والے الیکشن میں کامیاب قرار پائے۔اسپیکر بلوچستان اسمبلی کے مطابق میر سرفراز بگٹی کے حق میں 41 ووٹ کاسٹ کیے گئے، جس کے بعد انہوں نے سرفراز بگٹی کو بلامقابلہ وزیراعلیٰ منتخب ہونے پر مبارکباد دی۔نیشنل پارٹی کے چاروں ارکان اسمبلی نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا جبکہ جمعیت علمائے اسلام سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی ایوان میں موجود نہیں تھے۔
سرفراز بگٹی 1981 میں قبائلی رہنما میر غلام قادر مسوری بگٹی کے گھر پیدا ہوئے، ان کے والد بدلتی سیاسی فضا کا اندازہ لگانے کی صلاحیت رکھتے تھے، یہی وجہ ہے کہ وہ جنرل ضیا کی مجلس شوریٰ کا حصہ رہنے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے۔غلام قادر مسوری بگٹی اپنی وفات تک پیپلز پارٹی کے ساتھ ہی رہے یہاں تک کہ جنرل مشرف کی آمریت میں بھی انہوں نے جماعت کا ساتھ نہیں چھوڑا اور اس کی وجہ سے بیرونی دباؤ بھی برداشت کیا۔ ان کے بیٹے سرفراز بگٹی بھی اسی روایت پر کاربند ہیں، انہوں نے لارنس کالج مری سے اپنی تعلیم مکمل ہونے کے بعد 2013 میں سیاست کے میدان میں قدم رکھا۔ 2013 میں ہونے والے عام انتخابات میں سرفراز بگٹی نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑا اور بعد میں پاکستان مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کرلی، کچھ ماہ بعد ہی انہیں صوبے کا وزیر داخلہ بنا دیا گیا۔سرفراز بگٹی نے بطور وزیر داخلہ صوبے میں امن و امان قائم کرنے کی کوششیں کیں اور ان کی زیر قیادت لیویز فورس میں کئی حوالے سے جدت لائی گئی۔ اس دور میں صوبے میں امن و امان قائم کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا، سرفراز بگٹی پر 17 حملے ہوئے اور انہیں اپنے دوستوں اور رشتے داروں کی ہلاکتوں کا صدمہ بھی برداشت کرنا پڑا۔2018 کے عام انتخابات میں سرفراز بگٹی انتخابی کامیابی تو حاصل نہ کرسکے لیکن سینیٹ کی نشست حاصل کرکے پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں پہنچ گئے، 2021 میں وہ دوسری مرتبہ سینیٹر منتخب ہوئے۔سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور نواب ثنا اللہ زہری کی حکومتوں میں سرفراز بگٹی نے بحیثیت وزیرداخلہ اپنی خدمات پیش کیں۔2024 کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد ہی سرفراز بگٹی نے اپنے منصب سے استعفیٰ دے دیا اور آنے والے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر بلوچستان اسمبلی کے رکن کا انتخاب لڑنے کا اعلان کیا اور الیکشن میں کامیابی بھی حاصل کی۔صوبائی وزیر داخلہ کی
حیثیت سے میر سرفراز بگٹی نے امن وامان کی قیام کے لیے بے شمار اقدامات کئے تاہم ان کے دور میں سانحہ مستونگ سمیت افسوسناک واقعات پیش آئے۔انہوں نے لیویز فورس کو جدید خطوط پر آراستہ کیا اور ہمیشہ پاکستان مخالف ایجنڈے کی نفی کرتے ہوئے اس میں ملوث عناصر کے خلاف علم بغاوت بلند رکھا۔میر سرفراز بگٹی پر 17 بار شر پسند عناصر کی جانب سے حملے کیے گئے۔
اب جبکہ بلوچستان جیسے صوبے کے وزیر اعلیٰ کی ذمہ داریاں انھوں نے قبول کرلی ہیں،وفاق، سندھ اور پنجاب میں اپنا اثر رکھنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کی حمایت کے باوجود ان کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ جغرافیائی طور پر ملک کے سب سے بڑے صوبے میں امن لوٹ آئے اوراس صوبے کے باشندوں میں یہ احساس ختم ہو کہ انہیں نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ صوبے کے معصوم لوگوں کی جبری گمشدگیوں کاسلسلہ ختم ہو اور جو لوگ بوجوہ غائب کئے گئے ہیں وہ اپنے گھروں کو اپنے پیاروں کے پاس لوٹ سکیں تاکہ صوبے کے لوگوں میں اس یقین کو تقویت ملے کے اب ان کے صوبے کا سربراہ ایک ایسا شخص ہے جس کے دل میں ان کا درد موجود ہے، جو یہ جانتاہے کہ جبری طورپر غائب کئے جانے والے فرد کے عزیز واقارب ماں باپ بیوی بچے ایک ایک لمحہ کس کرب میں گزارتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے بعد نومنتخب وزیرِ اعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ کب تک ہم اپنے مسائل کیلئے دوسروں کو مورد الزام ٹہرائیں گے، مفاہمت کی سیاست وقت کی ضرورت ہے۔