منصوریات
شیئر کریں
انوار حسین حقی
میری دھرتی میانوالی کو جہاں یہ افتخار حاصل ہے کہ مسلمان سندھ اور بلوچستان کی فتح سے بھی پہلے اس علاقے میں پہنچے، وہاں ہمارا سر اس حوالے سے بھی فخر سے بلند ہے کہ اس سرزمین کے باکمالوں نے زندگی کے ہر شعبے میں سورج کے رتھ پر سواری کی ہے ۔
ہمارا علمی اور ادبی ورثہ گراں قدر اور انتہائی ضخیم ہے۔اس کے امانتداروں میں ایک نام آج کے صاحبِ شام محمد منصور آفاق کا بھی ہے…. ادب میں تلوک چند محروم، ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد، ہرچرن چاولہ اور بے شمار نامور قلمکاروں کی علمی ادبی وراثتوں کا امین اور جانشین محمد منصورآفاق زندگی کو ضمیر کن فکاں سمجھ کر اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے لیے سرگرم ہوا اور آج ایک معروف شاعر ، نامور ادےب، ڈرامہ نگار اور جرات مند کالم نگار کی حےثےت سے ہمہ جہت شخصےت کا مالک بن چُکا ہے ۔
ریگ زاروں ، صحراو¿ں ، کہساروں، عزت مندوںاور حوصلہ مندوں کی اس سرزمین کا یہ لالہ¿ صحرائی اپنی ہر غزل، نظم ،شعر ، مصرعے، ڈرامے اور کالم سے پہچانا جاتا ہے ۔
مےں محمد منصور آفاق کو اُس وقت سے جانتا ہوں جب یہ تخلےقی عمل مےں پوری طرح گرفتار ہونے کے لیے ”قلبی وارداتےں “ کرنے کی بجائے ادبی معرکہ آرائےوں کی سالاری مےں مگن پاےا جاتا تھا۔
مےری اِس سے شناسائی دوچار برس کی بات نہےں بلکہ تےن دہائےوں کی کہانی ہے ۔ بہت سی ایسی یادیں ہیں جن کی ہوائےں میری ےادداشت کے شہر سے سرسراہٹ کے ساتھ گزرتی ہےں اور ان کی خوشبوو¿ں کو سرِ عام مہکاےا نہےں جا سکتا ۔
اس مےں ” ہم چُپ ہےں مقصود ہے پردہ تےرا “ والی کوئی بات نہےں ہے ۔
محمد منصور آفاق کی شخصےت کے کئی رنگ اور رُوپ ہےں ۔ےہی رَنگ اور رُوپ اِسے سرُوپ عطاءکرتے ہےں ۔ مےری دانست مےں ہر شاعر ، ادےب ، کالم نگار اور ڈرامہ نگار منصور آفاق نہےں بن سکتا ۔اسلیے منصور آفاق کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے مےں انصاف سے کام لےنے کی ہر ممکن کوشش کروں گا ۔ اور ”ڈنڈی “ مارنے کی معمولی سی کاوش اس لیے بھی نہےں کر سکتا کہ میں پہلے ہی کہ چُکا ہوں کہ ” ادب سے وابستہ ہر کوئی محمد منصور آفاق نہےں بن سکتا “ ۔
میری طالب علمی کے دور میں محمد منصور آفاق، جناب شرر صہبائی مرحوم اور سےد انجم جعفری مرحوم نے مےانوالی کی ادبی دنےا مےں ” معرکہ حق وباطل“ برپا کےا ہواتھا ۔ اُردو اور سرائےکی کے شعراءکے درمےان گھمسان کے رن کی سی کےفےت تھی ۔ اُس وقت کے تمام متحارب ادبی دھڑوں اور گروپوں مےں ” اچھے اور بُرے طالبان “ کی شناخت کرنا ناممکن نہےں تو مشکل ضرور تھی ۔
منصور آفاق اردو مےں جمال سے مزین اور خیال سے بھرپور شاعری کرنے کے باوجود ” نےٹوافواج “ کی طرح سرائےکی شعراءکی جنگ لڑنے مےں مصروف رہتا تھا ۔
