کیا شریف برادران پارلیمانی بادشاہت قائم کرنا چاہتے ہیں
شیئر کریں
قومی اسمبلی کے اراکین نے بالآخر منگل کو نواز شریف کے نامزد امیدوار شاہد خاقان عباسی کو مجموعی طورپر221ووٹ دے کر عبوری وزیراعظم منتخب کرلیا ،ان کے مقابلے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے نوید قمر نے47 اور شیخ رشید نے33ووٹ حاصل کئے، شاہد خاقان عباسی کا انتخاب کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے کیونکہ مسلم لیگ ن کو پہلے ہی ایوان میں دوتہائی اکثریت حاصل تھی ،مسلم لیگ نے اپنے امیدوار کو متفقہ طورپر کامیاب کرانے کیلئے کوئی خاص کوشش نہیں کی اس لئے انھیں صرف سندھ میں اپوزیشن جماعت ایم کیو ایم کی حمایت ہی حاصل ہوسکی جبکہ جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن پہلے ہی نواز گروپ کی حمایت کااعلان کرچکے تھے،اس طرح نواز شریف کی برطرفی کے صرف 4 دن کے اندر وزارت عظمیٰ کی خالی کرسی پر کرلی گئی،سپریم کورٹ کے پانامہ پیپرز کیس میں دئیے گئے فیصلے کے بعد وزیر اعظم کے خالی ہونے والے منصب پر انتخاب کرانے کے لئے پارلیمنٹ ہائوس میں غیر معمولی سرگرمیاں دیکھنے میں آئیں قومی اسمبلی کے ارکان کی بہت بڑی تعد اد پارلیمنٹ کی لابیوں کیفے ٹیریا سابق وزرااور اپوزیشن لیڈر کے چیمبرز میں دیکھی گئی مسلم لیگ (ن) کے وزارت عظمیٰ کے منصب کے لئے امیدوار ارکان کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے جن کی دو تہائی سے زائد اکثریت سے کامیابی کا قوی یقین تھا شاہد خاقان عباسی کے انتخاب کے بعد اب حکومتی اتحاد کے ارکان ان کو مسلسل مبار ک بادیں دے رہے ہیں ۔
نومنتخب عبوری وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا شمار مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنمائوں میں ہوتا ہے انھوں نے میاں نواز شریف کے ساتھ 1985کی قومی اسمبلی سے اپنی سیاسی رفاقت سے آغاز کیا۔ اس وقت چوہدری نثار علی خان واحد سینئر ترین مسلم لیگی رہنما ہیں، اپوزیشن جماعتیں میاں نواز شریف کو نا اہل قرار دئیے جانے پر جشن تو منا رہی ہیں لیکن وہ شاہد خاقان عباسی کے مقابلے میں متفقہ امیدوار نامزد کرنے میں ناکام رہیں،اس کی بڑی وجہ نواز شریف کی نا اہلی کے بعد عمران خان کی جانب سے سولو فلائٹ کی کوشش تھی ’’کپتان‘‘ نے نواز شریف کی نااہلی کے فوری بعد ہی سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے چیئرمین آصف علی زرداری کے خلاف تقریر کر کے متحدہ اپوزیشن کو تقسیم کر دیا ۔جس کے بعد متفقہ امیدوار کھڑا کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے کاامکان ختم ہوچکاتھا،آصف علی زرداری کے خلاف بیان کے حوالے سے اپوزیشن جماعتوں کے مشاورتی اجلاس میں خوب لے دے ہوئی سید ظفر علی شاہ نے ’’کپتان ‘‘ کی ’’بلے بازی ‘‘پر شدید احتجاج کیا اور کہا کہ اس طرح اتحاد نہیں بن سکتے شاہ محمود قریشی پاکستان پیپلز پارٹی کو تسلی بخش جواب نہیںدے سکے جس کے بعد دونوں بڑی جماعتوں کے امیدواروں نے وزارت عظمیٰ کے انتخاب میں حصہ لینے کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کرا دیئے تھے اور اس طرح شیخ رشید احمد کی اپوزیشن کا متفقہ امیدوار بننے کی خواہش دھری کی دھری رہ گئی شیخ رشید احمد خوش فہمی کا شکار ہو گئے تھے انھوں نے ایک لمحے کیلئے بھی یہ نہیں سوچا کہ پیپلز پارٹی انہیں اپوزیشن کا متفقہ امیدوار بنا کر اپنے سر پر کس طرح مسلط کر سکتی ہے کیونکہ آج وہ متفقہ امیدوار بنا لئے جاتے تو وہ کل قائد حزب اختلاف کے منصب پر اپنا دعویٰ کرسکتے تھے،بہرحال جو ہوناتھا وہ ہوگیا اور شاہد خاقان عباسی 45دن کیلئے عبوری وزیراعظم بن گئے ہیں اپنے انتخاب کے بعد نومنتخب وزیر اعظم کی حیثیت سے اپنی پہلی تقریر میں شاہدخاقان عباسی نے دعویٰ کیاہے کہ وہ ان45دن میں وہ کام کریں گے جو دوسرے45سال میںنہیں کرسکے۔
قطع نظر اس کے کہ شاہد خاقان اپنے اس دعوے کو کس حد تک پورا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں ،نواز شریف کی جانب سے اپنے دیرینہ سیاسی ساتھی شاہد خاقان عباسی کو مستقل وزیر اعظم بنانے کے بجائے صرف 45دن کیلئے عبوری وزیراعظم بنانے کے فیصلے سے نواز شریف کے آمرانہ ذہن کی عکاسی ہوتی ہے اور اس سے ظاہرہوتاہے کہ نواز شریف اس ملک میں پارلیمانی بادشاہت قائم کرنا اور وزارت عظمیٰ کے علاوہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا منصب اور دیگر اہم وزارتیں بھی اپنے یا اپنے خاندان والوں کے پاس رکھنے کے خواہاں ہیں۔
عدالت کی جانب سے نواز شریف کی برطرفی کے بعد مسلم لیگ ن نے اپنی نئی سیاسی حکمت عملی تیار کر لی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن کی نئی سیاسی حکمت عملی یہ ہے کہ تا حد نگاہ بلکہ اس سے بھی آگے تک بس شریف خاندان کی ہی حکمرانی نظر آئے ۔مسلم لیگ ن کی اس سیاسی حکمت عملی کااظہارسعد رفیق نے بڑے فخریہ انداز میںیہ کہہ کر کیا تھا کہ ایک شریف کو ہٹاؤ گے تو ہم دوسرا لائیں گے، دوسرے کو ہٹاؤ گے تو ہم تیسرا پھر چوتھا شریف لائیں گے۔ایک سیاسی پارٹی اپنا رہنما چننے کا حق رکھتی ہے اور نواز شریف کی برطرفی سے پیدا ہونے والے متنازع حالات میں یہ بات تو ناگزیر تھی کہ دوسرے نام کیلئے برطرف وزیر اعظم کی ترجیحات ہی زیادہ باوزن ہوں گی۔ لیکن شریف خاندان کی شدید تنگ نظری خطرناک بھی ہے
اور سیاسی طور پر پریشان کن بھی۔نواز شریف کی برطرفی کے بعد مسلم لیگ ن کو تین فیصلے کرنے تھے لیکن ان میں سے ایک بھی فیصلہ اہم یا معقول ثابت نہیں ہوا ہے۔ پہلا تو شاہد خاقان عباسی کو عبوری وزیر اعظم بنانا۔ عبوری کیوں؟ عباسی اور سابق کابینہ میں شامل ان کے کئی دیگر ساتھی اگلے سال ہونے والے مجوزہ عام انتخابات تک حکومت چلانے کیلئے ہر طرح سے باصلاحیت ہیں۔ویسے تو مسلم لیگ ن اپنے دور کے کارناموں اور تجربہ کار ٹیم کے گن گاتے نہیں تھکتی۔ لیکن نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کی نظر یا خیال میں خاقان عباسی اور ان کے دیگر ساتھی ضرورت سے ایک دن بھی زیادہ وزیرِ اعظم رہنے کے لیے نااہل اس لئے ہیں کیوں کہ ان کے ناموں کے آگے شریف نہیں لگا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس ملک کی تشکیل کے 70 ویں سال میں ایک پارٹی جو محمد علی جناح کی پارٹی کے نام پراس ملک کی حکومت پر قابض ہو وہ شرمناک حد تک اقرباپرور ہے۔ چھوٹے میاں صاحب کو بلاتاخیر پنجاب سے نکال کر مرکز میں لانے کا فیصلہ بھی سیاسی طور پر مسائل سے بھرپور ہے۔شہباز شریف کی وفاقی سطح پر اپنا کردار ادا کرنے کی خواہش سے تو سیاسی حلقے کئی سال سے آشنا ہیں۔ لیکن نواز شریف نے انہیں بری طرح مایوس اور انہیں وفاقی انتظامی تجربہ دینے سے بھی انکار کر دیا جو آج ان کیلئے مفید ثابت ہوتااس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ نوازشریف ہی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہنا چاہتے تھے اور وفاقی دارالحکومت کے اندر اپنی ہم پلہ طاقتور شخصیت کی موجودگی سے متاثر نہیںہونا چاہتے تھے۔1990 میں وہ رکنِ قومی اسمبلی رہ چکے ہیں لیکن اب سے دو ماہ بعد ایک بار پھر حلف اٹھائیں گے تو اس وقت ایک بڑی حد تک مختلف پارلیمنٹ ہوگی اور اسلام آباد کا انتظامی ڈھانچہ بھی مختلف ہوگا۔ درحقیقت، شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانا ایک سیاسی تجربہ ہوگا جس کا نتیجہ کافی بدتر نکل سکتا لینے کے امکانات کافی روشن نظر آ رہے ہیں۔ ٹھیک آلِ سعود کی طرح آلِ شریف بھی طاقت کو صرف اپنی نسل تک محدود رکھنے کی تیاری کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔شاید واحد عارضی اچھائی یہ ہوئی ہے کہ مریم نواز وزارت عظمیٰ کے عہدے کے منصوبوں کا حصہ نہیں ہیں، ورنہ منظرنامہ مختلف ہوتا۔ اس سے یہ ظاہرہوتا ہے کہ شریف خاندان نے موروثی سیاست میں کسی حد تک بھٹو خاندان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے جو کسی بھی طرح پاکستان جیسے ملک کیلئے جہاں گزشتہ 70سال میں بھی جمہوریت جڑ نہیں پکڑ سکی ہے کسی طور بھی مناسب نہیں ہے،لیکن کیا شریف فیملی اقتدار کسی اور کو منتقل کرنے کو تیار ہوں گے شاید ایسا نہیںہوگا اور اب عوام کو ہی اگلے عام انتخابات میں ا س گھرانے سے چھٹکارا حاصل کرنے میں کوئی کردار ادا کرسکتے ہیں ، اس طرح شریف فیملی کو 20کروڑ عوام کی عدالت نے بھی ملک کی سیاست سے برطرف کردیاتو پھر شریف برادران اوران کے حواریوں کے پاس کہنے کیلئے کچھ نہیں رہے گا۔