بلوچستان اسمبلی کے اجلاس کے دوران خطاب کرتے ہوئے سرفراز بگٹی نے وعدہ کیاہے کہ ہم بلوچستان کے لوگوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں گے، ہم وفاق کے سامنے بجلی اور گیس کے مسائل اٹھائیں گے، ہم صوبے کے حقوق کی آواز بنیں گے، مرکز کے ساتھ مسائل ترجیجی بنیاد پر حل کریں گے۔ صوبے کے غریب بچوں کو اسکول بھیجیں گے، اسکول ٹھیک کرنے کا روڈ میپ دیں گے، سب سے بڑا چیلنج گورننس کا ہے، تعلیمی شعبے میں ایمرجنسی نافذ کر دی ہے، ریونیو اور ٹیکس نیٹ بڑھانا ہے، کب تک کشکول لے کر پھریں گے۔سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ ہم مسائل کے حل تک ایک لمحہ بھی چین سے نہیں بیٹھیں گے، ایوان میں تین سابق وزرائے اعلیٰ اور دیگر قابل لوگ بیٹھے ہیں، مل کر بلوچستان کے گورننس کا بحران حل کرنے کی کوشش کریں گے۔وزیرِ اعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ آج یا کل گوادر کی گلیوں سے پانی نکالنے پر کام شروع ہو گا، بلوچستان کی صورتِ حال کے حل کے لیے ڈائیلاگ اور ڈیٹرنس کے راستے ہیں، انھوں مسلح جدوجہد کی راہ کا انتخاب کرنے والوں کو دعوت دی کہ مسلح جدوجہد کرنے والے مین اسٹریم میں آکر بلوچستان کی ترقی کے لیے کام کریں، بلوچستان کے انفرا اسٹرکچر کے تحفظ کی ذمے داری ہماری ہے، پہاڑوں پر بیٹھے لوگ مین اسٹریم کا حصہ بنیں۔ان کا کہنا تھا کہ صرف پیپلز پارٹی ملک کو درپیش بحرانوں سے نکال سکتی ہے، آج کے بعد سے بلوچستان میں نوکری بیچنے والا دھندا نہیں چلنے دیں گے، جو نوکری جاری ہوگی وہ میرٹ پر دی جائے گی، پاکستان کے آئین میں رہتے ہوئے جدوجہد کریں گے، ریاستی رٹ کی عملداری پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔ بلوچستان کو جو کچھ ملنا ہے وہ پارلیمنٹ سے ملنا ہے، حکومت ڈائیلاگ کرے گی اور بار بار کرے گی، لیکن بندوق اٹھانے والوں کو یہ یاد رکھنا ہوگا کہ حقوق بندوق سے نہیں پارلیمنٹ سے ملیں گے، انھوں تمام پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے کہا کہ آپ سب بلوچستان کی تقدیر بدلنے کے لیے میرا ساتھ دیں، اگر پاکستان کو کوئی بچا سکتا ہے تو وہ پیپلز پارٹی ہے، پاکستان پیپلز پارٹی فیڈریشن کی جماعت ہے۔سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ بلوچستان اس وقت 3 بڑے چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے، پہلا چیلنج امن و امان کا مسئلہ ہے، بلوچستان میں تعلیمی اداروں کو بہتر کریں گے،صوبے میں صحت کے نظام کی بہتری کے لیے کام کریں گے اور نوجوانوں کے لیے ٹیکنیکل ادارے کھولیں گے۔نومنتخب وزیرِ اعلیٰ نے اعتراف کیا کہ بلوچستان میں تمام وسائل موجود ہیں، صرف روڈ میپ نہیں ہے،ائیلاگ پاکستان پیپلز پارٹی کی پالیسی ہے، ہم اس پر یقین رکھتے ہیں، ہمیں بلوچستان کو ٹھیک کرنا ہے کوئی باہر سے آکر نہیں کرے گا۔
حلف برداری کے بعد سرفراز بگتی کی پہلی تقریر سے ظاہرہوتاہے کہ وہ میل محبت کے ساتھ صوبے کا نظم ونسق چلانے کے خواہاں اور انھیں اس امر کا پوری طرح ادارک ہے کہ بلوچستان میں نہ صرف انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کا مسئلہ ہے بلکہ اس کے گورننس سمیت دیگر بڑے مسائل بھی ہیں۔وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے انھیں بلوچستان میں بہت بڑے چیلنجز اور گمبھیر مسائل کا سامنا کرنا ہوگا، اس میں کوئی شک نہیں کہ سالہاسال کی بدانتظامی اور لوٹ کھسوٹ کے سبب بلوچستان مسائل کی آماجگاہ بن چکا ہے اور لوگوں کا احساس محرومی اب نفرت کی شکل دھارنے کے موڑ پر آگیاہے ایسی صورت حال میں اگر سرفراز بگٹی جارحانہ طرز عمل اختیار کریں گے تو ان کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔بلوچستان کو درپیش مسائل حل کرنے کیلئے انھیں بہت زیادہ میانہ روی اختیار کرنا پڑے گی کیونکہ جو قوم پرست سیاسی جماعتیں ہیں وہ ان کے ساتھ اتحادی نہیں ہیں بلکہ قوم پرست اب باہر دھکیلے جاچکے ہیں۔ بلوچستان میں جو عسکریت پسندی اور سیکورٹی کی صورتحال ہے اس کو بہتر کرنے کے لیے صرف آپریشن اور مارا ماری سے کام نہیں چلے گا۔ اس وقت سب سے پہلے انھیں انھیں ملکی معیشت کو دیکھناہوگا،انھیں اب یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ،معیشت ملکی حالات،امن وامان کی صورتحال سب دگرگوں ہیں۔ ایسی صورت میں بلوچستان میں مفاہمت کے عمل کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے اور اس مقصد کے لیے میر سرفراز بگٹی کو ان تمام بلوچ اور پشتون قوم پرست جماعتوں کی تعاون کی ضرورت پڑے گی جو اب تک غیر جانبدار ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ نے پارلیمانی سیاست سے باہر لوگوں سے مفاہمت کے حوالے سے جو پیش رفت کی تھی سرفراز بگتی کواسے آگے بڑھانے کیلئے کام کرنا پڑے گا۔گورننس کا مسئلہ بھی بڑی حد تک خراب ہے جبکہ کرپشن بھی بلوچستان کے اہم مسائل میں سے ایک ہے۔یہ تمام مسائل نہ صرف سرفراز بگٹی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں بلکہ خود پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے لیے بھی چیلنج ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس طرح حالات کو بہتری کی طرف لے جائیں گے۔
یہ حقیقت سب ہی تسلیم کرتے ہیں کہ بلوچستان کا مسئلہ بڑا حساس ہے۔ بلوچستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ قومی دھارے کی جماعتیں ہوں یا اسٹیبلشمنٹ وہ اس جانب زیادہ توجہ نہیں دیتیں اور وہ بلوچستان کو زیادہ تر انتظامی طور پر ڈیل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ سرفراز بگتی اس حقیقت سے ناواقف نہیں ہوں گے کہ قوم پرست قوتوں کو ان کی نامزدگی کے حوالے سے خدشات اور تحفظات ہیں،اپنے لہجے کو نرم رکھ کر ہی وہ قوم پرستوں کو راہ راست پر لانے کی سعی کرسکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی والے کہتے ہیں کہ آصف علی زرداری مفاہمت کے بادشاہ ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میر سرفراز بگٹی مفاہمت شروع کرتے ہیں یا نہیں۔ یہ وقت بتائے گا کہ وہ مفاہمت کی پالیسی اختیار کریں گے یا بلوچستان میں مزید اس طرح کی کارروائیاں ہوں گی جو کہ اسلام آباد سے دوری کا باعث بنتی رہی ہیں۔وزارت اعلیٰ کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے موقع پر میر سرفراز بگٹی نے خود بھی میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہاتھا کہ ہم اپنا روڈ میپ دیں گے۔ پیپلز پارٹی مذاکرات پر یقین رکھتی ہے اور ہمیشہ پارٹی نے مذاکرات کے ذریعے مسائل کو حل کیا ہے۔جو لوگ تشدد کریں گے ہماری خواہش یہ ہے کہ وہ تمام لوگ تشدد کو چھوڑ کر قومی دھارے کی سیاست کا حصہ بن جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری خواہش ہو گی کہ تمام معاملات مذاکرات سے حل ہوجائیں کیونکہ اس سے اچھی کوئی اور بات نہیں ہوسکتی۔ان کا کہنا تھا کہ جمعیت علما اسلام سمیت جتنی بھی جماعتیں ان کے ساتھ اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کریں گی ان کے ساتھ بات کریں گے اور ایک صحت مند ماحول بنائیں گے اور بلوچستان کے لوگوں کی بہتری کے لیے ہم پر جو تنقید ہو گی اس کو قبول کریں گے کیونکہ حزب اختلاف کے بغیر جمہوریت کا تصور مکمل نہیں ہوتا ہے۔میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ بلوچستان میں گورننس کا جو مسئلہ ہے اس کو بہتر کرنے اور بلوچستان کے دیگر بڑے مسائل کے حل کے لیے مل کر محنت کریں گے۔اگر وہ اپنے اس ارادے پر قائم رہے اور تمام معاملات افہام وتفہیم کے ماحول میں حل کرلیے جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ شورش زدہ کہلا نے والا یہ صوبہ بھی مین اسٹریم میں آجائے اور بلوچستان کے محروم لوگوں دہشت گردی کی بھینٹ چڑھانے کے حوالے سے بھارتی منصوبے میں خاک میں نہ مل جائیں اوربلوچستان کوترقی کرتے دیکھ کر دشمن ہاتھ ملتا نہ رہ جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