میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
عصبیت کا تعفن اور ہمارِی ذِمے دَارِی

عصبیت کا تعفن اور ہمارِی ذِمے دَارِی

منتظم
جمعرات, ۳ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

مفتی رفیق احمد بالاکوٹی
تمام تعریفیں اُس ذَات کے لیے، جس نے ایک اِنسان سے پورِی اِنسانیت کو وجود بخشا اور دُرود و سلام ہو اُس ہستی پر جس نے اِنسانیت کو آدَابِ زندگی سکھائے اور خدا کی رحمتیں ہوں اُن برگزیدہ لوگوں پر جن کے طفیل ہمیں ہدایت کی شمعیں نصیب ہوئیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ دُنیا میں سب سے پہلے اِنسان حضرت آدَم علیہ السلام ہیں جنہیں بندگی کے خاص مقاصد کی تکمیل کے لیے اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا، پھر اُن کی کوکھ سے اِنسانیت کی اماں حضرت حواءعلیہا السلام کو پیدا فرمایا، پھر آگے اُن کی اولاد میں سے بہت سارے مردوں اور عورتوں کو پھیلایا۔اولادِ آدَم کا یہ پھیلاو¿ اِس قدر پھیلا کہ اب اِنسان ایک گھر یا گھرانہ سے کافی آگے جانے لگے تھے، یہاں تک کہ شناخت اور پہچان کی ضرورَت پیش آنے لگی تو حق تعالیٰ شانہ نے اولاد آدم کو اپنی حکمت و مصلحت سے مختلف جتھوں اور قبائل سے موسوم و متعارِف کروَادِیا، تاکہ باہمی شناخت اور پہچان کا فائدہ حاصل ہوسکے۔اور پھر ہر قبیلہ کے لیے مستقل رہنمائی کرنے وَالا اور سامانِ رُشد و ہدایت پہنچانے وَالے کا اِنتظام بھی فرمایا۔ظاہر ہے کہ زمانہ کی گردِش کے ساتھ ساتھ اِنسان ہدایت کی شمع سے دُور ہونے لگے، جس کے نتیجے میں اِنسانیت میں مختلف رُوحانی اور اخلاقی امراض دَر آئے، جن میں ”عصبیت و تفاخر“بھی شامل ہے یعنی اپنے نام و نسب اور قبیلہ و کنبہ کو اعزاز و اِفتخار کا نشان سمجھنا، ہر جائز و ناجائز اور اچھے برے کی تمیز ختم کرکے تمام معاملات میں اپنے قبیلہ و کنبہ کے لیے مرمٹنے کا تا¿ثر اور نظریہ اپنانا اور خاندانی و قبائلی تقسیم (جو منشائِ خداوَندی کے مطابق محض شناخت کے لیے تھی) کو عزت و ذِلت اور اُونچ نیچ کی تقسیم سمجھنا، آں حضرت صلی اللہ علیہ وَسلم نے دُوسرے رُوحانی و اخلاقی امراض کی طرح اِس مرض کے قلع و قمع کے لیے خوب خوب تعلیم فرمائی اور بے شمار وَعید کے ذَریعہ اِس بدبو دَار فکر سے باز رہنے کی تلقین فرمائی اور ایسے تمام افکار و نظریات کی حوصلہ شکنی فرمائی جن سے لسانی، نسلی یا گروہی تعفن اُبھر سکتاہوبلکہ ضابطہ عام کے ذَریعہ شرافت اور عزت کا مدار علم دِین، تقویٰ و خشیت اِلٰہی کو قرار دیتے ہوئے بڑی تاکید کے ساتھ فرمایا کہ:”اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی مجھے عاجزی و تواضع اِختیار کرنے کا حکم فرمایا ہے اور ہرقسم کے غلط فخر اور ظلم وزیادتی سے بچنے کا اِرشاد فرمایاہے۔“ حدیث میں تعصب کرنے وَالے قوم پرست اور نسل پرست تعصبی کو”غلاظت کے کیڑے“ کی مانند قرار دِیا ہے جو گندگی سے پیدا ہوتا ہے، گندگی میں رہتا ہے اور گندگی ہی اُس کا مشغلہ زندگی بنی رہتی ہے۔ اس سے اندازہ کیجئے کہ عصبیت، قوم پرستی اور نسل پرستی اِسلام میں کس قدر ناپسند اور قابل نفرت چیز ہے۔ ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وَسلم کا اِرشاد ہے کہ:”نسب کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کے سبب کسی کو برا کہا جائے یا عار دِلائی جائے، بل کہ تم سب آدَم علیہ السلام کی اولاد ہو، تمہارِی مثال دو برابر برتنوں کی ہے جو خالی ہوں یعنی کچھ نہ کچھ کمی سے کوئی فرد خالی نہیں، کسی کو کسی پر دِین اور تقویٰ کے علاوَہ کوئی فضیلت و ترجیح نہیں ہے۔“ایک حدیث شریف میں اِرشاد ہے کہ:”جب آپ کسی مسلمان بھائی کو عصبیت و قومیت کے باعث شرم و عارکے مقام پر پاو¿ تو اُسے اس باعث شرم و عار کے مقام سے ہٹاو¿۔“یعنی اُس کی غلط ذہنیت، بری خصلت اور بے جا تعصب و تفاخر سے باز رَکھنے میں اُس مسلمان بھائی کی مدد کرو، کیوں کہ اگر وہ اِس غلاظت میں لتھڑا رَہا اور اسی حالت پر اُسے موت آگئی تو بے چارَہ اُمت محمدیہ (علی صاحبہا الصلوٰة والسلام) میں شمار نہ ہوسکے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے کہ”جسے عصبیت پر موت آئی وہ ہم میں سے نہیں ہے۔“(مشکوة)یعنی ایسے فرد کا شمار اُمت محمدیہ میں نہ ہوگا۔ لہٰذا ہمیں اپنی ذہنی فکر و سوچ اور اپنے عمل و کردَار کا خوب تجزیہ کرلینا چاہیے کہ خدانخواستہ ہم ”عصبیت“ کے رُوحانی مرض کا شکار ہوکر کہیں اُمت محمدیہ (علی صاحبہا الصلوٰة وَالسلام) میں شمولیت کے عظیم شرف سے محروم تو نہیں ہو رہے۔ نیز ہمارِی یہ بھی ذِمّہ دَارِی بنتی ہے کہ ہم اپنے ان بھائیوں کو بھی عصبیت کے جوہڑ سے دور کریں جو لسانیت، قومیت یا علاقائیت کے خوش نما نعروں کے جال میں پھانسے جاچکے ہیں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو دِین حق کا فدائی اور شیدائی بنادے اور دُنیا کے مختلف جھوٹے نعروں کی لعنت سے محفوظ فرمائے۔ آمین!


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں