اور اب شیر علی ملک ۔۔
شیئر کریں
ب نقاب /ایم آر ملک
شہر ِ خاموشاں میں قبروں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے!
ملک نذر محمد شہر اقتدار کے پمز ہسپتال میں جس کی سانسیں بحال رکھنے کیلئے ہم مارے مارے پھرتے رہے مگر وہ جانبر نہ ہو سکے ،شیر محمد اعوان المعروف شیر شاہ میرے والد محترم جو میری بانہوں میں زندگی کی بازی ہار گئے ،رضوان حمید کو ایک اندھی گولی نگل گئی ،شہر ِ اقتدار کے کسی مرکز مسیحائی میں ملک سجاد اعوان کو موت کے پنجوں نے اپنی آغوش میں لے لیا اور اب میرے بھائی اور دوست زیادہ شیر علی ملک داغِ مفارقت دے کر چلتے بنے ۔قبروں کی تعداد رکنے میں نہیں آرہی بڑھتی جارہی ہے!
آج کئی روز بعد بھی جانے کیوں شیر علی ملک کی جدائی سے ستاروں بھری راتیں بھی خالی خالی لگتی ہیں ،جن کے جانے کے بعد میری پوری ہستی ڈول کر رہ گئی ہے ،اب بھی وہی دن ہیں ،جگہ وہی ،،موسم وہی سب کچھ وہی ہے لیکن معلوم نہیں زندگی کہاں چلی گئی ،میرا دل آج بھی روشنیوں کے شہر میں ان گلی کوچوں کے درو دیوار میں اٹکا ہوا ہے جہاں جہاں سے ہم اکٹھے گزرتے ،سمندر کے کنارے کھڑے تمہارا عکس آج بھی میری آنکھوں میں محفوظ ہے ،تمہارے ساتھ بیتے لمحات میں الفاظ کی سرگوشیاں میرے کانوں میں گونج رہی ہیں ،شام کے پیچ و خم سے آہستہ آہستہ جب رات اُترتی ہے تو من کے اندر سے پھر یادوں کے بھنور اُٹھتے ہیں ،ڈیوٹی پر جاتے وقت ”ہچھا بھائیا ”کے الفاظ سے ماضی کی یادوں کو آباد کرنے کی ناکام سعی کرتا ہوں ،شیر علی ملک کی جدائی میں شامیں تو بہت سنسان سی لگنے لگی ہیں ،بہت سی ویرانیاں شام کو اچانک ہی بڑھ جاتی ہیں ،آپ کی سنگت میں گزرے لمحات جن سے ہم شانت ہوا کرتے تھے اب وہ شاید ہمیشہ کیلئے جیسے اداسی کی چادر اوڑھ کر پرائے ہوگئے ،جس سنگلاخ دھرتی کے ہم باسی ہیں وہاں روزی بارش کی صورت آسماں سے برستی ہے اگر بارش بروقت برس گئی تو چہروں پر رونق آگئی ورنہ صبر اور شکر پر قناعت کر لی ،ہجرتیں ہمارے بارانی خطہ کا مقدر ہیں ،حقیقتیں تلخ ہوا کرتی ہیں ،ہم سبھی سرابوں کے تعاقب میں سرگرداں رہتے ہیں ،موت کی حقیقت آشکارا ہونے پر بھی باز نہیں آتے مگر جتنے جتن کر لیں رونا تو بہر طور لازم ٹھہرا اپنے قبیلے خاندان میں کزن کنبہ و فیملی ممبرز کیا ھوتے ہیں؟
جس طرح ہاتھ کی پانچ انگلیاں بڑی چھوٹی و پتلی موٹی ضرور ہوتی ہیں مگر ان میں سے کسی کو بھی کوئی کٹ لگ جائے یا زخم پہنچے تو درد سارے وجود کو ہوتاہے ،اسی طرح خاندان قبیلہ میں کسی فرد کا بھی درد صرف ایک فرد کا ذاتی نہیں ہوتا بلکہ اس سے دکھ سے دوچار پورا خاندان و قبیلہ ہوتا ہے یہ الگ بات ہے کوئی خاموش رہتا ہے اور کسی کو بیان کرنے کے الفاظ نہیں ملتے اور کوئی بیان کرنے میں الفاظ کی مہارت رکھتا ہے اور کوئی بیان کرنے میں کلیجہ پھٹنے سے کم نہیں سمجھتاکسی کیلئے خاموش رہنا برداشت سے باھر ہوتا ہے جس پر جو جو بھی کیفیت گزر رہی ہوتی ہے وہ دکھ کے قیامت خیز منظر سے کم نہیں ہوتی۔ وہ سب ہی اپنے اس پیارے سے جدائی کی آگ میں جل رہے ہوتے ہیں۔
گھڑی کی سوئیاں ٹک ٹک کے ردھم پر رقصاں میرے اندر کی وحشتوں کو سلامی دے رہی ہیں۔ رات کے اس پہر وہ تمام لوگ وہ تمام چہرے جن کے ہونے سے زندگی نغمہ سرائی تھی اب رقص بسمل بن چکی ہے۔ وقت آگے بڑھا ہے تو سب کچھ بدل چکا ہے۔ میری جیب میں رائیگانی کے کھنکتے سکے چاہیں بھی تو وہ پیار بھرے لوگ پلٹ کر لا نہیں سکتے۔ پھر یہ وحشتوں کے سائے میرے تعاقب میں کیوں ہیں دن ماہ و سال میں بدل گئے ہیں تو پھر دل ان کے حصار میں کیوں ہے؟کیا اس اذیت مسلسل سے دوچار ہونا اپنا مقدر ٹھہرے گا؟کیا وہ لوگ وہ پری چہرہ لوگ وہ جو دل کی بستی کے باسی تھے ان کے ذمہ اب کچھ بھی باقی نہیں رہا؟،یہ تنہائیوں کا جو عذاب سر پر آن ٹھہرا ہے وہ کبھی ٹلے گا بھی؟
اے بے نیاز اے کون و مکاں کے مالک۔۔ یہ کب تک؟یہ تیرے ماٹی کے پتلے جنہیں تو نے اپنے حکم سے حیات بخشی ،ان کے روح میں لگے یہ گہرے گھاؤ کب تک؟
زندگی سیل رواں کی مانند سرپٹ بھاگ رہی ہے،جانے کہاں کب کس موڑ پر جا ٹھہرے گی ،میں ہرزندگی کی بھرپور بازی لگا دینے والے اجنبی اور شناسا چہروں سے ملتا ہوں تو وارفتگی سے سوال پوچھتا رہتا ہوں ۔
سفر کی تمام رنجشیں تمام تھکانیں۔ تمام خوشیوں سے متعلق پوچھتا ہوں۔ زندگی میں دلچسپی برقرار رکھنے کی اپنی سے کوشش فطرت بھی کرتی ہے، میں بھی کرتا ہوں مگر !قبروں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے!!!