انتخابی وٹا :اور چند اشارے
شیئر کریں
رضوان الرحمن رضی
جناب عمران خان نے رائیونڈ اور جاتی امراء چوک پر ایک اور جلسہ کرلیا۔جلسے کی کامیابی یا ناکامی کا معیار ہر دو فریقین کے نزدیک دیگر ہے، لیکن یہ بات طے ہے کہ کوئی ربع صدی تک سیاسی جلسوں کے جائزوں کے بعد خاکسار کا خیال ہے کہ بیس ہزار وہ جادوئی ہندسہ ہے جس کو پار کر جانے کے بعد کوئی بھی فریق دس لاکھ حاضرین تک کا دعویٰ کر لیتا ہے۔ اور شیخ رشید صاحب اسے عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر کہہ سکتے ہیں جو انہوں نے اپنی زندگی میں اس سے پہلے کہیں نہیں دیکھا ہوتا۔ اس جلسے میں بھی شائد یہی صورتِ حال رہی ۔ اس جلسے نے عمران خان کے اعتماد میں مزید اضافہ کیا اور انہوں نے جلسہ ’پلس‘ میں ’پلس‘ یہ مارا کہ اسلام آباد کے گھیراو ٔکا اعلان کردیا۔عمران خان نے اگرچہ پورے ملک سے لوگ اکٹھے کیے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس نے یہ اجتماع اکیلے ہی کیا۔ کوئی سیاسی اتحادی یا سیاسی کزن اس جلسے میں ان کے ہمراہ نہیں تھا۔ جماعت اسلامی نے فیصل آباد میں اپنا الگ سے جلسہ سجایا جب کہ جنابِ قادری لندن میں ناراض بیٹھے ہیں۔
عمران خا ن کی مشکل ان کے ایچی سن کے ہم جماعت اور وزیر داخلہ نثار علی خان نے آسان کر دی جب انہوں نے چند چنیدہ صحافیوں کو اپنے دفتر میں چائے پر بلا کر یہ بتا کر حیران کر دیا کہ اگر بیس ہزار کے قریب لوگ اسلام آباد اُمڈ آئیں تو دارالحکومت کی انتظامیہ اس کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتی کہ ان کے سامنے ہتھیار ڈل دے۔
عمران خان کے اعتماد کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کا خیال ہے کہ وہ نواز حکومت کو مسلسل دباؤ میں رکھ کر آئندہ انتخاب تک حکومتی مشینری کو میاں نواز شریف سے الگ کر دے گا جس کی غیر موجودگی میں شائد میاں صاحب کے لیے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنا آسان نہ ہو اور یوں میاں صاحب بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ سے وہ رعائتیں اور مطلق اقتدار حاصل کرنے کی سودے بازی نہ کر پائیں جو انہوں نے گزشتہ انتخابات کے موقع پر کی تھی۔ لیکن اس سے بڑھ کر حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج ہیں جن میں بظاہر تو ن لیگ جیت رہی ہے لیکن عمران خان کو پتہ چل گیا ہے کہ یہ جیت ’وٹے‘ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
یادش بخیر پاکستان تحریکِ انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے راولپنڈی اور اسلام آباد دھرنوں نے کچھ سیاسی حقیقتوں کو آشکار کیا وہیں ان کی مبادیات کو بھی بدل دیاجس کی طرف بہت کم لوگوں کی نظر گئی کیوں کہ اس کے فوراً بعد پی ٹی آئی کی قیادت کراچی پدھار گئی اور وہاں پر رونق میلا لگانے کا اعلان کردیا لیکن وہ پنجابی کی کہاوت ہے ناں کہ ’’جو یہاں برے وہ مکے بھی برے ‘‘ کے مصداق وہاں پر باقاعدہ ڈانٹ پڑی کہ تمہیں کتنی دفعہ بتائیں کہ بندے پورے نہیں ہیں۔ اس لیے رائیونڈ کے جلسے کے ذریعے پیغام بھجوایا گیا کہ نہیں بات اتنی بھی خراب نہیں ہوئی۔
راولپنڈی ،لاہور اور کراچی کی نام نہاد ریلیوں میں عوام الناس کی تعداد تو موجود تھی لیکن وہ تعداد اتنی نہیں تھی جو شیخ رشید کے بقول عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر کہلا سکتی یا پھر عمران خان کے بقول لوگوں کا سونامی ہوتا ۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان اور طاہرالقادری نے اپنی تقاریر میں حکمران جماعت کو کوئی بھی حتمی الٹی میٹم دینے سے احتراز کیا تھا۔
