میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
فسطائیت کے ہتھکنڈوں میں سانس لیتی قوم

فسطائیت کے ہتھکنڈوں میں سانس لیتی قوم

ویب ڈیسک
پیر, ۳ جون ۲۰۲۴

شیئر کریں

ب نقا ب /ایم آر ملک

عرصہ پہلے شہر قائد کے ایک دانشور نے کہا تھا کہ شہید حکیم سعید کے قاتلوں کی عدم ثبوت پر رہائی کیا انصاف کا مضحکہ اُڑانے کے مترادف نہیں ؟کیا یہ جھوٹ ہے کہ بھتہ مانگنے والے مافیا کے بارے میں وطن عزیز کے مسیحا نے وقت کے وزیر اعظم کو آگاہ کردیا تھا ،مدیر تکبیر قلمی مجاہد محمد صلاح الدین کے قاتلوں کے ہاتھوں پر دستانے چڑھانے والے کیا لاعلم ہیں ؟
شہر قائدمیں ایک بار پھر ایسے واقعات کا جنم ہورہا ہے جن میں معصوم افراد کی زندگی ڈاکوئوں کے رحم و کرم پر ہے ۔کیا ماضی میں شہر قائد میں ہونے والے فسطائیت کے اُن ہتھکنڈوں کو بھلایا جاسکتا ہے جہاں سیاسی مصلحت لاشوں کے تماشے کو جنم دیتی رہی اور حکمران چین کی بانسری بجا تے رہے ؟
گرتی لاشیں اور اُن کا کاروبار کرنے والے بیوپاری ،لاشوں کی راکھ پر آج بھی حکمرانوں کی بد ترین بے حسی ناچ رہی ہے ،حق کے پرستاروں سے اُن کی زندگی چھینی جاتی رہی ،کیا ایسا نہیں کہ قاتل وہ جنونی تھے ،پاکستان میں امن کے خواب کو سبو تاژ کرنا ہی جن کا مقصد حیات ٹھہرا اور آج جس طبقے کو زندگی کی سانسوں سے محروم کیا جا رہا ہے کیاذہنی ،جسمانی ،روحانی اور معاشی طور پر اُس کی روز موت واقع نہیں ہو رہی ؟کیا ہم اسے اُس طبقے کی موت کی بدترین شکل نہیں کہہ سکتے کہ اپنے عزیز کا علاج کرنے میں مالی طور پر ناکام ہوتا جارہا ہے ، ممتا اپنے بچے کو دودھ نہیں دے سکتی کہ اُس کے پاس اُس دودھ کیلئے رقم نہیں ہوتی ،آنکھوں میں آنسوئوں کی جھڑی لیے شفقت پدری سے مجبور ایک باپ اپنے لخت جگر کو سکول بھیجنے کی بجائے چائلڈ لیبر کیلئے بھیجتا ہے ، ایک جسم کپڑے ، غذا اور توانائی سے محرومی کی بنا پر زندہ لاش بن رہا ہے ،روٹی ،تعلیم ،بجلی گیس ،علاج جب قوت خرید سے باہر ہو جاتا ہے تو اس طبقہ کی زندگی کو بد ترین موت کا نام ہی دیا جا سکتا ہے ،جس کیلئے سفر وسیلہ ظفر نہیں بلکہ ذلت ہے ۔
تعلیم کی نجکاری جہالت کی فتح بن گئی ہے اور پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگریوں کی منڈی حکمرانوں کیلئے لگی ہوئی ہے جس کے ذریعے وہ ڈاکٹر کا لاحقہ لگا کر ڈگری یافتہ نسل کا مذاق اُڑا رہے ہیں ،معیشت کا سائیکل چھوٹا ہو گیا ہے ،اس محروم طبقہ کی مفلوج خواہشات کی لاشوں پر بالا دست طبقے کی زندگی سمارٹ ہوتی جا رہی ہے ،خاندانی آمریت کی شکل میں جمہوریت بری طرح مسلط ہو چکی ہے۔ کیا کروڑوں کی اموات اور بربادی کی ذمہ داری اس خاندانی بالا دست طبقہ پر نہیں ڈالی جاسکتی ؟جس نے خاندانی سرمایہ دارانہ سیاست ،خاندانی معیشت ،خاندانی حاکمیت ،خاندانی جمہوریت کے فریب پر 25کروڑ لوگوں کو یرغمال بنا رکھا ہے ۔
عمران خان ایک ایسے وقت میں اُٹھا جب اٹھنے کا وقت تھا ،وہ اُن لوگوں کیلئے میدان عمل میں آیا جو مرتے ہیں تو اخبارات میں اُن کیلئے کوئی اشتہار نہیں چھپتا ،جن کی دعائے مغفرت کیلئے کوئی سیمینار نہیں ہوتا ،گولیوں کی بوچھار جن کے سینوں کا رخ کرتی ہے ،جو غربت کی بیماریوں سے مرتے ہیں زلزلوں سے جن کے کچے مکان گرتے ہیں ،طوفانوں سے جن کے جھونپڑے برباد ہوتے ہیں غربت ،بیروزگاری ، مہنگائی جن کو روز ڈستی ہے زندگی کے ہر شعبے میں سماجی انحطاط دن بدن بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے ،عالمی سیاست کے میدان میں ہماری سفارت کاری شکستوں اور خجالتوں کے شکارسے موسوم ہے ۔
