میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نگراں وزیراعظم اس لاقانونیت کا نوٹس لیں 

نگراں وزیراعظم اس لاقانونیت کا نوٹس لیں 

جرات ڈیسک
اتوار, ۳ ستمبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

ہائی کورٹ نے گزشتہ روز سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی کو فوری طور پر رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے سختی کے ساتھ ہدایت کی تھی کہ کوئی اتھارٹی یا ادارہ انہیں دوبارہ گرفتار نہ کرے، عدالت نے پرویز الہٰی کو پولیس کی نگرانی میں گھر روانہ کیاتھا تاہم راستے میں انہیں دوبارہ گرفتار کرلیا گیا۔اخباری اطلاعات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس امجد رفیق نے پرویز الٰہی کی نیب میں گرفتاری کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی اور عدالت نے فوری عبوری ریلیف دیتے ہوئے پرویز الٰہی کو نیب تحویل سے رہا کرنے کا حکم دے دیاتھا۔عدالت نے قرار دیاتھا کہ انکوائری ہوگی کہ عدالتی حکم کے باوجود پرویز الٰہی کو کیوں گرفتار کیا گیا۔ گزشتہ روز نیب پراسیکیوٹر نے عدالت میں یقین دہانی کرائی تھی کہ پرویز الٰہی کو جمعہ کی صبح 10 بجے پیش کردیا جائے گا لیکن عدالتی حکم کے باوجود ایک مرتبہ پھر پرویز الٰہی کو عدالت کے روبرو پیش نہیں کیا گیا۔سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ بتائیے پرویز الٰہی کدھر ہیں، کیوں عدالت میں پیش نہیں کیا گیا؟ حکومت پنجاب کے وکیل غلام سرور نہنگ نے موقف اختیار کیا کہ نیب نے پنجاب حکومت کو سیکورٹی کے لیے خطوط لکھے ہمیں سماعت کا تحریری حکم نہیں ملاتھا۔عدالت نے باور کرایا کہ تحریری حکم جاری ہوچکا تھا اس کا مطلب ہے آپ پرویز الٰہی کو پیش نہیں کرنا چاہتے۔ نیب پراسکیوٹر کا موقف تھا کہ ہم پرویز الٰہی کو پیش کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن پرویز الٰہی کی زندگی کو شدید خطرات ہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کی عزت انہی عدالتوں سے ہے۔جسٹس امجد رفیق نے ایک بار پھر حکم دیا کہ پرویز الٰہی کو ایک گھنٹے میں پیش کریں۔ آپ پنگ پانگ کھیل رہے ہیں۔ کئی مرتبہ پرویز الٰہی کو ٹرائل کورٹ میں پیش کیا جاچکا ہے۔ جسٹس امجد رفیق نے واضح ہدایات جاری کیں کہ حکومت کو چھوڑیں، آپ پرویز الٰہی کو پیش کریں۔ حکومت نیب کے ساتھ تعاون نہیں کرتی تو نہ کرے۔عدالت نے ایک گھنٹے میں پرویز الٰہی کو پیش کرنے کا حکم دیا اور باور کرایا کہ اگر پرویز الٰہی کو پیش نہ کیاگیا تو ڈی جی نیب کے وارنٹ گرفتاری جاری کریں گے۔عدالتی حکم پر سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالتی حکم کے بعد نیب حکام پرویز الٰہی کے پاس آئے اور کہا کہ آپ ہماری طرف سے آزاد ہیں، آپ جاسکتے ہیں۔پرویز الٰہی کے وکلا کا موقف تھا کہ عدالتی تحریری حکم ملنے کے بعد عدالت سے روانہ ہوں گے۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ عدالت کے واضح حکم کے باوجود عدالت کے باہر یونیفارم اور بغیر یونیفارم کے بھاری نفری موجود ہے، لگ رہا ہے پرویز الٰہی کو دوبارہ گرفتار کرنے کا پلان ہو چکا ہے، عدالتیں بنیادی حقوق کے تحفظ کی گارنٹی دیتی ہیں، پولیس عدالت کے باہر کھڑی ہے، عدالت کو چاہیے کہ وہ پولیس کو حکم دے کہ پرویز الٰہی کو گھر تک سیکورٹی دی جائے۔جسٹس امجد رفیق نے کہا کہ ہم پنجاب پولیس کے کسی افسر کو کہتے ہیں وہ پرویز الہی کو گھر چھوڑ آئیں، جسٹس امجد رفیق نے رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ کو بلا لیا۔ ایس پی اقبال ٹاؤن کو عدالت نے روسٹرم پر طلب کرلیا جسٹس امجد رفیق نے کہا کہ آپ ایک دو افسران اور لیں اور پرویز الٰہی کو گھر چھوڑ کر آئیں، اس پر ایس پی نے کہا کہ جو عدالت کا حکم ہوگا اس پر عمل کریں گے۔جسٹس امجد رفیق نے کہا کہ مکمل ذمہ داری آپ کی ہو گی اگر کچھ ہوا تو اس کے ذمہ دار آپ ہوں گے۔ اس دوران پولیس والے پرویز الہٰی کی دوبارہ گرفتاری کے لیے نیب سے لڑتے رہے اور پرویز الٰہی کو دوبارہ گرفتار کرنے کیلئے دباؤ ڈالتے رہے لیکن، نیب کی جانب سے دوبارہ گرفتاری سے صاف انکار پرویز الہٰی کی پیشی کے موقع پر نیب اہل کاروں اور پولیس کے درمیان تلخ کلامی ہوئی اور دونوں جانب سے ایک دوسرے کو دھکے دیے گئے، پولیس اہلکار پرویز الہٰی کو لانے والے نیب اہل کاروں سے الجھتے رہے اور انہیں پرویز الہٰی کو دوبارہ گرفتار کرنے کا کہتے رہے، مگر نیب نے پرویز الہی کے رہائی کے حکم کے بعد انہیں دوبارہ گرفتار کرنے سے انکار کر دیا۔ پولیس اہلکار نیب اہل کاروں کی پرویز الہٰی کو دوبارہ گرفتار کرنے کے لیے منت سماجت بھی کرتے رہے مگر نیب افسران نہ مانے۔ اس دوران پولیس اور نیب اہلکاروں کے مابین ہاتھا پائی ہوگئی۔ایک نیب افسر نے کہا کہ پولیس کی وجہ سے گالیاں ہم نہیں سن سکتے۔ نیب افسرکے حکم پر تمام افسران اور اہلکار لاہور ہائیکورٹ سے روانہ ہوگئے۔لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس امجد رفیق نے پرویز الہٰی کی رہائی کا تحریری حکم جاری کردیا جس میں عدالت نے پرویز الہٰی کو نیب اور کسی بھی اتھارٹی کی جانب سے گرفتار کرنے سے روک دیا۔تحریری حکم میں کہا گیا تھا کہ کوئی اتھارٹی، ایجنسی اور آفس، درخواست گزار کو گرفتار نہ کرے، پرویز الہٰی کو نظر بندی کے قانون کے تحت بھی حراست میں نہ لیا جائے۔ تحریری حکم میں کہا گیا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ نے پرویز الہٰی کو کسی انکوئری، مقدمے میں گرفتار کرنے سے روکا تھا، نیب نے پرویز الہٰی کو اس وقت گرفتار کیا جب سنگل بینچ کا فیصلہ معطل تھا،2رکنی بینچ نے انٹرا کورٹ اپیل مسترد کی تھی اور سنگل بینچ کا فیصلہ بحال کردیا تھا، 2 رکنی بینچ کے فیصلے کے بعد نیب کی حراست غیر قانونی تھی۔حکم میں مزید کہا گیا تھا کہ عدالتی ہدایت پر درخواست گزار کو عدالت میں پیش کیا گیا یہ عدالت درخواست گزار کو رہا کرنے کا حکم دیتی ہے۔عدالت نے نیب کو آئندہ سماعت پر تفصیلی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کردی اور سماعت 21 ستمبر تک ملتوی کردی۔بعد ازاں پرویز الہٰی نے کمرہ عدالت میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی ن لیگ آئی ہے انہوں نے مہنگائی ہی کی ہے۔ ملک کا بیڑہ غرق کرکے ن لیگ کی قیادت لندن بھاگ گئی ہے۔ مجھے تو اندر رکھا ہوا  تھا، پتہ نہیں ملک کا کیا کررہے ہیں۔پرویز الٰہی نے مزید کہا کہ اب تو آئی ایم ایف نے بھی کہہ دیا ہے کہ الیکشن کرائیں جس کے لیے میں پرعزم ہوں۔ عدالتی حکم کے باوجود کئی گھنٹے تک پرویز الہٰی عدالت کے اندر رہے اور باہر نہیں گئے تاہم عدالت کی یقین دہانی کے بعد وہ گھر کی جانب روانہ ہوئے تاہم عدالت کے سخت اور واضح حکم کے باوجود2 ڈی آئی جیز کی موجودگی میں انہیں دوبارہ گرفتار کرلیا گیا۔عدالت نے انہیں ایس پی کی نگرانی میں اور سخت سیکورٹی میں گھر کی جانب روانہ کیاتھا، قافلے میں ڈی آئی جی آپریشن اور ڈی آئی جی انویسٹی گیشن بھی موجود تھے جبکہ پولیس کی متعدد موبائلیں پرویز الہٰی کی گاڑی کے آگے اور پیچھے موجود تھیں تاہم کچھ گاڑیاں آئیں ایف سی کالج کے قریب پولیس کے قافلے کو روک کر پرویز الہٰی کو دوبارہ گرفتار کرلیا گیا۔ پرویز الہٰی کو سفید رنگ کی گاڑی میں بٹھا کر سادہ لباس نقاب پوش اپنے ہمراہ لے گئے۔ اطلاعات ہیں کہ انہیں اسلام آباد پولیس اپنے ساتھ لے گئی ہیں جس نے انہیں عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تھری ایم پی او کے تحت گرفتار کیا ہے۔
لاہور ہائیکورٹ کے واضح حکم اور عدالتی حکم پر فراہم کی گئی پولیس کی سیکورٹی کے باوجود پرویز الٰہی کو گرفتار کرکے بادی النظر میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے،کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نظر میں اعلیٰ عدالتوں کے احکام کی بھی کوئی وقعت نہیں ہے اور انھیں من مانی کرنے کی کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے،یہ سوچ ہر اعتبار سے انتہائی خطرناک اور خود ملک کی سلامتی اور قانون کی بالادستی کیلئے انتہائی خطرناک ہے،ملک کے مقتدر حلقوں کو اس کا نوٹس لینا چاہئے اور سرعام اعلیٰ عدالت کے احکام کی دھجیاں ں اڑا کر پرویز الٰہی کو دوبارہ زبردستی گرفتار کرنے والے اہلکاروں اور افسران کے خلاف فوری طور پر سخت ترین کارروائی کرنی چاہئے اگر ایسا نہ کیا گیاتو ملک میں مکمل لاقانونیت پھیل سکتی ہے اور ہر ادارہ اپنی من مانی پر اترآئے تو نظام حکومت ٹھپ ہوکر رہ جائے گا،ہم سمجھتے ہیں کہ نگراں وزیراعظم کو تمام مصروفیات چھوڑ کر اس واقعے کا نوٹس لینا چاہئے اور ذمہ دار عناصرکو فوری طورپر کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہئے،اور اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ عدالتی احکام کی خلاف ورزی کرنے والے ان سے زیادہ طاقتور ہیں اور وہ ان کے خلاف کوئی قدم اٹھانے یا کارروائی کرنے سے قاصر ہیں تو انھیں فوری طورپر اپنے اس عارضی عہدے سے استعفیٰ دے کر حکومت سے باہر آجانا چاہئے،ورنہ لوگ یہ سمجھنے پر بجاطورپر مجبور ہوں گے کہ موجودہ نگراں حکومت غیر جانبدار نہیں ہے اور کسی خاص ایجنڈے پر کام کررہی ہے اور نگراں حکومت کا اصل کام صاف،شفاف اور منصفانہ انتخابات کرانے کیلئے ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کو یکساں مواقع فراہم کرنے کے بجائے ایک مخصوص جماعت کو انتخابی دنگل سے الگ رکھنے کیلئے اس کے تمام ہمدردوں اور حامیوں کو دیوار میں چنوا دینے کے سوا کچھ نہیں۔نگراں وزیراعظم کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ سدا حالات ایک جیسے نہیں رہتے اور سیاست میں حالات کا رخ تبدیل ہونے میں دیر نہیں لگتی،لیکن ان کے اس طرح کے اقدامات یا ایسے اقدامات سے چشم پوشی کا رویہ لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ رہے گا اور تاریخ بہت  ہی سفاک ہے وہ کسی کو معاف نہیں کرتی،اور چند روزہ حکمرانی کیلئے ان کی جانب سے کی جانے والی ناانصافیاں ان کی سیاست کو ہمیشہ کیلئے دفن کرسکتی ہیں۔
توقع کی جاتی ہے کہ نگراں وزیراعظم سرکاری اہلکاروں کے ہاتھوں عدالتی احکام کی اس طرح کی تذلیل کو خاموشی سے برداشت نہیں کریں گے اور اس کے ذمہ داروں کا تعین کرکے فوری طورپر انھیں قرار واقعی سزا دلوانے کی کوشش کریں گے تاکہ ان کی غیرجانبداری اور نیک نامی متاثر نہ ہو۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں