بدبخت اولاد کا جائیداد کی خاطر والدین پر تشدد
شیئر کریں
ڈاکٹر جمشید نظر
پاکپتن کے علاقہ گلشن فرید کالونی میں ایک بدبخت بیٹے نے جائیداد کی خاطر اپنے بوڑھے والد کولاتوں ،مکوں اور جوتوں سے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا تو کسی نے اس تشدد کی ویڈیو سوشل میڈیا پر اپلوڈ کردی ۔سوشل میڈیا صارفین نے ویڈیو میں بوڑھے باپ پر تشدد دیکھ کرشدید الفاظ میںمذمت کی اور بدبخت بیٹے کو سزا دینے کا مطالبہ کیا ۔آخرکار ویڈیو متعلقہ پولیس تک پہنچ گئی اورپاکپتن تھانہ فرید نگر پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے بدبخت بیٹے اور اس کے ساتھی کو گرفتار کرلیا۔جائیداد کی خاطر بوڑھے والدین پر تشدد کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا ۔اس سے قبل بھی بدبخت اولاد کے ہاتھوں بوڑھے ماں باپ تشدد کا نشانہ بن چکے ہیں بلکہ پاکپتن میں ہی مارچ کے مہینہ میں ایک بدبخت بیٹے نے جائیداد کے تنازع کی خاطر بوڑھی ماں،بھابھی اور بھائیوں سمیت گھر کے سات افراد کو قتل کردیا تھا۔اسلامی معاشرے میںوالدین اپنی زندگی اولاد کی خاطر وقف کردیتے ہیں،خود بھوکے رہ کر اپنی اولاد کا پیٹ پالتے ہیں اور پھرجب وہی اولاد ناخلف ہوجاتی ہے ،والدین کو برا بھلا کہے یا ان پر تشدد کرتی ہے تو والدین سوچتے ہیں کہ اس سے بہتر تھا کہ وہ بے اولاد ہی رہتے۔معاشرے کا المیہ ہے کہ اکثر بدبخت اولاد اپنے بوڑھے والدین کی خدمت کو ترجیح دینے کے بجائے اسی آڑ میں رہتے ہیں کہ کب ان کو جائیداد کا حصہ ملے گا حالانکہ جس جائیداد کو وہ پانا چاہتے ہیں ایک دن وہی جائیداد ان کے لئے بھی اسی طرح کی بدسلوکی کا سبب بن جاتی ہے ۔بدبخت اولادبوڑھے والدین پر تشدد کرتے وقت یہ بات بھول جاتی ہے کہ ایک دن اس نے بھی بڑھاپے میں قدم رکھنا ہے تب اس کی اولاد یہی سلوک کرے گی تو اس پر کیا بیتے گی؟
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میںہر 6میں سے ایک ساٹھ سال کی عمر کے بزرگ کو کسی نہ کسی طرح بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے خواہ وہ بدسلوکی اہل خانہ کی طرف سے ہو یا معاشرے کی طرف سے۔المیہ یہ ہے کہ عمررسیدہ افراد اس بدسلوکی پر احتجاج بھی نہیں کرپاتے۔پاکستان کے ادارہ برائے شماریات کے مطابق کل آبادی کا چار اعشاریہ دو فیصد حصہ بزرگ شہریوں پر مشتمل ہے۔ 2050تک یہ تناسب 15 اعشاریہ آٹھ فیصد تک پہنچ جاہے گا۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں اوسط عمر ساڑھے 66 برس ہے اورپاکستانی خواتین کی اوسط عمر تقریباً 67 سال جبکہ مردوں کی اوسط عمر لگ بھگ 65 برس کے برابر ہے۔
اسلام میں بزرگوں کو اہمیت اور خاص مقام دیا گیا ہے۔گھر میں بزرگوں کی موجودگی برکت کا باعث ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”ہمارے بڑوں کی وجہ سے ہی ہم میں خیروبرکت ہے،پس وہ ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی بے ادبی کرے یا ان سے گستاخی سے پیش آئے”۔ اسی طرح نبی کریمۖ نے ارشاد فرمایا”بڑوں کی تعظیم دتوقیرکرو اور چھوٹوں پر شفقت کروگے تو تم جنت میں میری رفاقت پالوگے”۔ ماںکی خدمت گزاری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے حضرت اویس قرنی کو خاص عنایت اور مقام عطا فرمایا ۔نبی اکرم ۖ نے فرمایا”جب لوگ جنت میں جارہے ہونگے تو جنت کے دروزے کے قریب اویس کواللہ کے حکم پر روک لیا جائے گا،اویس گھبرا جائیں گے ،کہیں گے یااللہ ،مجھے کیوں روک لیا ہے تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے،پیچھے دیکھو ، اویس پیچھے دیکھیں گے توکڑوروں،اربوں کی تعداد میں جہنمی کھڑے ہونگے ،اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اویس تیری ایک نیکی (ماں کی خدمت)نے مجھے بہت خوش کیا ہے ،تو انگلی کا اشارہ کر جدھر جدھر تیری انگلی پھرتی جائے گی میں تیرے طفیل ان کو جنت میں داخل کردوں گا”۔ ماں کی خدمت کرنے والے عا شقِ رسولۖحضرت اویس قر نی کو خیرالتابعین کا لقب حضور اکرمۖکی زبان مبارک سے عطا ہواہے۔
اللہ تعالیٰ نے بزرگوں کو جھڑکنے اور ان کے ساتھ بدسلوکی کو سخت نا پسندیدہ عمل قرار دیا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ”تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرواور والدین کے ساتھ حسن سلوک کیا کرو۔اگر تمہارے سامنے دونوں یا ان میں سے کوئی ایک بھی بڑھاپے کو پہنچ جائے تو انہیں اف تک نہ کہو، انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ نرم دلی وعجزو انکساری سے پیش آنا”۔اسلامی معاشرے میں آج بھی بزرگوں کا ادب و احترام پایا جاتا ہے جسے مزید فروغ دینے کے لئے نوجوان نسل کو اہم کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ اگر آج ہم بزرگوں کا احترام کریں گے تو کل ہم بھی اسی عزت و احترام کے حقدار بن سکیں گے۔
٭٭٭