میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
میانوالی کے نیازی

میانوالی کے نیازی

منتظم
جمعرات, ۳ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

anwaar-haqqi

انوار حسین حقی
”بمبےنو سےنما“ کی اونر شپ سے آگے بڑھنے کی خواہش اگر پوری ہو جائے تو پھر پارٹی کی ”پروپرائٹری “ اور ”بھٹوز “ کے ورثہ پر قبضہ برقرار رکھنا بقا سے مشروط ہو جاتا ہے ۔ جناب آصف علی زرداری اپنی اسی جد و جہد کو ” برداشت اور رواداری کی سےاست “ قرار دےتے چلے آئے ہےں ۔ اچھے کاروباری پارٹنرز کی طرح پاکستانی قوم کے مقدر سے باری باری کھےلنے کے طے شدہ”اےن آراو“ پر سختی سے عملدرآمد جاری ہے۔ تےن سے زائد عشروں سے اقتدار پر قابض دو بڑی جماعتوں کو متبادل کے طور پر اےک طاقتور فےکٹر کبھی قبول نہےں رہا ۔ لےکن عمران خان اِن دونوں اور ماضی کی حد تک بڑی جماعتوں کے مدِ مقابل اےک بڑی سےاسی طاقت کے طور پر حقےقت کا روپ دھار چکے ہےں ۔ اِس کی تصدےق حکمرانوں کے بودے اظہاریے اور بلاول بھٹو اور خورشید شاہ کے بیانات کرتے نظر آتے ہیں ۔
رواداری اور برداشت کی سےاست کے علمبردار آصف علی زرداری اور ان کی جماعت کے بعض لیڈر سانحہ مشرقی پاکستان کے وقت ہتھےار ڈا لنے والے پاکستانی فوج کی مشرقی کمان کے سربراہ لےفٹےننٹ جنرل امےر عبداللہ خان نےازی کے حوالے سے عمران خان کو نےازی کہتے ہیں۔ گزشتہ روز ان کی پارٹی کے ایک سینیٹر سعید غنی نے بھی نیازیوں کے حوالے سے کچھ ایسا ہی موقف اختیار کیا ہے ۔
سانحہ مشرقی پاکستان مِلت پاکستان کے جسد پر لگا اےک اےسا زخم ہے جس سے ہمےشہ خون رستا رہے گا اور قوم درد سے کُرلاتی رہے گی ۔ اس مےں ملوث لےڈروں کا انجام اےک سبق کے طور پر ہمارے سامنے رہے گا ۔امرےکا مےں مقےم بنگلا دےشی سلطان رضا کی کتاب مےں درج اقتباس جو محترم ڈاکٹر صفدر محمود نے اپنے کالم میں نقل کیا تھا ملاحظہ فرمائےں ” پندرہ اگست 1975 ءکو ڈھاکا مےں شےخ مجےب الرحمن اور ان کے خاندان کو قتل کر دےا گےا ۔ چار اپرےل 1979 ءکو ذوالفقار علی بھٹو پھانسی چڑھا دےے گئے ۔تےرہ اکتوبر 1984 ءکو بھارتی وزےر اعظم اندرا گاندھی کو ان کے محافظوں نے گولےوں سے بھون ڈالا ۔ ےحییٰ خان ذِلت و رُسوائی کے ساتھ خوفزدہ قےدی کی زندگی گزار کر مر گےا اور قےامت تک نفرت کی علامت بنا رہے گا۔“ سلطان رضا سے اختلاف کا حق حاصل ہے لےکن سانحہ مےں ملوث کرداروں کی مماثلت مےں اےک سبق موجود ہے ۔ جنرل نےازی نے مشرقی پاکستان مےں ہتھےار ڈالے وہ ہماری قومی تارےخ کے اےک نا پسندےدہ کردار کے طور پر زندہ رہے گا۔ آصف علی زرداری اور پارٹی میں ان کے موقف کا حامی دھڑا نےازی قبےلے کو صرف جنرل نےازی کے حوالے سے جانتے ہےں۔ تارےخ ہمارے اس سابق صدر ِ مملکت اور ان کے مصاحبوں کی دلچسپی کا کبھی موضوع نہےں رہا ۔ شاےد ےہ لوگ تاریخ کو بھی غےر منافع بخش سمجھتے ہےں۔ انہےں تو مرحوم حاکم علی زردار ی کے حضرت قائد اعظم ؒ کے بارے مےں وہ رےمارکس بھی ےاد نہےں ہوں گے جو انہوں نے اےک ٹی وی چےنل پر دےے تھے اور جو سوشل مےڈےا پر بھی موجود ہےں ۔ ممتاز براڈ کاسٹر ظفر خان نیازی اپنی ایک تازہ تحریر میں لکھتے ہیں کہ ” جب بھٹو مرحوم میانوالی جیل میں تھے اور زرداری کے ابا جی بھٹو کے مخالف اور قائدِ اعظم کے حوالے سے نا زیبا گفتگو کرنے والے نیشنل عوامی پارٹی کے تیسرے درجے کے سیاستدان تھے تو محترمہ نصرت بھٹو ایک دو مرتبہ میانوالی تشریف لائی تھیں اور وہ عمران خان کے چچا امان اللہ خان نیازی ایڈووکیٹ کے ہاں ٹھہری تھیں ۔ بھٹو مرحوم کی انتہائی خواہش کے باوجود اس گھرانے نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار نہیں کی ۔“
