میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
امریکا میں نسل پرستی کا رجحان

امریکا میں نسل پرستی کا رجحان

ویب ڈیسک
منگل, ۳ اگست ۲۰۲۱

شیئر کریں

ڈیوڈ بروکس

نسل پرستی پر ہونے والے ہر مباحثے میں ایک ہی سوال سرفہرست ہوتا ہے کہ امریکا کتنا نسل پرست ہے؟ ہر انسان جو دیکھنے والی آنکھ اور سننے والے کان رکھتا ہے‘ یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ ماضی میں امریکا کے مقامی باشندوں پر کس قدر ظلم اور جبر روا رکھا گیا تھا، وہ غلامی اور جم کرو (Jim Crow) کے بارے میں بھی پوری آگاہی رکھتا ہے لیکن کیا اس سے یہ سمجھا جائے کہ امریکا آج بھی ایک سفید فام بالادستی پر یقین رکھنے والی نسل پرست قوم ہے، کیا یہ سمجھا جائے کہ سفید فام ہونا ایک ایسا کینسر ہے جو دوسرے لوگوں پر ظلم وستم روا رکھنے پر مجبور کرتا ہے؟ یا یہ سمجھا جائے کہ ہم نے سفید فام نسل پرستی پر بڑی حد تک قابو پا لیا ہے اور اب یہ محض امریکا کی تاریخ اور ماضی کا حصہ بن چکا ہے؟ ان سوالات کے کئی طرح سے جواب دیے جا سکتے ہیں۔ سب سے اہم طریقہ تو یہ ہے کہ جو لوگ بھی نسل پرستی سے براہِ راست اورسب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں‘ ان کے ساتھ پوری دیانت داری کے ساتھ بات چیت کی جائے۔ دوسرا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ ان سے یہ پوچھا جائے کہ زندگی میں مواقع تک رسائی کے لیے ان کی راہ میں کتنی رکاوٹیں حائل ہیں؟ کیا ہر گروپ کو امریکی آدرشوں کے مطابق منصفانہ مواقع ملے ہیں؟ یہ اپروچ کامل یا درست نہیں ہے مگر اس سے محض تھیوری یا مفروضے کے بجائے تجرباتی ڈیٹا کی نشاندہی تو ضرور ہو جاتی ہے۔
ہم جب اسی معیار کو پیش نظر رکھتے ہوئے سیاہ فام امریکی شہریوں کے ماضی کے تجربات کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ بات ہم پر مکمل عیاں ہو جاتی ہے کہ ابھی تک ان کے لیے مواقع کی راہ میں بہت دور ہے اور بیچ میں غیر منصفانہ رکاوٹیں حائل ہیں۔ سفید فام اور سیاہ فام خاندانوں کی آمدنی میں جو بنیادی تفاوت 1968ء کے عشرے میں پایا جاتا تھا‘ ان کی آمدنی میں پائی جانے والی وہی خلیج ہمیں 2016ء کی دہائی میں بھی نظر آتی ہے بلکہ ان برسوں کے دوران سفید اور سیاہ فام خاندانوں کی آمدنی اور دولت میں پایا جانے والا خلا پہلے سے بھی بڑا اور سنگین ہو چکا ہے۔ سفید فام بالغ امریکیوں کے مقابلے میں سیاہ فام بالغ امریکی افراد میں یہ امکانات 1 گنا زیادہ پائے جاتے ہیں کہ وہ پچھلی تین نسلوں سے غربت کی چکی میں پسنے والوں خاندانوں میں ہی پرورش پا رہے ہیں۔ ریسرچ سے ثابت ہو چکا ہے کہ نسل پرستی آمدنی کی اس عدم مساوات کو فروغ دینے میں کس قدر اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جب 2004ء میں ریسرچرز نے ایک جیسی تعلیمی قابلیت رکھنے والے سفید اور سیاہ فام امیدواروں کو ملازمت کے حصول کے لیے نیویارک شہر میں انٹرویو دینے کے لیے بھیجا تو ان سب کو ایک جیسا لباس پہنایا گیا اور ان سب کو انٹرویو میں ایک جیسے سوالات پوچھے گئے اور انہوں نے ایک جیسے جواب دیے مگر ریسرچرز نے دیکھا کہ سفید فاموں کے مقابلے میں آدھے سیاہ فام امیدواروں کو ہی ملازمت کے لیے کال یا ملازمت کی آفرز ملیں۔
جب آپ سیاہ فام امریکی شہریوں کے اعداد و شمار کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں امریکا کے چپے چپے پر غلامی، علیحدگی اور نسل پرستی سے متعلق ہر طرح کے اثرات اور نشانیاں نظر آتی ہیں۔ جب ہم ورثے میں ملنے والی یہ سب چیزیں اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں تو ان تلخ حقائق پر ’’منظم نسل پرستی‘‘ والا محاورہ سب سے موزوں ٹھہرتا ہے جس میں سرخ لائن والے سٹرکچرز سب سے اہم ہیں جنہوں نے سیاہ فاموں کی دولت اور ان کے لیے دستیاب مواقع پر تباہ کن اثرات مرتب کیے۔ نسل پرستی کوئی ایسی شے نہیں ہے کہ ہم اس کے پاس سے آرام سے گزر جائیں گے۔ یہ تو معاشرے کے اندر جذب ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ اسکول میں زیر تعلیم ہر بچے کو نسل پرستی جیسی تلخ حقیقت کے بارے میں شعور اور تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔
کیا اس بات سے ہمیں یہ مفہوم لینا چاہئے کہ امریکی ایک سفید فام بالادستی پر یقین رکھنے والی شرم سے عاری قوم ہے؟ کیا ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ امریکی خواب سے مراد صرف سفید فام نسل ہی کے حقوق ہیں۔ اگر یہ با ت ہے تو ہم تارکین وطن کے مختلف گروپس سے متعلق اعداد و شمار پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔ جب ہم اس ڈیٹا کا عمیق مشاہدہ کرتے ہیں تو ہمیں اس کی راہ میں حائل رکاوٹیں اتنی مشکل اور دور رسا محسوس نہیں ہوتیں مثال کے طور پر جیسا کہ بلوم برگ سے تعلق رکھنے والے نووا سمتھ نے حال ہی میں اپنے سب سٹیک پیج پر اس امر کی نشاندہی کی ہے کہ حالیہ مہینوں میں ہسپانوی نسل سے تعلق رکھنے والے امریکی شہریوں کی آمدنی میں امریکا کے دیگر بڑے گروپس کے مقابلے میں کہیں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ہسپانوی نسل کے 40 فیصد بچوں‘ جنہوں نے غربت و افلاس کے مارے خاندانوں میں آنکھ کھولی تھی‘ کا تعلق مڈل کلاس یا اس سے اوپر کے طبقے سے ہے۔ اس امر کا سفید فام امریکیوں کی آگے بڑھنے کی شرح کے ساتھ بخوبی موازنہ کیا جا سکتا ہے۔
ہسپانوی نسل نے قدرے تاخیر کے ساتھ‘ مگر تعلیم کے میدان میں حیران کن ترقی دکھائی ہے۔2000ء میں 30 فیصد سے زائد ہسپانوی نسل سے تعلق رکھنے وا لے بچوں نے ہائی اسکول سے اپنی تعلیم کا سلسلہ منقطع کر دیا تھا جبکہ 2016ء میں ڈراپ آئوٹ ہونے کی شرح 10فیصد تک گر گئی۔ 1999ء میں 18 سے 24 سال کی عمر کے ایک تہائی ہسپانوی بچے کالج میں زیر تعلیم تھے مگر اب نصف ہسپانوی بچے کسی نہ کسی کالج کے طالبعلم ہیں۔ 2012ء میں کالج میں داخل ہونے والے ہسپانوی طلبہ نے سفید فام بچوں کی تعداد کو بھی مات دے دی تھی۔ ہسپانوی نڑاد امریکی شہریوں کا تجربہ بھی بالکل ویسا ہی محسوس ہو رہا ہے جیسا کہ آئرش امریکیوں، اطالوی امریکیوں یا دیگر تارکین وطن کا تجربہ تھا یعنی ایک مدت تک انہیں جدوجہد کرنا پڑی اور پھر وہ امریکا کی مڈ ل کلاس میں ضم ہو گئے۔ پرنسٹن، سٹین فورڈ اور کیلیفورنیا یونیورسٹیز کے سکالرز نے ڈیوس میں ریسرچ کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ آج کے تارکین وطن کے بچے مڈل کلاس میں ضم ہونے کے لیے آج سے ایک صدی پہلے آنے والے تارکین وطن کے بچوں سے کسی طرح بھی سست رفتار نہیں ہیں۔
یہ بات بھی اتنی اہم نہیں ہے کہ ان بچوں کے والدین بھی ان ممالک سے آئے ہیں جہاں سے لوگ غربت اور بدحالی کی وجہ سے فرار ہو رہے ہیں یا ان ملکوں سے آ رہے ہیں جہاں کے تارکین وطن مارکیٹ سے ہم آہنگ مہارتوں سے لیس ہو تے ہیں، تارکین وطن کے بچوں میں مقامی طور پر پیدا ہونے والے بچوں کے مقابلے میں آگے بڑھنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے اس معاشی خوشحالی کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ امیگرنٹ گروپس کو مشکلات ‘تعصب اور استحصال کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔امریکی تاریخ میں ہر امیگرنٹ گروپ نے یہ سب کچھ برداشت کیا ہے۔اس کا صرف ایک ہی مفہوم ہے کہ تعلیم اور آگے بڑھنے کی لگن آپ کو ہرطرح کے تعصب کا مقابلہ کرنے میں مدد کرتی ہے۔اسی ا سٹڈی کے مطابق یہ امیگرنٹ گروپس اس لیے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب رہے ہیں کیونکہ وہ جہاں آتے ہیں وہاں بے شمار مواقع پہلے سے ان کے منتظر ہو تے ہیں۔وہ اپنے ارد گر دموجود لوگوں سے اگر بہت زیادہ نہیں کماتے تو ان کے ساتھ مل کر زیادہ ضرور کما رہے ہوتے ہیں۔
معاشی ترقی ایک الگ بات ہے۔ ثقافتی ادغام کے بارے میں کیا خیال ہے؟نیشنل اکیڈیمیز آف سائنسز ‘انجینئر نگ اینڈ میڈیسن کی ایک سٹڈی کے مطابق ان تارکین وطن اور ان کے بچوں کی زندگیاں اچھے یابرے طریقے سے ان کے مقامی طور پر پیدا ہونے والے ہمسایوں کے ساتھ مدغم ہو رہی ہیں۔ اس امر کا اطلاق اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ وہ کس قدر تعلیم یافتہ ہیں ‘وہ کہاں رہتے ہیں‘وہ کونسی زبان بولتے ہیں‘ان کی صحت کیسی ہے اور وہ اپنا خاندانی نظام کس طرح چلاتے ہیں۔برائون یونیورسٹی کے سوشیالوجسٹس نے ایک سٹڈی کے بعد بتایا کہ میکسیکن امیگرنٹس نان میکسیکن تارکین وطن کے مقابلے میں انگلش بہتر انداز میں سیکھتے ہیں۔اس انضمام کا ایک نتیجہ باہمی شادیوں کا بڑھتا ہوا رجحان بھی ہے۔پیو ریسرچ سنٹر کی 2017ء کی ایک سٹڈی کے مطابق 29فیصد ایشیائی نڑاد امریکیوں نے کسی دوسرے نسلی گروپ سے تعلق رکھنے والے فردکے ساتھ شادی کی ہوئی ہے جبکہ ہسپانوی نڑاد امریکیوں میں یہ شرح 27فیصدہے۔ سفیداور سیاہ فام امریکی شہریوں میں باہمی شادی کی شرح بھی تین گنا زیادہ ہو چکی ہے۔35فیصدامریکیوں کا کم از کم ایک رشتے دار کسی دوسری نسل سے تعلق رکھتا ہے۔ اس انضمام کے نتیجے میں ان کی شناخت اور پہچان بھی مشترک ہوتی جا رہی ہے۔ چند سال پہلے یہاں اکثر یہ بات سننے میں آتی تھی کہ امریکا میں بہت جلد اکثریت ایک اقلیت میں بدلنے والی ہے۔یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے اگر امریکی عوام کو پوری سختی سے سفید فام اور غیر سفید فام میں تقسیم کر دیا جائے۔مگر انسان کی یہ فطرت ہے کہ وہ بہت جلد کسی بڑی نسلی شناخت کا حصہ بن جاتا ہے۔ایک ریسرچ کے مطابق 52 فیصدامریکی شہری جو اس وقت خود کو غیر سفید فام کہلاتے ہیں سینسس بیورو کے مطابق2060ء تک یہ لوگ خو دکو سفید فام سمجھنا شروع کر دیں گے۔ چالیس فیصد امریکی جو اس وقت خو دکو سفید فام کہلاتے ہیں کچھ دیر بعد خود کوایک نسلی اقلیت کہلانا شروع کر دیں گے۔
دی اٹلانٹک کے ایک آرٹیکل کے مطابق یہ کہنا کہ کیا اکیسویں صدی کے وسط تک امریکا میں سفید فام اکثریت رہے گی زیادہ قابل فہم نہیں لگتا کیونکہ سفید اور غیر سفید فام کا سماجی مفہوم ہی بہت تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔اس طرح کی تقسیم کا اطلاق بہت ہی کم امریکیوں پر ہوگا۔جب ہم ان گروپس کے ڈیٹا کو دیکھتے ہیں تو یہ عوامل ہمارے سامنے آتے ہیں۔
