انسانی حقوق تنظیموں کو ہوش آگیا ،روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کی آزاد تحقیق کا مطالبہ،حکومتی کمیٹی مسترد
شیئر کریں
13رکنی کمیٹی میں ایک بھی مسلم نمائندہ شامل نہیں،سربراہی نائب صدر اور فوجی(ر) کرنل کے ہاتھ میں ہے جبکہ روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام میں فوج براہ راست ملوث بھی ہے
میانمار حکومت روہنگیا مسلمانوں کی ’نسل کشی‘کررہی ہے،56ہزار مہاجرین ملائشیا پہنچے جن کے مطابق مردوں کو قتل،عورتوں سے جنسی زیادتی اور املاک کو جلایا گیا،ملائشین حکام
ابومحمد
روہنگیا مسلمانوں سے زیادتی کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی میانمار حکومت کی کمیٹی کو انسانی حقوق کی تنظیموں نے مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ روہنگیا مسلمانوں کے ہونے والے استحصال پر آزاد کمیٹی بنائی جائے۔برما کی رہنما آنگ سان سوچی کو میانمار فوج کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی سے متعلق تحقیقات کی ناکامی پر عالمی سطح پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔
حکومت کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والی زیادتیوں کی تفتیش کے لیے 13 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جسے انسانی حقوق کی تنظیموں نے مسترد کیا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق میانمار کی حکومت کی جانب سے تشکیل دی گئی کمیٹی میں ایک بھی مسلم نمائندہ شامل نہیں، جبکہ اس کی سربراہی نائب صدر میئنت سوے کر رہے ہیں، جو امریکا کی جانب سے بلیک لسٹ کیے گئے ریٹائرڈ فوجی جرنل ہیں۔
تحقیقاتی کمیٹی کی سربراہی کرنے والے نائب صدر کے سابق قریبی اتحادی تھان شوے نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ میئنت سوے میانمار کے صوبے یونگان میں 2007 میں معاشی انقلاب کے مظاہرے سیفرون میں ہونے والے قتل عام میں ملوث رہے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیم فورٹی فائیو رائٹس کے چیف ایگزیکٹو میتھیو اسمتھ نے حکومتی کمیٹی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ میانمار حکومت اگر فوج کے کسی اور آدمی کی سربراہی میں بھی دوسری کمیٹی تشکیل دے گی تو بھی اسے قبول نہیں کیا جائے گا۔
ہیومن رائٹس واچ ایشیا کے ڈپٹی ڈائریکٹر فل رابرٹسن کا کہنا ہے کہ کمیٹی خود مختار نہیں ہے، جس وجہ سے وہ آزادی سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیق نہیں کرسکتی۔آنگ سان سوچی کے دفتر سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ تحقیقاتی کمیشن فوج کی جانب سے لاک ڈاو¿ن کیے جانے، پولیس کی جانب سے بارڈر پر چھاپوں اور تمام عالمی الزامات کی تحقیقات کرے گی۔
میانمار کی سیاسی جماعت اراکان نیشنل پارٹی کے ایک سینئر سیاستدان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ نئے تحقیقاتی کمیشن سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا، جب کہ مسلمانوں کی اکثریت کا بھی یہی خیال ہے کہ کمیشن میں ان کی نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے ان کی آواز سنی نہیں جائے گی۔
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ظلم و استحصال کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد پہلی بار اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل کوفی عنان تحقیق کے لیے راکھائن پہنچنے تو لوگوں نے ان کے خلاف مظاہرہ کیاتھا ، کمیشن کے ممبر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ کمیشن نے دورے کے دوران حقائق جمع کیے مگر تاحال کوئی نتیجہ نہیں نکالا جا سکا۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ راکھائن ( اراکان کا نیا نام) میں فوجی کریک ڈاو¿ن کی وجہ سے رواں ہفتے 10 ہزار سے زائد روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش کی سرحد پر پہنچے ہیں ، بنگلہ دیش کی سرحد پر پہنچنے والے روہنگیا لوگوں نے فوجیوں کی جانب سے ظلم و استحصال اور جنسی زیادتی کی خوفناک کہانیاں سنائی ہیں۔
میانمار حکومت روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ظلم و استحصال کے الزامات کو مسترد کرتی ہے، جب کہ میانمار حکومت نے بیرون ممالک کے صحافیوں کا ملک میں داخلہ بھی بند کررکھا ہے۔
اس سے قبل گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں سے متعلق ذیلی ادارے کی جانب سے کہا گیا گیا تھا کہ میانمار کی فوج مسلمانوں کی نسل کشی کر رہی ہے، جس وجہ سے ہزاروں مسلمان بنگلہ دیش میں پناہ لینے کے لیے پہنچ رہے ہیں۔
خیال رہے کہ میانمار، جسے برما بھی کہا جاتا ہے، میں بدھ مت مذہب کے ماننے والوں کی اکثریت ہے، روہنگیا کے مسلمان کئی دہائیاں قبل ہجرت کرکے بنگلہ دیش سے میانمار پہنچے تھے، میانمار کے لوگ ان کوبرمی تسلیم نہیں کرتے ۔
روہنگیا لوگوں کی بہت بڑی تعداد میانمار کی مغربی ریاست ارکان یا راکھائن میں رہائش پذیر ہے، 10 لاکھ سے زائد آبادی پر مشتمل روہنگیا لوگوں کو بنگلہ دیش کے لوگ برمی مانتے ہیں۔
بنگلہ دیش اور برما کے درمیان تنازع کا سبب رہنے والے روہنگیا لوگوں پر ظلم و ستم کے حوالے سے گزشتہ چند سالوں سے خبریں منظر عام پر آتی رہی ہیں، روہنگیا افراد مسلسل بنگلہ دیش کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیں۔جبکہ کئی مرتبہ یہ خبریں بھی آئیں کہ بحری سفر کے ذریعے ہجرت کرنے والے روہنگیا مسلمانوں کی کشتیاں الٹ کر سینکڑوں مسلمانوں کو ڈبو دیاگیاتھا۔
اقوام متحدہ، ہیومن رائٹس واچ، امریکا اور پاکستان سمیت کئی ممالک نے روہنگیا لوگوں کی دن بہ دن بگڑتی ہوئی حالت پر تشویش کا اظہار کیا ہے، لیکن میانمار حکومت تمام الزامات کو مسترد کرتی رہی ہے۔
ادھر ملائیشیا نے میانمار کی حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کی ’نسل کشی‘ کی مرتکب ہو رہی ہے۔ ادھر اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک کا اپنا دورہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ ملائیشیا کی حکومت نے میانمار حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کی ’نسل کشی‘ میں ملوث ہے۔ تین دسمبر بروز ہفتہ ملائیشیا کی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، ”حقیقت یہ ہے کہ وہاں (میانمار میں) صرف ایک ہی نسلی گروہ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اس تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ اس گروہ کی نسل کشی کی کوشش کی جا رہی ہے۔“
جبکہ قبل ازیں امریکا نے کہا تھا کہ ہزاروں روہنگیا مسلمان سمندر کے قیدی ہیں جنہیں اپنے ملک میں رہنے نہیں دیا جاتا اور پڑوسی ملک بنگلا دیش بھی انہیں قبول کرنے سے انکاری ہے ۔
رواں برس اکتوبر میں میانمار کی ریاست راکھائن میں شروع ہونے والے پرتشدد حملوں کے نتیجے میں ہزارہا روہنگیا باشندے اپنے آبائی علاقے چھوڑ کر محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہونے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ بنگلہ دیشی حکومت کے مطابق کئی ہزار روہنگیا مسلمان اس تشدد سے فرار ہو کر بنگلہ دیش میں بھی پہنچ چکے ہیں۔
دوسری طرف میانمار حکومت اس تناظر میں تمام تر بین الاقوامی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہتی ہے کہ راکھائن کا بحران دراصل اس کے ملک کا اندرونی معاملہ ہے۔ تاہم راکھائن میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ مبینہ طور پر انتہائی ابتر سلوک عالمی برداری کے لیے مسلسل بڑھتی ہوئی تشویش کا باعث بنتا جا رہا ہے۔
ملائیشیا کی حکومت کے مطابق راکھین ریاست میں شورش کی وجہ سے ہزاروں روہنگیا افراد ہمسایہ ممالک میں فرار ہونے پر مجبور ہو چکے ہیں، جن میں سے 56 ہزار اس مسلم اکثریتی ملک میں بھی پہنچ چکے ہیں۔ کوالالمپور حکومت کی طرف سے جاری کردہ اس تازہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس بحران کی کیفیت اتنی شدید ہو چکی ہے کہ اب یہ میانمار کا کوئی اندرونی مسئلہ نہیں رہا بلکہ اب یہ معاملہ بین الاقوامی سطح پر وجہ تشویش بن چکا ہے۔
دوسری طرف اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے ہفتے کے دن راکھائن ریاست کے ا±س گاو¿ں کا دورہ کیا، جہاں مقامی روہنگیا آبادی کی املاک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا گیا ہے۔ واپیک نامی اس گاو¿ں میں روہنگیا باشندوں کے بہت سے مکانوں اور املاک کو نذرآتش کیا جا چکا ہے۔
بتایا گیا ہے کہ کوفی عنان کے ساتھ کسی بین الاقوامی صحافی کو جانے کی اجازت نہیں دی گئی جبکہ عنان منگل تک اپنے اس دورے کی تفصیلات صحافیوں کو بتائیں گے۔ میانمار کی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ایسے جنگجوو¿ں کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہے، جنہوں نے بالخصوص راکھائن میں روہنگیا مسلمانوں کو نشانہ بنایا ہے۔
دوسری طرف میانمار سے بھاگ کر ہمسایہ ممالک پہنچنے والے روہنگیا اقلیتی مسلمانوں نے میڈیا کو بتایا ہے کہ ان کی کمیونٹی کے خلاف ہونے والی ان پرتشدد کارروائیوں میں ملکی فوج بھی شامل ہے۔ کئی خواتین نے اپنی روداد بیان کرتے ہوئے کہا کہ فوجیوں نے ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی، ان کے مردوں کو ہلاک کر دیا اور گھروں کو آگ لگا دی گئی۔