تارےخی حوالوں سے مےانوالی کا ” نےازی قبےلہ “ جرا¿ت اور ناموری کا دبستان نظر آتا ہے ۔نےازی قبائل مےں بلو خےل قبےلے کو ممتاز مقام حاصل ہے۔اس قبےلہ کے مورثِ اعلیٰ بلو خان ( Baloo Khan ) کا شجرہ نسب سرہنگ نےازی سے جا ملتا ہے ۔ تارےخی حوالوں سے پتا چلتا ہے کہ احمد شاہ ابدالی کے دو اُمراءکو 1748 ءمےں گکھڑوں کے مضبوط قلعے پر ےلغار کے وقت بلوخےل قبےلے کی مدد حاصل تھی ۔ اس جنگجو قبےلے کے ماضی کے دلےرانہ معرکوں کی شہادت مقامی لوگوں کے گےتوں مےں آج بھی ملتی ہے ۔عمران خان کا شےر مانخےل قبےلہ اسی بلو خےل قبےلہ کی ذےلی شاخ ہے ۔
پاکستان کے جس فوجی ڈکٹےٹر فےلڈ مارشل اےوب خان کو ہماری جمہورےت کے چمپیئن اور جناب ِ آصف علی زرداری کے سُسر ذوالفقار علی بھٹو مرحوم”ڈےڈی“ کہا کرتے تھے اور جس کی مارشلائی کابےنہ کے بھٹو مرحوم کئی سال تک وزےر رہے ۔ اس کے خلاف جدوجہد کرنے اور مادرِ ملت فاطمہ جناح ؒ کا ساتھ دےنے والوں مےں مولانا عبد الستار خان نےازی ؒ سب سے آگے تھے ۔ مولانا نےازی ؒ اےوب خان مرحوم کے دبنگ گورنر نواب امےر محمد خان آف کالاباغ کے سامنے ہمےشہ چٹان کی طرح ڈٹے رہے ۔ جرا¿ت اور بہادری کے اس پےکر سے 30 دسمبر 1964 ءکو مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح ؒ نے فرماےا تھا” مسٹر نےازی تمہاری جرا¿ت اور بہادری سے خائف ہو کر نواب آف کالاباغ نے تم پر قاتلانہ حملہ کرواےا ہے۔ “
مولانا نےازیؒ ساری زندگی عمران خان کے خاندان سے جُڑے رہے ، ان کا زےادہ وقت عمران خان کے والد اکرام اللہ خان نےازی ، اور چچاو¿ں امان اللہ خان نےازی اےڈووکےٹ اور ظفر اللہ خان نےازی کے گھرانوں کے ساتھ گزرا ۔ مولانا نےازی ؒ کی ہداےت پر ہی عمران خان نے علامہ اقبال ؒ کے کلام کا مطالعہ کےا جس کے بعد ان کی شخصےت پر اقبالےات کے اثرات نماےاں ہوئے۔ دسمبر 1936 ءمےں طلباءکے اےک وفد کی لاہور مےں علامہ اقبالؒ سے ملاقات مےں نوجوان طالب علم عبد الستار خان نےازی ( مولانا نےازی ؒ ) کی تجوےز پر مسلم اسٹوڈنٹس فےڈرےشن قائم کی گئی ۔ مولانا نےازی ؒ کی تجوےز سننے کے بعد علامہ اقبال ؒ نے اپنا داےاں ہاتھ فضاءمےں بلند کرتے ہوئے فرماےا تھا کہI agree with Mr. Niazi ” مےں مسٹر نےازی سے اتفاق کر تا ہوں “ 23 مارچ1940 کو منٹو پارک کے تارےخی جلسہ عام مےں پاکستان زندہ باد کا نعرہ بھی پہلی بار مولانا نےازیؒ نے لگاےا تھا ۔ 1941 ءکو لاہور مےں اےم اےس اےف کی اےک تقرےب کے دوران مولانا نےازی ؒ کی تقرےر پر قائد اعظم ؒ نے فرماےا تھاکہ ” اگر ےہ نوجوان مےرے ساتھ ہوں تو مجھے ےقےن ہے کہ ہم پاکستان بنانے مےں کامےاب ہو جائےں گے “۔مولانا نےازی ؒ کو ختم نبوت کی تحرےک کے دوران ملٹری کورٹ سے موت کی سزا بھی سُنائی گئی تھی ۔