اول : آپ یہ دیکھ سکتے ہیں کہ کچھ امریکیوں کو ’’رنگدار لوگ ‘‘ کہنے سے کیا مسئلہ ہوتا ہے۔اس گروپ کے لوگوں کو مختلف تجربات اور تعصبات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔شاید ایسا کہنے سے ان کی شناخت پر منفی اثر پڑتا ہے۔ڈیمن ینگ کا موقف ہے کہ رنگدار لوگ کی اصطلاح ایک لسانی علامت بن گئی ہے کیونکہ سفید فام لوگ انہیں سیاہ فام کہنے میں کچھ دشواری محسوس کرتے ہیں۔
دوم : اب وقت آگیا ہے کہ ٹکر کارلسن اور انتہائی دائیں بازو میں مروجہ اس تھیوری کو دفن کر دیا جائے کہ تمام غیر ملکی امریکا پرقبضہ کر لیں گے۔یہی بات سفید فام امریکیوں کو پریشان کرتی ہے جس کا فائدہ اٹھا کر ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے صدر بننے میں کامیاب ہو گئے تھے مگر یہ خوف درست نہیں ہے۔حقیقت یہ ہے کہ موجودہ تارکین وطن جزوی طو رپر اپنی شناخت برقرار رکھتے ہوئے اپنی نئی شناخت میں ڈھل جائیں گے۔ یہی کچھ صدیوں سے ہوتا آرہا ہے اور آج بھی ہو رہا ہے۔اس طرح کے انضمام سے امریکا کی شناخت کو کچھ نہیں ہوگا۔یہ امریکا ہی رہے گا۔آخری با ت یہ کہ ایسا کہنا درست نہیں لگتا کہ امریکا اتنا واضح طورپرمتحارب نسلی گروپس میں تقسیم ہو سکتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ تنازعے میں الجھ جائیں گے جس میں مجموعی طو رپر کسی بھی گروپ کوکوئی فرق نہیں پڑے گا۔ایک سفید فام ہونے کے ناتے ابھی یہ صرف میرا نقطہ نظر ہے مگر میں نے تاریخی ریکارڈ کا مطالعہ کرکے یہ نتیجہ اخذ کیاہے کہ یہ گروپس اچھے انداز میں ایک دوسرے میں مدغم ہو جاتے ہیں مگر کسی حد تک اپنی شناخت اور کلچر کوبھی برقرار رکھتے ہیں۔امریکی معاشرے میں یہ انضمام سفید فام اور غیر سفید فام کی تقسیم کمزور کرنے کا سبب بنتا ہے۔
Opportunity Insights کے راج چیٹی اور ان کی ٹیم کئی سال سے آمدنی اور ترقی کے حوالے سے زبر دست کام کرنے میں مصروف ہے۔انہیں معلوم ہوا ہے کہ سیاہ فام امریکی اور آبائی امریکی (Native) شہریوں میں ترقی کرنے کی شرح اس لیے بہت کم ہے کیونکہ انہیں تا ریخی طور پر ہمیشہ سے امتیازی سلوک کا سامنا رہاہے۔تاہم چیٹی کی ٹیم کا اس بات پر بھی شدیداصرار ہے کہ یہ تفاوت ختم کیا جا سکتا ہے ‘مثال کے طو رپر ہم جن کم شرح غربت والے اور کم نسلی تعصب کے شکار لوگوں کو بہتر مواقع فراہم کرنا چاہتے ہیں انہیں ہائوسنگ واو?چرز اور دیگر گرانٹس کے ذریعے مدد کی جاتی ہے تو ایسی ہی مدد تمام نسلی گروپس کو بھی فراہم کی جاسکتی ہے تاکہ وہ بہتر آمدنی والی زندگی گزار سکیں اور ان کے بالغ نوجوانوں میں جیل جانے کی شرح کم ہو سکے۔
امریکا میں پائے جانے والے حقائق سٹرکچرل نسل پرستی سے متعلق حقیقت اور اس سچائی کے گرد گھومتے ہیں کہ امریکا دنیا بھر سے آنے والے مختلف گروپس کو ترقی کے لیے حیران کن مواقع فراہم کرنے والی سر زمین ہے۔اس کی اس پیچیدہ سچائی کو آسان الفا ظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔اسی ماہ میں نے ایک سیاہ فام خاتون کو ایک ٹی شرٹ پہنے دیکھا جس پر لکھا ہوا تھا کہ ’’میں اپنے آبا واجداد کاشدید جذباتی خواب ہوں۔‘‘ اسے پڑھ کر مجھے کچھ اس طرح کا پیغام ملا جیسے کہ یہ اس کی طرف سے بغاوت‘ تفاخر ‘عزم اور امید کا اظہار ہو۔اگر آپ اپنے ذہن میں اس طرح کے مختلف جذبات کو پنپنے کا موقع دے سکتے ہیں تو آپ اس مختلف سرزمین سے مختلف احساسات بھی لے سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں