پاکستان کی معیشت‘ عالمی ادارے کی مثبت رپورٹ
شیئر کریں
پاکستان کی اقتصادی شرح نمو2017- 20ء کے درمیانی عرصے میں اوسطاً 5.7 فیصد رہے گی۔یہ مضبوط تر متوقع شرح نمو توانائی و انفراسٹرکچر کے شعبوں میں سی پیک کے تحت بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری ہونے کی عکاسی کرتی ہے، معاشی درجہ بندی کے عالمی ادارے ’’سٹینڈرڈ اینڈ پوورز ریٹنگز‘‘ نے اپنی رپورٹ میں پاکستانی معیشت پر مثبت رائے دیتے ہوئے اس کی موجودہ قلیل اور طویل مدتی خود مختار کریڈٹ ریٹنگ ’’بی‘‘ کی توثیق کر دی ہے،جو پاکستان کے اقتصادی امکانات ساز گار رہنے اور مْلک کے خارجی اور مالیاتی عوامل کے استحکام کی تائید کرتی ہے۔ رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ حکومت نے مْلک میں سیکیورٹی کی صورتِ حال کو بہتر بتایا ہے۔ انفراسٹرکچر اور توانائی میں رخنوں کو کم کیا ہے اور بجلی کی قلت میں کمی لائی گئی ہے۔
اقتصادی شرح نمو اگرچہ مثالی تو نہیں ہے اور ماہرین کے خیال میں اگر یہ شرح سات اور آٹھ فیصد کے درمیان ہو تو مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کم ہوتی ہے،لیکن جس مْلک میں یہ شرح سالہا سال 3فیصد کے اِردگرد گھومتی رہی ہو، وہاں 5.7فیصد کی شرح کو بھی اگر بہت اچھا نہیں تو برا بھی نہیں کہا جا سکتا،سی پیک کے بہت سے منصوبے مکمل ہو گئے ہیں اور آئندہ تین برس میں مزید منصوبوں کی تکمیل سے یہ شرح اگر اوسطاً یہی رہتی ہے تو بھی حوصلہ افزا ہے۔اگرچہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو یقین ہے کہ وہ اس شرح کو چھ فیصد تک لے جانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ سیکیورٹی صورتِ حال کی بہتری کی وجہ سے نئی صنعتیں لگنے اور ٹورازم کی بہتری کے امکانات بھی ہیں۔
عالمی ریٹنگز کے ادارے کی معیشت کے بارے میں مثبت رائے پر حکومت نے اطمینان کا اظہار کیا ہے اِس وقت توانائی کے بحران پر اگر پوری طرح نہیں تو بڑی حد تک قابو پا لیا گیا ہے،نیلم جہلم ہائیڈل پراجیکٹ فروری2018ء سے بجلی کی پیداوار شروع کر رہا ہے، اِس منصوبے میں طویل تاخیر ہوتی رہی،ایک کے بعد دوسری ڈیڈ لائن مقرر کی جاتی رہی،لیکن یہ منصوبہ لٹکتا رہا اور لاگت بڑھتی رہی،کئی حکومتیں آئیں اور گئیں،لیکن پانی سے بجلی پیدا کرنے کا یہ مفید منصوبہ مکمل نہ ہو سکا،ان میں وہ حکومتیں بھی تھیں جنہوں نے بڑے فخر و مباہات سے اعلان کیا تھا کہ وہ2016ء کے لگ بھگ کالا باغ ڈیم اور بھاشا ڈیم دونوں مکمل کرکے دکھائیں گی،لیکن دونوں منصوبوں پر ان کے دور میں کوئی کام نہیں ہو سکا،کالا باغ ڈیم تو خیر سیاست اور سیاسی عصبیتوں کی نذر ہوا، بھاشا ڈیم پر بھی جو تھوڑی بہت عملی پیش رفت ہوئی ہے وہ بھی موجودہ حکومت ہی کر پائی ہے اور نیلم جہلم پراجیکٹ کی تکمیل کے کریڈٹ کی تو یہ حکومت بجا طور پر حق دار ہے۔
ایک طویل عرصے کے بعد یہ پہلا منصوبہ ہو گا جس سے سستی بجلی ملے گی اس عرصے کے دوران دوسرے کئی منصوبوں کی وجہ سے اب لوڈشیڈنگ بڑی حد تک ختم ہو چکی ہے،جہاں کہیں جاری ہے بجلی کی قلت اس کی وجہ نہیں،صنعتوں کو ان کی ضرورت کے مطابق چوبیس گھنٹے بجلی میسر ہے،اِسی طرح گیس کی درآمد سے بھی بحران پر قابو پایا جا چکا ہے اور نہ صرف صنعتوں کو گیس سپلائی ہور ہی ہے،بلکہ کھاد کی صنعت بھی دوبارہ نشوونما پا رہی ہے جسے خام مال(گیس) میسر نہ تھا اور اس کی وجہ سے کھاد مہنگے داموں باہر سے درآمد کرنا پڑ رہی تھی،اب پاکستان برآمد کی پوزیشن میں آ رہا ہے، جہاں تک انفراسٹرکچر کا تعلق ہے اس سیکٹر میں بڑی نمایاں تبدیلی محسوس کی جا رہی ہے،موٹر ویز اور رابطہ سڑکوں کی وجہ سے فاصلے کم ہو رہے ہیں، بڑے شہروں میں ٹریفک کا دباؤ کم کرنے کے لیے سڑکوں کو کشادہ کیا جا رہا ہے اور سگنل فری کوریڈور بنائے جا رہے ہیں،جس کی وجہ سے ایندھن کی بچت بھی ہو رہی ہے اور آلودگی کم ہونے میں بھی مدد مل رہی ہے، بڑے شہروں میں ریپڈ ٹرانسپورٹ سسٹم نہ صرف کامیابی سے چل رہا ہے،بلکہ اس کا دائرہ کار بھی بڑھایا جا رہا ہے،جس سے روزانہ لاکھوں لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں جہاں گھنٹوں صرف ہو جاتے تھے اب وہ فاصلہ سمٹ رہا ہے اور بعض مقامات پر تو حیران کن حد تک کم ہو چکا ہے۔ ریلوے تیز رفتار ریل گاڑیاں چلانے کے منصوبے پر بھی کام کر رہا ہے۔
انفراسٹرکچر منصوبوں کی اہمیت عالمی سطح پر مسلّم ہے، جن ممالک میں ذاتی استعمال کی گاڑیاں ہر کسی کی پہنچ کے اندر ہیں اور جہاں گھر کا تقریباً ہر فرد سفر کے لیے ذاتی گاڑی استعمال کرتا ہے وہاں بھی اب سڑکوں پر ٹریفک کا رش کم کرنے کے لیے ماس ٹرانزٹ ٹرانسپورٹ متعارف کرائی جا رہی ہے اور لوگ گھروں سے اپنی ذاتی گاڑیاں لے کر نکلتے ہیں، قریبی پارکنگ لاٹ میں کھڑی کرتے ہیں میٹرو یا ٹرام پر سوار ہو کر جہاں جانا ہو جاتے ہیں اور پھر واپسی پر پارکنگ سے اپنی گاڑی لے آتے ہیں، اِس سے ایندھن اور وقت کی بچت کے ساتھ ساتھ سفر بھی باکفایت ہوتا ہے،ہمارے جیسے ممالک میں جہاں بسوں پر لٹک کر سفر کرنا ایڈونچر سمجھا جاتا ہے اور جہاں ریل گاڑیوں اور بسوں کی چھتوں پر خطرناک سفر کو انجوائے کیا جاتا ہے وہاں اگر جدید ترین سہولتوں سے آراستہ ائرکنڈیشنڈ بسیں سڑکوں پر چلنا شروع ہو جاتی ہیں، جس سے پورے شہر کے مختلف حصوں کو آپس میں مِلا دیا جاتا ہے اور یہ سفر بھی بہت ہی کم قیمت میں ہو جاتا ہے،تو وی آئی پی کلچر کے دلدادگان کو جن کے گھروں میں ہر قسم کی ذاتی لگڑری گاڑیاں کھڑی رہتی ہیں یہ بسیں پسند نہیں آتیں،غالباً اْنہیں یہ غم کھائے جاتا ہے کہ جن غریب غربا ء کو بسوں میں جانوروں کی طرح سفر کرنا چاہئے تھا انہیں کیوں ائرکنڈیشنڈ بسوں میں بیٹھ کر سفر کرنے کے قابل بنایا جا رہا ہے اور یہ آرام دہ سفر کرنے والے ایسی سہولتیں دینے والوں کو کیوں دْعائیں دے رہے ہیں۔
لیکن محسوس ہوتا ہے کہ پنجاب کے شہروں لاہور،راولپنڈی،ملتان اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی میٹرو بس سروس کا رنگ خیبرپختونخوا پر بھی چڑھ گیا ہے، اِسی لیے تو وہاں بھی اِس منصوبے کا اعلان اب بڑے فخر سے کیا جا رہا ہے اور اس کی ’’برکتیں‘‘ دکھائی اور سنائی جا رہی ہیں۔ پشاور کے بعد شاید یہ ’’وبا‘‘ مزید پھیل جائے۔ ریٹنگ کے عالمی ادارے نے کرنٹ اکاؤنٹ اور مالی اکاؤنٹ خسارے کی وجہ بھی بیان کی ہے، جو اس کے نزدیک یہ ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کے لیے مشینری اور ایندھن کی درآمدات زیادہ کرنا پڑیں،اِسی وجہ سے چند سال سے درآمدات بڑھ رہی ہیں۔البتہ برآمدی شعبہ اب بھی مشکل صورتِ حال سے دوچار ہے،جس کے لیے دوبارہ ایسی پالیسی بنانے کی ضرورت ہے،جس سے برآمدات بڑھیں،ویلیو ایڈڈ مصنوعات کی طرف بھی زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔عالمی ادارے کی رپورٹ حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کی مضبوطی کی غماز ہے،تاہم جن کمزوریوں کی جانب رپورٹ میں توجہ دِلائی گئی ہے وہ دور کرنے کی ضرورت ہے۔
(تجزیہ)