اصلی بھٹو جانتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم اور ڈاکٹر ظفر خان نیازی دونوں انتہائی گہرے دوست تھے، دونوں کے درمیان گہرے مراسم تھے۔ ڈاکٹر ظفر خان نےازی پےشے کے اعتبار سے ڈےنٹل سرجن تھے ، انہوں نے بھٹو مرحوم کے ذاتی معالج اور دوست کی حےثےت سے شہرت حاصل کی۔ ڈاکٹر ظفر خان نےازی کا تعلق بھی مےانوالی کے خنکی خےل قبےلے سے تھا۔ اس قبےلے سے عمران خان کی قرےبی رشتہ داری ہے ۔ڈاکٹر ظفر خان نےازی مرحوم کی محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبد القدےر خان سے بہت دوستی تھی ۔ ڈاکٹر عبد القدےر خان کے ساتھ بھٹو مرحوم کا رابطہ کروانے اور ڈاکٹر خان کو پاکستان آنے کے لیے رغبت دلانے مےں بھی ڈاکٹر ظفر خان نےازی کا کلےدی کردار ہے ۔ یوں میانوالی کے نیازیوں کا شمار پاکستان کے جوہری پروگرام کے بانیوں میں کیا جا سکتا ہے ۔
نائن ڈی کے کمانڈر مےجر جنرل جاوےد سلطان نےازی اور مےجر جنرل ثناءاللہ خان نےازی کی شہادتوں کی داستان پاک فوج کے سےنے پر سجے جرا¿ت کے اےسے تمغے ہےں جن کی ضو فشانےاں ہمےشہ ہماری بہادر افواج کے لیے انسپائرےشن کا باعث بنی رہےں گی ۔ مولانا کوثر نےازی مرحوم سےاست کے ساتھ علم و ادب مےں بھی ناموری کا مقام رکھتے ہےں۔ ڈاکٹر اجمل نےازی کی علمی و ادبی خدمات کا اےک زمانہ معترف ہے ۔کرکٹ مےں مصباح الحق خان نےازی قومی کرکٹ ٹےم کی کپتانی کے ساتھ ساتھ کئی عالمی رےکارڈ قائم کر چُکے ہےں ۔ مےانوالی کے اےک دوسرے نےازی عطاءاللہ خان عےسیٰ خےلوی ہےں جنہوں نے لوک موسےقی کی دنےا مےں اپنے لیے لےجنڈ کا مقام بقائے دوام کے طور پر حاصل کےا ہے۔ ڈاکٹر شےر افگن خان نےازی مرحوم کو پاکستان کی پارلےمانی تارےخ کے صفحات سے کبھی حذف نہےں کےا جا سکتا۔ غرضےکہ زندگی کے تمام شعبوں مےں نےازےوں نے اپنا لوہا منواےا۔
عمران خان کے خاندان کی تےن نسلےں پاکستان اور نظرےہ پاکستان سے جُڑی ہوئی ہےں ۔ ”تحرےک ِ پاکستان سے تحرےک انصاف تک “ کی داستان پاکستان اور اس کے نظریے سے اس خاندان کی وابستگی کا اےک اُجلا دبستان ہے ۔ مےانوالی کے ڈاکٹر محمد عظےم خان شےر مان خےل کا ےہ گھرانہ اپنے علاقے مےں تحرےک پاکستان کے ہراول دستے مےں شامل تھا۔ ڈاکٹر محمد عظےم خان کے بےٹے اور عمران خان کے والد انجےنئر اکرام اللہ خان نےازی 23 مارچ 1940 ءکے اُس تارےخی جلسہ عام مےں بھی شرےک ہوئے تھے جس مےں قرارداد پاکستان منظور ہوئی تھی ۔ عمران خان کے والد نے 1964 ءکے انتخاب مےں فےلڈ مارشل اےوب خان کے مقابلے مےں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح ؒ کا ساتھ دےا تھا ۔ اور اس وقت کے گورنر مغربی پاکستان نواب امےر محمد خان آف کالاباغ کے دباو¿ مےں آنے کی بجائے اپنی سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے دےا تھا۔ مےانوالی مےں جلسہ عام کے موقع پر محترمہ فاطمہ جناح ؒ کے مےزبان مولانا نےازیؒ کے ساتھ عمران خان کا خاندان ہی تھا ۔جنابِ آصف علی زردار ی اور مےاں نواز شرےف جس انداز کی سےاست کرتے ہےں ، عمران خان کی سےاست ان سے مختلف ہے ۔ ےہ رواےتی اور نئی سےاست کا مقابلہ ہے جو دلےل کے ساتھ ہوناچاہےے، ذاتی حملے کبھی بھی سود مند ثابت نہےں ہو تے ۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں