سعودی عرب کواپنی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت ہے
شیئر کریں
بھارت کی ایما پر پاکستان کو دہشت گردوں کوفنڈ فراہم کرنے میں معاونت کرنے والے ملکوں کی فہرست میں شامل کرنے کی امریکی کوشش کے دوران سعودی عرب نے پاکستان کے بجائے بھارت کی بولی بولنے والے امریکا اور اس حواریوں کاساتھ دے کر پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنے کے حق میں ووٹ دیدیا اس موقع پر صرف ترکی نے پاکستان کے ساتھ دوستی نبھائی اور اس بازار یوسف میں وہ واحد ملک ہے جو چٹان کی طرح پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا اور پاکستان کے خلاف اس عمل کی کھل کر مخالفت کی۔اگرچہ اس موقع پر پاکستان کے ساتھ ہمالیہ سے بلند اور سمندروں سے زیادہ گہری دوستی کے دعویدار چین نے بھی پاکستان کاساتھ دینے سے گریز کیا اور اپنے نادیدہ مفادات اورمقاصد کو اولیت دیتے ہوئے پاکستان کاساتھ دینے سے گریز کیا۔یہاں چین کاذکر برسبیل تذکرہ آگیا کیونکہ چین سے ہمارا کوئی مذہبی رشتہ نہیں ہے جبکہ سعودی عرب اور پاکستان اسلام کے سنہرے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں اور عالم اسلام کے روحانی سربراہ کی حیثیت سے سعودی رہنمائوں پر یہ فریضہ عاید ہوتاہے کہ وہ پاکستان ہی نہیںبلکہ تمام مسلم ممالک کے مفادات کا ہر سطح پر دفاع کریں، جبکہ پاکستان کے ساتھ سعودی عرب کے ہمیشہ سے خصوصی تعلقات قائم رہے ہیں اور پاکستان نے ہر مشکل وقت پر سعودی عرب کاساتھ دیا ہے پاکستان کے عوام کے دل سعودی عرب پر آنے والی متوقع افتاد پربھی مچل اٹھتے ہیں،ایسی صورت میں سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کے خلاف امریکا اور اس کے حواریوں کا ساتھ دینے کافیصلہ صرف پاکستان اور امت مسلمہ ہی نہیں بلکہ امریکا اور اس کے حواریوں کے لیے ایک اچنبھے سے کم نہیں تھا،اس سے ظاہر ہوتاہے کہ سعودی عرب میں حال ہی میں ہونے والی تبدیلیوں کے بعد سعودی حکمران ابھی تک اپنے ملک کی خارجہ پالیسی کی درست سمت کاتعین نہیں کرسکے ہیں۔
یہ درست ہے کہ سعودی قیادت کواس وقت انتہائی مشکل حالات کا سامنا ہے، سعودی ایران تنازع، سعودی یمن تنازع، سعودی قطر تنازع، سعودی لبنان تنازع اور سعودی شام تنازع میں اگر کچھ دیر کے لیے سعودی قیادت ہی کو حق بجانب قرار دے دیں تب بھی تنازعات کی فہرست کو دیکھتے ہوئے یہ ضرور کہا جائے گا کہ سعودی خارجہ پالیسی کو ناکامی کا سامنا ہے، کیوں کہ اس سے پہلے سعودی عرب کبھی بھی اس قدر تنازعات میں مبتلا نہیں ہوا گوکہ مصر کے جمال عبدالناصر، شام کے حافظ الاسد، عراق کے صدام حسین اور لیبیا کے کرنل قذافی بھی اپنے اپنے دور اقتدار میں شاہ فیصل، شاہ خالد، شاہ فہد اور شاہ عبداللہ کے ساتھ ٹکراتے رہے، تاہم ان عرب رہنماؤں کے دباؤ اور مخالفت کے باوجود سعودی قیادت نے انتہائی تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خارجہ پالیسی کو جارحانہ رْخ پر نہیں جانے دیا۔ اس طرح کی خاموش مگر موثر خارجہ پالیسی کو ترتیب دینے کا اعزاز مرحوم سابق وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل کو بھی جاتا ہے جن کی سیاسی بصیرت اور تدبر نے انتہائی مشکل حالات میں بھی مسلم امہ میں سعودی عرب کے قائدانہ کردار کو متاثر نہیں ہونے دیا۔