پی ٹی آئی کے ’طاقت‘ کے گزشتہ کمزور مظاہروں کا نتیجہ یہ نکلا تھاکہ اگلے روز ہی قومی اسمبلی کے ا سپیکر نے میاں نواز شریف کے خلاف داخل کیا گیا نا اہلی کا ریفرنس مسترد کردیا جب کہ حکمران جماعت کا عمران خان اور ہمنواؤں کی نا اہلی کا ریفرنس حتمی فیصلے لیے الیکشن کمیشن کو بھیج دیا۔ جب کہ اب وہ رائیونڈ اجتماع کے بعد یہ کہتے پائے جا رہے ہیں کہ انہوں نے میاں صاحبان کے خلاف بھیجا گیا ریفرنس بھی الیکشن کمیشن کو بھیج دیا تھا۔(حالاں کہ وہ پہلے کہتے رہے کہ اس ریفرنس میں کچھ نہ ہونے کی بناء پر مسترد کر دیا تھا۔)
سیاست میں بھرم بہت بڑی چیز ہوتی ہے، جو کسی بھی صورت میں قائم رہنا چاہیے۔اگر بھرم ختم ہو گیا تو سمجھو سب کچھ ختم ہو گیا۔ کسی زمانے میں جماعت اسلامی کا یہ بھرم بہت قائم ہوتا تھا کہ ان کے پاس اسٹریٹ پاور ہے، پھر اس کی قیادت نے یہ بھرم اس قدر استعمال کیا کہ اب لاہور میں منصورہ کے باہر بھی چند سو لوگوں کا مظاہرہ کرنا قیادت کے لیے ایک مصیبت بنا ہوتا ہے۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ طاقت کے مظاہرے کے حوالے سے پی ٹی آئی کے جو مشیر آج کل ہیں ،کسی زمانے میں یہی مشیر جماعت اسلامی کو بھی مشاورت فراہم کیا کرتے تھے۔ ان مشیروں کی تاریخ کچھ اچھی نہیں، خان صاحب اسی قدر جلدی گئے اور انہوں نے اپنی تمام نوجوانوں کی تنظیموں کو فارغ کر کے اپنے فیصلے صادر کیے اور جلسہ کر ڈالا۔
اس دوران پنجاب میںتین ضمنی انتخابات بھی ہوئے۔ ایک افواجِ پاکستان کو سب سے زیادہ بھرتی فراہم کرنے والے ضلع جہلم میں ،دوسرا پورے صوبہ سندھ کے برابر کپاس پیدا کرنے والے پنجاب کے واحد ضلع وہاڑی کی تحصیل بوریوالہ میں جب کہ تیسرا چیچہ وطنی میں ۔تینوں اضلاع میں نتائج مسلم لیگ کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہییں۔ اس کے باوجود کہ جہلم میں پی ٹی آئی کی طرف سے اُس خاندان کا چشم و چراغ برسرِ پیکار تھا جو پہلے مشرف صاحب کا ہمنوا تھا، پھر مشرف صاحب کی سیاسی جماعت ’آل پاکستان مسلم لیگ ‘ میں پہنچا، بعد ازاں پیپلز پارٹی میں وارد ہو گیا اور انتخابات سے عین قبل انہوں نے پی ٹی آئی میں لینڈ فرمایا۔ سلمان شہباز کے وہ دوست ہیں۔ ایسے امیدوار کی تو ضمانت ضبط ہوجانا چاہیے تھی لیکن وہ امیدوار بھی حمزہ شہباز شریف کی تمام تر انتخابی مہم کے باوجود جو انہوں نے کلر کہار کے محکمہ جنگلات کے ’ریسٹ ہاوس‘ میں بیٹھ کر چلائی ،یہ امیدوار صرف چند ہزار ووٹوں کی لیڈ سے ہی ہار پایا۔ جب کہ بوریوالہ کی پی ٹی آئی امیدوار عائشہ جٹ تو چار ہزار ووٹوں کی لیڈ سے جیت کر سوئی تھی لیکن صبح اٹھی تو ڈی سی او صاحب نے اسے بارہ سو ووٹوں کے فرق سے ہرا دیا تھا۔وہ سارا سرکاری ریکارڈ لے کر دربدر ماری ماری پھر رہی ہے۔
ایسے میں جناب اوریا مقبول جان صاحب کا وہ قول یاد آگیا۔ فرماتے ہیں کہ پنجاب کی افسر شاہی میں ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے ’’بٹہ ڈالنا‘ ۔ پنجاب میں جب زرعی اجناس کی منڈیوں میں کسان کی فصل کو تولا جاتاہے تو آڑھتی باٹوں والے پلڑے میں بڑے باٹ رکھ دیتے ہیں جب کہ وزن کرنے کے دوران جب میزان کے دونوں پلڑے برابر نہ ہوں تو پیداوار والے پلڑے میں چھوٹے باٹ ڈال کر میزان کو برابر کرتے ہیں اور یوں فصل تولنے کا عمل تیزی سے تکمیل پاتا جاتا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ یہ باٹ اس پلڑے میں نہیں ڈالا جاتا جس میں پہلے باٹ پڑے ہوتے ہیں بلکہ یہ باٹ اُس پلڑے میں ہوتا ہے جہاں تولی جانے والی چیز ڈالی جاتی ہے۔
اوریا صاحب فرماتے ہیں کہ انتخاب کروانے والا ڈی سی او25000 ووٹوں تک کا ’باٹ‘ تو بڑی آسانی سے کسی ایک امیدوار کے حق میں ڈال کر حکمران جماعت کی مرضی کے نتائج نکال دیتا ہے۔ اگرچہ انتخابات کا قانونی انچارج ضلع کا سیشن جج ہوتا ہے لیکن انتخاب کی رات کے بارہ بجے کے بعد ملنے والی پولنگ اسکیم کو وہ باریک بینی سے چیک نہیں کر سکتا ہے لہٰذا اس کی حیثیت بس دستخط کرنے تک محدود ہوتی ہے۔ تین سے چار پولنگ اسٹیشن ایسے بنا لئے جاتے ہیں جہاں پر حزبِ اختلاف کے پولنگ ایجنٹ کی موجودگی نہیں ہوتی۔ اور دو سے پانچ بجے تک ووٹنگ کا رحجان دیکھ کر حسبِ ضرورت باٹ ڈال دیا جاتا ہے۔
ظاہر ہے پنجاب کے ان تینوں حلقوں میں یہ باٹ تو ضرور استعمال ہوئے ہیں۔ ایسے میں اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو پنجاب میں یہ تینوں حلقے پی ٹی آئی جیتی اور مسلم لیگ کی گڈ گورننس ہاری ہے اور اگر یہی انتخابات غیر جانبدار سیٹ اپ کے تحت ہوئے تو نتائج وہ ہرگز نہیں ہوں گے جو اب ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ ایسے میں اگر دیکھا جائے تو پنجاب ایک سیاسی کروٹ لینے کے موڈ میں دکھائی دیتا ہے۔ اگرچہ رائیونڈ کو چھوڑ کر عمران خان کے دھرنوں اور ریلیوں میں لوگوں کی تعداد شرمناک حد تک کم ہو رہی ہے ، لیکن اس کے ووٹوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ریلیوں میں نہ آکر اور بیلٹ باکسز کو بھر کرعمران خان کے ووٹرز خان صاحب کو جو اشارہ کر رہے ہیں ، خان صاحب وہ شائد سمجھ نہیں پا رہے کہ ان کے ووٹرز اب احتجاجی موڈ میں نہیں ہیں بلکہ وہ 2018 کے انتخابات میں اپنا انتقام لیں گے۔ لیکن خان صاحب کا خیال ہے کہ وہ ان انتخابات سے قبل ہی نواز شریف کو یوں چلتا کریں گے کہ وہ ان انتخابات کے کروانے کی ایڈوائس صدر کو نہ دے سکیں اور یہ کام کوئی اور فریق کروائے ۔ لیکن یہ سب موجودہ سیٹ اپ میں کیسے ہو، یہ ان کے کسی بھی حامی کو معلوم نہیں۔ ماسوائے اس کے سنجیاں ہوجان گلیاں تے وچ مرزا یار پھرے کے مصداق کہ میاں نواز شریف نا اہل ہو جائیں اور ان کی سیاسی میراث کی تقسیم پر جھگڑا پڑ جائے جسے وہ سمیٹ نہ پائیں اور یوں خان صاحب کا داؤ لگ جائے۔
لیکن پانامالیکس کے معاملے میں میاں صاحب کے نابغے مشیر زبیر عمر کی تمام تر کوششوں کے باوجود میاں نواز شریف کے نا اہل ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا کیوں کہ ہماری اطلاعات کے مطابق ان کے سعودی شہری صاحب زادے نے وہاں کی حکومت میں موجود لوگوں سے ایسے ضروری کاغذات اپنی پسند کی تاریخوں میں اس طرح حاصل کر لیے ہیں کہ ان کو کسی بھی عدالت کا نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہو گا اور میاں صاحب بڑے آرام سے اس بحران سے بھی نکل جائیں گے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ خان صاحب نے عدالتی دروازہ کھٹکھٹانے کے ساتھ ساتھ سڑکوں پر معاملہ لانے کوہی اپنی سیاسی سلامتی جانا ہے۔
بھارت کے ساتھ بڑھتی ٹینشن بھی ان کو بچانے کا ایک مضبوط سہارا ہے اور میاں نواز شریف ایک کل جماعتی کانفرنس بلا کر اس موقع کو بھی مقامی سیاست میں استعمال کرنا نہیں بھولے ۔ اس کانفرنس سے کچھ اور ہو نہ ہو، لیکن میاں نواز شریف کی سیاسی تنہائی ضرور کم ہو جائے گی اور شائد عمران خان کے رائیونڈ جلسے کے اثرات ختم کرنے کا بھی موقع مل جائے۔