کہا جاتا ہے کہ جج اپنے فےصلوں اور قلمکار اپنی تحرےر مےں بولتا ہے ۔ لےکن اُس دور مےں منصور آفاق اپنی تخلےقی سر گرمےوں کی بجائے ادب کا ”مُلا راکٹی “ سمجھا جاتا تھا ۔ گیان کی دولت سے مالامال ہونے کے باوجود یہ صرف اپنے قرےبی دوستوں اور ساتھےوں کو ”اچھا طالبان “ معاف کیجیے گا اچھا شاعر سمجھتا اور تسلےم کرتا تھا۔
پنجابی ، پوٹھوہاری ، ہندکواور سرائےکی زبان کے خوبصورت مرکب ” مےانوالی کی مقامی زبان “ کو سرائےکی قرار دےنے کا فےصلہ اِس نے پہلے صادر کےا اور اُس کے خلاف دلائل بعد مےں سُنے ۔یہ مےانوالی مےں جتنا عرصہ رہا ” فنون “ تک کامل دسترس رکھنے کے باوجود ”اوراق “ بن کر” انور سدےدوں“ مےں گھرا رہا ۔
مےانوالی سے ہجرت نے محمد منصور آفاق کو اےک نےا جنم دےا ۔ ڈرامہ نگاری مےں اس نے اپنی پہچان مستحکم کی ۔نمک سار ، زمین ، پانی پر بنیاد ، پتھر، سویا ہوا شہر ، دنیا ، دھن کوٹ جیسی معروف ڈرامہ سیریلز اور بہت سے Plays اس کے کریڈٹ پر ہیں ۔
شاعری مےںیہ معصوم آواز کبھی نہےں رہا۔ لےکن بڑی معصومےت کے ساتھ سادگی مےں پُرکاری کا فن دکھانے کا ماہر ہے۔ ارود ادب اور شاعری کی دنےا مےں اُس نے اپنا مقام بہت جلد منوا کر خو د کو مےانوالی کا ” فخر اور ادب کا شولڈر کراو¿ن “ بنا لےا ہے ۔
منصور آفاق اےسا شاعر ہے جو تحرےکوں اور ادبی لابےوں سے وابستہ ہونے کے باوجود شعر کہنے کے لیے شعر کہتا ہے ۔اور خوب کہتا ہے ۔ اس کی شاعری مےں سب سے اہم چےز موضوعات کی رنگا رنگی ہے۔
ےہاں آپ کو والدےن کی ےادےں ، مےانوالی کی باتےں اور سوغاتےں ، محبوب کے ہجر و وصال کے لمحات کے ساتھ ساتھ قوی احساسات و خےالات بھی جھلکتے اور چھلکتے نظر آتے ہےں ۔ اس کی شاعری مےں کہےں نغمگی ہے تو کہےں فلسفہ کی آمےزش ۔۔۔۔ اور کہیں کہےں خوشگوار سے بوجھل پن کا ادراک بھی ملتا ہے۔ منصور آفاق نے شاعری مےں الفاظ اور خےالات کو کمال خوبصورتی سے برتا ہے ۔
مےں نے پہلے پہل اس کے نعتےہ اشعار سُنے تھے۔ اس کی نعت کسی بھی طور پر رسمی نہےں ہے…. باہر سے منصور آفاق جےسا بھی نظر آتا ہو۔ لےکن اس کی نعت ہمےشہ اپنی خلوتوں مےں شہِ دوسریٰ سے عقےدت و وارفتگی کو اپنے باطن کی گہرائی مےں محسوس کرتی نظر آتی ہے ۔
نثر اور شاعری میں منظر عام پر آنے والی اس کی کتابوں میں چہرہ نما، آفاق نما، سرائیکی گرامر، سرائیکی ڈرامے،میں اور عطاءالحق قاسمی ، گل پاشی ، نیند کی نوٹ بک ، عار ف نامہ ، میں عشق ہوں ، عہد نامہ ، دیوانِ منصور ، تکون کی مجلس اور الہاماتِ باہو نمایاں ہیں۔
” دےوانِ منصور“ جس کی تقریب رونمائی میں آج ہم موجود ہیں ۔ اس کی جلد میں بندھے کاغذوں کی تہوں میں گوندھے ہوئے لفظوں کے معتبر ہونے کی سب سے بڑی گواہی یہ ہے کہ آج اس تقریب میں ممتاز صاحبانِِ دانش و بینش اور اربابِ سُخن موجود ہیں ۔