1979 میں امام خمینی کی قیادت میں ایران میں آنے والے انقلاب کے خلاف بھی سعودی عرب نے کوئی سخت ردعمل ظاہر نہیںکیاتھا۔ بلکہ امام خمینی کے تہران پہنچنے پر سب سے پہلے جس غیر ملکی مسلم رہنما نے امام سے ملاقات کی وہ بھی ایک عرب رہنما یاسر عرفات تھے جب کہ ان کے بعد عالم اسلام کی جن 7 اسلامی تنظیموں کے نمائندوں نے امیر جماعت اسلامی میاں طفیل محمد کی قیادت میں امام خمینی سے جا کر ملاقات کی، اْن میں اخوان المسلمون سمیت زیادہ تر عرب ممالک میں سرگرم اسلامی تنظیموں کے نمائندے تھے۔ بعدازاں خانہ کعبہ کے قریب ایرانی حجاج کے مظاہرے اور سیکورٹی فورسز سے تصادم کے ناخوشگوار واقعے سے ریاض اور تہران کے درمیان جو کشیدگی پیدا ہوئی تھی اسے صدر خاتمی اور صدر احمدی نڑاد کے ریاض کے دوروں کے دوران سعودی قیادت کے پرجوش استقبال کے بعد دور کردیاگیا تھا۔ بعد ازاں ستمبر 1980کو ایران عراق جنگ چھڑ گئی، اگست 1990کو عراقی فوج کویت میں داخل ہوگئی، کویت پر عراقی قبضے کے بعد سعودی سلامتی کو لاحق خطرات کے پیش نظر سعودی قیادت کی دعوت پر امریکی فوج خلیج میں اْتر گئی، جنوری 1991کو خلیج کی پہلی جنگ چھڑ گئی جو فروری 1991میں ختم ہوئی تاہم امریکی فوجیں بھوکے بھیڑیوں کی طرح عرب صحراؤں میں پڑی رہیں اور پھر صدر جارج بش کے صاحبزادے صدر بش نے عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی برآمدگی کا بہانا بنا کر مارچ 2003میں عراق پر دوبارہ حملہ کردیا۔ خلیج کی یہ جنگ جو 14 برس سے جاری ہے اس جنگ کے کہیں زیادہ بھیانک نتائج سامنے آئے۔ صدام حسین کو پھانسی دے دی گئی، ردعمل میں داعش جیسی خطرناک تنظیم وجود میں آگئی اور مزید یہ کہ امریکی فوجیں عراق کے علاوہ لیبیا اور شام تک پھیل گئیں جہاں مسلمان عوام کے خلاف امریکا کے فوجی آپریشنز جاری ہیں۔
سیاست کاایک عام طالب علم بھی یہ سمجھتاہے کہ 1990میں عراقی فوج کے کویت پر قبضے کے بعد سعودی قیادت کو اپنی سلامتی اور دفاع کے لیے امریکی فوج کو دعوت نہیں دینی چاہیے تھی،سعودی رہنمائوں کو یہ معلوم ہونا چاہئے تھا ، کہ جب خود سے زیادہ طاقتور سے مدد لی جاتی ہے تو وہ کام مکمل کرنے کے بعد میزبان کے گھر پر بھی قبضہ کرلیتا ہے۔ 1990سے امریکی فوجیں مشرقی وسطیٰ میں ایسا ہی کھیل کھیل رہی ہیں۔ آج تمام مسلم عرب ممالک غیر محفوظ اور خانہ جنگی کا شکار ہیں جب کہ پورے خطے میں صرف اسرائیل محفوظ اور مضبوط ہے۔ اسامہ بن لادن کی سعودی قیادت سے ناراضگی کی وجہ بالکل درست تھی۔ اسامہ نے کہا تھا کہ کویت پر عراقی قبضے کو ختم کرانے کے لیے امریکی فوج سے مدد لینے کے بجائے عرب ممالک خود ہی اس قبضہ کو ختم کرانے کی کوشش کریں۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکا، روس، برطانیہ، جرمنی، فرانس اور اسرائیل غیر علانیہ طور پر سعودی عرب کے اردگرد ’’صلیبی جنگوں‘‘ کا آغاز کرچکے ہیں۔ عرب ممالک کی سرحدوں کو رونداجارہا ہے، فضائی حملوں میں شہروں کو کھنڈر اور شہریوں کو موت کے گھاٹ اْتارا جارہا ہے۔ روس افغانستان میں سوویت یونین کی شکست کا بدلہ لینے کے لیے شام کو تختہ مشق بنائے ہوئے ہے جب کہ امریکا اور دیگر مغربی ممالک کو قبلہ اوّل بیت المقدس پر یہود و نصاریٰ کے قبضے کو مستحکم کرنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔ سامراجی قوتیں انتہائی گہری سازش کے تحت سعودی عرب سمیت پورے خطے کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش میں ہیں تا کہ کوئی مسلم عرب ملک آگے بڑھ کر اسرائیل کا پنجہ اکھاڑنے اور دانت توڑنے کی کوشش نہ کرے۔ اسی سوچ کے ساتھ مصر میں اخوان المسلمون کی منتخب جمہوری حکومت کے صدر محمد مرسی اور ان کے سیکڑوں ساتھیوں کو جیل میں ڈالا گیا جہاں انہیں طویل قید اور موت کی سزاؤں کا سامنا ہے، اس سارے منظر میں سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ سعودی قیادت کے فیصلے اور پالیسیاں امریکی ایجنڈے کو تقویت پہنچا رہی ہیں۔سعودی قیادت کو امریکی سازش کے تحت اس قدر مصروف اور خوفزدہ رکھا جارہا ہے کہ اْس کی اِس طرف توجہ نہیں ہو پارہی ہے کہ خطے کے تنازعات اور خطرات کو حل کرنے کے لیے لندن، ماسکو اور واشنگٹن کے علاوہ بھی کوئی جگہ ہوسکتی ہے۔ اقوام متحدہ کا ادارہ کس قدر ناکام اور جانبدار ہے۔ اس کا تجربہ بھی سب سے زیادہ عربوں ہی کو ہے جب کہ عالم اسلام صرف یہ نہیں کہ جسے مشرقی وسطیٰ کہا جاتاہے ، عالم اسلام تو مراکش سے شروع ہو کر جکارتہ تک جاتا ہے، مسلمان دنیا کے ہر ملک میں موجود ہیں، 56 آزاد اسلامی ملک ہیں، 40 لاکھ کے برابر مسلح افواج ہیں، ایٹمی طاقت بھی ہے، ایک ارب بیس کروڑ سے زیادہ آبادی ہے، وسائل اور مواقعے بے شمار ہیں، جغرافیہ مددگار اور تاریخ شاندار ہے، دوسروں پر انحصار کرنے کے بجائے خود انحصاری سے بہت کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ جب کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ تمام عالم اسلام میں سعودی قیادت کو جو احترام اور قائدانہ حیثیت حاصل ہے اس کا کوئی دوسرا نہ تو اْمیدوار ہے اور نہ ہی حق دار ، کیوں کہ مسلمانوں کے عقیدے اور ایمان کا مرکز و محور مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ سعودی عرب کی سرزمین پر ہیں، اس محبت اور تعلق کی نسبت سے ہر مسلمان خادم الحرمین شریفین کو اپنا قائد اور مملکت سعودی عربیہ کو اپنا وطن سمجھتا ہے جس کی سلامتی اور حفاظت کے لیے تمام مسلم ممالک کی مسلح افواج اور عوام ہر وقت متوجہ اور چوکس رہتے ہیں تا ہم سعودی قیادت کو بھی مسلم ممالک کے حالات، تنازعات اور مقبوضہ جات کی طرف متوجہ ہونا چاہئے۔ موجودہ حالات میں سعودی قیادت پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کیوں کہ قیادت کو جہاں عالم اسلام کو دلدل سے نکالنا ہے وہیں حملہ آور اور توسیع پسندانہ عزائم رکھنے والی سامراجی قوتوں کو پیچھے دھکیل کر عالمی امن کو بھی خون کے دریا سے نکال کر کنارے پر پہنچانا ہے۔بیرونی خطرات اور سلامتی کو درپیش چیلنجوں کا حل ریاض، تہران، انقرہ، قاہرہ اور اسلام آباد میں مل بیٹھ کر تلاش کرنا چاہیے۔ او آئی سی اور عرب ممالک پر دباؤ ڈالنے کے بجائے انہیں آزاد، غیر جانبدار اور متحرک کیا جائے۔ ایران کو بھی عالم اسلام کا حصہ سمجھا جائے ،ایران بھی اپنے جنگی نیٹ ورک کو سمیٹنے کی کوشش کرے۔ پڑوسی ممالک میں عدم مداخلت کی پالیسی کو یقینی بنایا جائے۔ ریاض اپنے بدترین مخالفین کو مذاکرات کی دعوت دے، مذاکرات غیر مشروط اور برادرانہ ماحول میں ہونے چاہئیں، وفود کا پْرجوش استقبال کرکے اگر میدان جنگ کو ٹھنڈا کیا جاسکتا ہے تو اس سے بہتر ’’خارجہ پالیسی‘‘ اور کیا ہوسکتی ہے۔
توقع کی جاتی ہے کہ نئی سعودی قیادت عالم اسلام کی جانب سے سعودی حکومت پر عاید ذمہ داریوں کاادراک کرتے ہوئے امریکا جیسے خون آشام ممالک کے بجائے ہر فورم پر مسلمان ممالک کا بھرپور ساتھ دینے کی پالیسی اختیار کرنی چاہئے کیونکہ یہی وہ پالیسی ہے جو سعودی عرب کو امریکا اور دنیا کے دیگر غیرمسلم بلکہ اسلام دشمن ممالک کے شر سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