ہنسی خوشی اورہم
شیئر کریں
شاہد اے خان
کہتے ہیں زندگی زندہ دلی کا نام ہے،کبھی کہا جاتا ہے ہنسی علاج غم ہے لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ زندہ دلی ہے کیا اور خوشی کیا ہوتی ہے اور اس کو ناپنے کا کیا پیمانہ ہے۔ اگر ہنسی کو علاج غم مان لیا جائے تو کیا صرف قہقہے لگانے سے غم دور ہو جائے گااور درد سے نجات مل جائے گی ؟خالی خولی کے قہقہے کسی طور درد کا درماں نہیں ہو سکتے۔اچھا ۔۔کیا ایسا ہے کہ خوش صرف وہی شخص ہو جو ہنستا مسکراتا نظر آرہا ہو، نہیں !ایسا بھی بالکل نہیں ہے،خوشی اصل میں اندر کی خوشی ہے ۔یہ اور بات ہے کہ اندر کی خوشی آپ کے چہرے پر جھلکتی ضرور ہے۔لیکن یہ بالکل بھی ضروری نہیں کہ آپ خوش ہیں تو اس کا اظہار قہقہے لگا کر ہی کریں گے۔عام طور پر لوگ خوشی کو ہنسی کے ساتھ جوڑتے ہیں لیکن عام طور پر ہنسی کے ایسے فوائد فرض کر لیے جاتے ہیں جن کا حقیقی مظاہرہ نہیں ہوتا ، نہ ہی وہ اتنے پریکٹیکل ہیں۔جدید تحقیق کے مطابق زیادہ ہنسنے کے نقصانات بھی ہو سکتے ہیں جو فوری نوعیت کے ہوتے ہیں ۔اگرچہ تحقیق کے نتیجے میں ہنسنے کے فوائد اور نقصانات کی درجہ بندی پیش کی گئی ہے پھر بھی کچھ لوگ اس کے فوائد کو نظر انداز کرنے کی غلطی کر سکتے ہیں جبکہ دوسری جانب ہنسی کے نقصانات سے تو اکثر لوگ آگاہ ہی نہیں ہوتے ۔لوگوں کو پتا ہی نہیں کہ زیادہ ہنسنے کے نقصانات بھی ہو سکتے ہیں۔ برٹش میڈیکل جرنل میں ہنسنے کے فوائد اور نقصانات کے حوالے سے ایک سائنسی رپورٹ پیش کی گئی ہے۔سائنسدانوں کو مریضوں پر کیے جانے والے تجربات سے پتا چلا ہے کہ اچانک قہقہوں کی وجہ سے نرخرا یا دل کا وال پھٹ سکتا ہے جبکہ کچھ لوگوں کو دوران قہقہ تیزی سے سانس لینے سے دمے کا دورہ پڑ سکتا ہے اس کے علاوہ ہنسی کے بلاسٹ کے دیگر نقصانات میں ہرنیا، درد شقیقہ کا بڑھنا یا جبڑے کی ہڈی کا اترنا بھی شامل ہو سکتا ہے۔
بات یہ ہے کہ خوش ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آپ مکمل طور پر خوشی محسوس کریں یعنی خوشی آپ کے روئیں روئیں میں بھری ہوئی ہو۔ کبھی آپ نے غور کیا آپ ہیں کیا؟ آپ سوچ رہے ہوں گے یہ کیسا سوال ہے ،ہم انسان ہیں اور کیا ہیں۔ میرا مطلب اس سوال سے یہ جاننا ہے کہ آپ انسان تو ہیں لیکن آپ کی شخصیت کن اجزا سے مل کر بنی ہے؟ ہم انسان تین اجزا سے مل کر بنے ہیں۔ایک ہمارا جسم دوسرا ہمارا ذہن اور تیسری ہماری روح۔ خوش رہنے کے لیے ان تینوں اجزا کی خوشی ضروری ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جسم ذہن اور روح کی خوشیاں الگ الگ ہوتی ہیں۔ جواب ہے جی ہاں !ان تینوں کی خوشیاں الگ الگ
لیکن ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہوتی ہیں۔
کبھی آپ نے محسوس کیا ہے کہ جب آپ کا موڈ خراب ہو یا آپ ڈپریشن کا شکار ہوں یا ذہنی دباؤمیں ہوں تو آپ کا جسم بھی آپ کا ساتھ نہیں دے رہا ہوتا۔ آپ تھکن محسوس کرتے ہیں اور آپ کی ایفی شنسی کم ہو جاتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ذہن ناخوش ہوگا تو اس کا جسم پر لازمی اثر ہوگا۔اب بات کرتے ہیں روح کی خوشی کی، روح پاکیزہ شے ہے ،ہم اپنے نفس کے ہاتھوں برائیوں کا شکار ہوتے ہیں تو روح آلودہ ہوتی جاتی ہے۔ ہم لوگوں کا حق مارتے ہیں ،ہم حرام کھاتے ہیں ،ہم خدا کو یاد نہیں کرتے تو روح ناخوش ہو جاتی ہے۔ روح کی ناخوشی کا اثر ہمارے ذہن پرپڑتا ہے۔ذہنی پریشانی یا دباؤ ہو تو آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر بھرپور طریقے سے مسکرائیں یہ فوری ریلیف کا بہترین نسخہ ہے۔ اگرآپ ذہنی تناؤ کا شکار ہیں توباقاعدہ ورزش، چہل قدمی، تیراکی، سائیکلنگ اور دیگر جسمانی سرگرمیوں میں حصہ لینا چاہیے۔ جسم کو خوش رکھنے کے لیے اچھی خوراک اور صاف ستھرا طرز زندگی ضروری ہے۔جسم کی پاکیزگی بھی ضروری ہے کہ اس سے روح کی پاکیزگی جڑی ہوئی ہے۔روح کی پاکیزگی کے لیے طرز حیات کو برائی کے راستے سے ہٹا کر سچائی کے راستے پر ڈالنا پڑتا ہے۔جسم اور ذہن کو برائیوں سے روکنا پڑتا ہے۔جب جسم ، ذہن اور روح برائی سے پاک ہو جاتے ہیں تو خوشی کا چشمہ پھوٹتا ہے ،پھر چاہے غریب ہوں یا امیر ،کالے ہوں یا گورے ،ہم خوشی کو اندر سے محسوس کرتے ہیں۔تب ہماری یہ خوشی دوسروں سے بھی چھپی ہوئی نہیں رہتی ،انہیں بھی ہماری خوشی ہمارے چہرے سے پھوٹتی صاف محسوس ہوتی ہے۔