منصور کا یہ شعری اظہاریہ جذبوں اور احساسات کی جو پرتیں روشن کرتا ہے اُس پر یقیناً ہمارے آج کے مقالہ نگار ” اپنی ماہرانہ رائے سے نوازیں گے۔۔۔
میں نے ” منصوریات “ کی ابتداءکے عینی شاہد کی حیثیت سے کچھ معروضات بیان کی ہیں۔۔۔ میں اپنے موضوع سے یہاں پر انصاف نہیں کر پاو¿ں گا اگر میں کالم نگاری کے شعبے مےں مےانوالی کے اس فرزند کے کمالات کا اعتراف نہ کروں ۔۔
پاکستانی ادب کے بحیرہ قاسمیہ کا جزیرہ ہونے کے باوجود منصور کے ارمغان کی کھیتی خشک اور جرات کی زمین کبھی بنجر نہیں ہوئی۔ پاکستان کے قومی ادبی اداروں اور عہدوں پر اپنے گروپ کے غاصبانہ اور غیر منصفانہ قبضوں کی رعونت سے بے نیاز ہو کریہ حزبِ اعتدال کی ترجمانی کا فریضہ انتہائی جرات اور استقامت سے ادا کر رہا ہے ۔ یہ اپنے کالموں میں حزبِ اقتدار وا ختیار کی کاسہ لیسی اور حزبِ ِ اختلاف کی مرثیہ خوانی کی بجائے نئے عقبی دیاروں کے منظر ناموں کی دریافت کی بشارت دیتا نظر آتا ہے ۔ اکادمی ادبیات کی جانب سے سالانہ ادبی ایوارڈوں کی تقسیم میں ہیرا پھیری بھی اس کے اس خیال کو متزلزل نہیں کر سکی۔ کہ ”اہل قلم کسی تھیٹر کے ادا کار نہیں ہوتے انہیں جو کردار بھی تفویض کیا جائے وہ اسے ادا کرنے لگیں ۔“ ایک ایسے وقت میں جب قلم کی آبرو کو زر اور عہدوں کی دیمک چاٹنے لگی ہے اور سربلند قلم ، سر قلم ہو گئے ہیں۔
اس کی ذات کا صدق اور فہم کا عرفان سلامت ہے ۔ اس کے ابصار بھی سیاہ و سفید موتیے سے محفوظ ہیں ۔اور یہ خیالات کو صالح رکھتے ہوئے حکایاتِ خونچکاں لکھنے والے بچے کچھے اہل قلم کا حصہ ہے ۔
قاسمی برادری کا سرخیل ہو نے کے باوجود اس کی جانب سے میانوالی میںاپنے ہمسائے عمران خان کے موقف کی کالمانہ تائید کو ” کھلا تضاد “ نہ سمجھا جائے بلکہ الہاماتِ باہو کے اس مصنف نے یہ صالح سبق اپنے برادر بزرگ اقبالیات کے خلیفہ اور مجاہدِ ملت مولانا عبد الستار خان نیازی کے عزیز ساتھی محمد اشفاق چغتائی مرحوم کی فکر سے حاصل کیا ہے ۔
ہمیںفخر ہے کہ قریہ حیرت اور خطہ غیرت میانوالی کا یہ فرزند آج کی میڈیا انڈسٹری میں برِ صغیر کی اُس صحافت کا علم بلند کیے ہوئے ہے ”جو اندھیرے میں سورج کی کرنیں پھینکتی تھی ۔ شبِ تاریک میں سحر بوتی تھی۔ اور جس سے قومی اور ملی مفادات کے پہرے دار تیار ہوتے تھے“ ۔
آج کل محمد منصور آفاق کا پڑاو¿ برطانےہ مےں ہے ۔ لےکن پاکستان اور مےانوالی سے محبت اِس کے دل و دماغ کا اظہارےہ ہے ۔ اپنی تمام تر ” حشر سامانےوں “ کے باوجود اےک ضخےم شخصےت کا مالک اور ادب کا قےمتی اثاثہ ہے ۔
دعا ہے کہ اِس کی کامرانےوں کا سفر جاری و ساری رہے ۔ اور منصور اپنے قاری کو خوشبوو¿ں کے تازہ مشامِ جاں منظروں مےں لے جاتا رہے ۔ اس کی تخلےقات رنگ و نور و نکہت کے جلوئہ جاوداں کی امےن بنی رہےں۔ ( قلم کینوس اور ورقرطاس کے زیر اہتمام ”دیوانِ منصور“ کی تقریب رونمائی میں پڑھا گیا )
٭٭