بلے کا نشان چھین لیا، پی ٹی آئی انتخابی میدان سے باہر
شیئر کریں
پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن اور انتخابی نشان کیس میں الیکشن کمیشن کی درخواست منظور کرتے ہوئے حکم امتناع واپس لے لیا۔پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس اعجاز خان نے عدالتی فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل پر سماعت کی جس سلسلے میں الیکشن کمیشن کے وکیل اور تحریک انصاف کے سینئر وکیل قاضی انور ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔جسٹس اعجاز نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے کہا کہ آپ کے دلائل ہم نے سنے جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ میں سماعت سننے کے لیے آیا ہوں۔پی ٹی آئی کے وکیل شاہ فیصل نے استدعا کی کہ سینئر وکیل قاضی انور آ رہے ہیں جو دلائل پیش کریں گے، ہمیں تھوڑا وقت دیا جائے۔عدالت نے کہا کہ ٹھیک ہے جب آپ کا مین کونسل آ جائے پھر کیس سن لیں گے، اس کے ساتھ ہی عدالت نے سماعت میں وقفہ کر دیا۔پشاور ہائی کورٹ میں سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو پی ٹی آئی کے سینئر وکیل قاضی انور ایڈووکیٹ پیش ہو گئے۔الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ قاضی انور ایڈووکیٹ میرے استاد ہیں، میں نے وکالت کی پریکٹس ان کے ساتھ شروع کی تھی۔قاضی انور ایڈووکیٹ نے کہا کہ میں اور بیرسٹر گوہر اس کیس میں وکیل ہیں، سیاسی جماعتوں نے عدالت میں کہا کہ وہ الیکشن کمیشن کے ساتھ کھڑی ہیں۔جسٹس اعجاز خان نے کہا کہ ہم نے آپ سے سیکھا ہے کہ قانون کے لیے یہ باتیں بے معنی ہیں، عدالت سے باہر کیا ہوتا ہے اس کا سماعت کے ساتھ کچھ کام نہیں۔قاضی انور ایڈووکیٹ نے کہا کہ پولیس کی بھاری نفری موجود ہے، ادھر آتے ہوئے مجھے روکا گیا، میری تلاشی لی گئی، کیا الیکشن کمیشن ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف عدالت آ سکتا ہے؟ ان کی رٹ ٹھیک نہیں ہے، 26 دسمبر کو فیصلہ آیا، اس پر ابھی تک عمل نہیں کیا گیا، الیکشن کمیشن نے اب تک ویب سائٹ پر انٹرا پارٹی انتخابات سرٹیفکیٹ جاری نہیں کیا۔جسٹس اعجاز خان نے استفسار کیا کہ کیا آپ کی جانب سے کوئی توہین عدالت کا کیس آیا ہے؟قاضی انور ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہمارے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے جس پر الیکشن کمیشن نے کیا کیا؟ جس پر جسٹس اعجاز خان نے کہا کہ یہ اب ان سے ہم پوچھیں گے۔انہوں نے مزید کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کو ویب سائٹ پر سرٹیفکیٹ ڈالنے سے کیا مسئلہ ہے؟ ایک پارٹی کو ایک طرف کرنا الیکشن کمیشن اور جمہوریت کیلئے ٹھیک نہیں، الیکشن کمیشن کو ایک سیاسی جماعت کے خلاف استعمال نہیں کرنا چاہیے تھا، ہم چاہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن شفاف انتخابات کروائے۔پشاور ہائیکورٹ نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔عدالت نے چند گھنٹوں بعد محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل منظور کی اور الیکشن کمیشن کا 22 دسمبر کا فیصلہ بحال کر دیا۔بیرسٹر گوہر نے کہا کہ بلے کا نشان لیاتو دنیا انتخابی نتائج نہیں مانے گی انھوں نے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں فوری چیلنج کرنے کااعلان کیا واضح کیا کہ۔بلے کانشان نہ ملا تو پلان بی پرغور ہوگاپی ٹی آئی رہنما نے انتخابات کے بائیکاٹ کا امکان مسترد اورمخالفین کو تحریک انصاف کے انڈر نائنٹین سے بھی خوفزدہ قرار دے دیا