یہ لمحہ فکریہ ہے کہ 77برسوں سے ایسا کیوں ہورہا ہے ؟ایسا کب تک ہوتا رہے گا ؟اور یہ سب کچھ کب تک چلے گا ؟ یہ ہمیں سوچنا ہے کہ اس آبلہ پائی کے سفر کے تسلسل میں بربریت کی اندھی اور اندھیری کھائی تک ہم آپہنچے ، نسل در نسل چلنے والی خاندانی حکمرانی کو اس کی پرواہ نہیں کیونکہ ان کے گھر محفوظ ہیں ،ان کی عیاشیاں برقرار ہیں ،ان کے لندن ،زیورک اور نیویارک میں اکائونٹ بھرے پڑے ہیں وہ بے پرواہ ہیں اس لیے کہ پارلیمنٹ بھی ان کی ہے ،سیاست بھی ان کی ہے اورفائز عیسیٰ جیسے جج بھی ان کے ہیں ان کو کوئی خطرہ نہیں الیکشن کے دنوں میں ڈالروں کی ہڈی یہ دیہی سندھ کے ان وڈیروں کو ڈال دیتے ہیں جو ووٹرز کی اجتماعی طاقت کا سودا کرتے ہیں ووٹر ان کی سیاست کی بھٹی کا ایندھن بنتے ہیں ۔
پہلی بار حالیہ الیکشن میں میری آنکھوں نے دیکھا عمرانکیلئے عوام کی اکثریت اپنی بے چارگی میں اپنے بے آسراارمانوں کی خاطر ”بیلٹ باکسز ” تک آئی اور دوسری طرف طاقت کے تمام مراکز کی سہولت کاری کے باوجود خاندانی سیاست کے جلسے بد ترین ناکامی کا منہ دیکھتے رہے ۔
18ماہ کی رجیم چینج کی خاندانی حکمرانی نے ان بے سروساماں لوگوں کو سوائے بربادی کے کچھ نہیں دیا کب تک اس تسلط کو وہ برداشت کریں ان کی خاندانی حکمرانی جس متروک نظام کی پیداوار ہے 8فروری کو دہلیز پار کرنے والوں نے اس کو اکھاڑ کر پھینک دیا ۔خوشاب کے قصبہ مٹھہ ٹوانہ کا ملک عزیزالرحمان بڑی سوچ کا مالک ایک محب وطن دانشور ہے وہ چھوٹے شہر کا بڑا آدمی ہے جو حب الوطنی پر بولتا ہے۔ تو میری ذات پر طاری ایک سحر ایسا ہوتا ہے جو ٹوٹنے کا نام نہیں لیتا وہ اس دور کا سچا انسان ہے کہ فطرت اجتماعی غلطیوں کو معاف نہیں کرتی اور جب 25کروڑ لوگوں کے یقین کی لو تھر تھرا رہی ہو تو وقت کے طماچے پے بہ پے پڑتے ہیں ،بے حمیت زندگی رخسار سہلاتی ہے انقلابات مکافاتِ عمل کا نتیجہ ہوتے ہیں اور وقت کا ریلا اجڑی ہوئی بستیوں میں بڑھتے ہوئے قہر کے ساتھ چلتا ہے ،فٹ پاتھوں پر سسکتی لاشیں زندگی سے خراج وصول کرتی ہیں، استحصال کرنے والے چہروں کو مسخ کرکے روشن کل کی تحریر لکھتی ہیں۔
فارم 47کے حکمرانوں سے کہنا ہے کہ وقت ریت کی طرح ہوتا ہے ہاتھ میں آجائے تو گنوائے جانے کا احساس تک نہیں ہوتا ۔یہ سچائی دائمی ہے کہ ہم ایک ایسی کیفیت میں داخل ہو رہے ہیں جہاں دو طبقات کے مابین ایک بڑے تصا دم کا خدشہ ہے،25کروڑ لوگوں کی زندگیاں جب سرمایہ دار حکمرانوں کے رحم و کرم پر ہوں تو ضرورتوں اور خوابوں کو بے رحمی کچل ڈالتی ہے ایک حسین و جمیل ذخائر سے مالا مال ریاست میں اتنا بھیانک پن ،اتنی کراہت ،اتنی محرومی اور اتنی غربت حساس فطرت کو ہلا کر رکھ دیتی ہے اور جب انقلاب کا ریلا آتا ہے تو گلے سڑے ڈھانچے اپنے ظالم آقائوں کی ہڈیاں تک چبا نے سے گریز نہیں کرتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں