میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
عوام تو طاقتور ہوتی ہے مگر

عوام تو طاقتور ہوتی ہے مگر

منتظم
هفته, ۳ جون ۲۰۱۷

شیئر کریں

ہم تو اشرف المخلوقات تھے ، ہم برصغیر قوم کی اقوام میں نہ صرف اعلیٰ عظیم اور جراتمند قوم تھ بلکہ تاریخ ساز ہونے کا اعزاز بھی حاصل کرچکے تھے مگر اس تمام کے باوجود ہمیں کمزور،لاغر اور یتیم قوم بنا دیا گیا ہم من حیث القوم اس پرکف افسوس ملنا تو شائد کم ہے ہمیں ماتم کرنا چاہیے گزشتہ روز میری ملاقات ایک زمانہ شناس قلمکار ہے ہوئی جس نے مجھے نہ صرف قلم اٹھانے اور سچائی کی آذان دینے کی حقیقت شناسی کا وہ پیغام دیا جس سے میرے حوصلے بلند ہوگئے اور میری مایوسی کی جلتی شمع کو پھر تقویت مل گئی انہوں نے یہ کہا کہ ہم اس غرض کی طرف اپنی قیمتی سوچ کا وقت ضائع نہ کریں کہ آپ کے قلم و قرطاس کی پزیرائی ہوتی ہے یا نہیں، کون غور کرتا اور سمجھتا ہے یا نہیں، کون اس کا باضابطہ جواب دیتا ہے یا نہیں اور … اور کون اس پر عمل کرتا اور تدبیر سے کام لیتا ہے یا نہیں، ہمیں تو اپنے رب کو راضی کرنے کی ضرورت اور لگن ہوتی ہے۔ اور ہماری فکر بیدار اور برقرار رہنی چاہیے کہ ہماری قوم کے روشن مستقبل کو کیسے قائم رکھا جائے بہرحال… آج ہم قوم کی حالت زار کو جس طور اور انداز میں دیکھ رہے ہیں اس میں بہتری اور کامیابی کی کوئی صورتحال نظر نہیں آتی۔ یہ ہمارا اور ہماری قوم کا عجیب مقدر ہے گزشتہ 70 سال کے طویل عرصہ کی سیاسی سوداگروں کی مدت پر غور کرتے ہیں تو اس صداقت سے پردہ اٹھتا ہے کہ انہوں نے عوام کو سیاسی ٹرک کے پیچھے جلتی نئی بتی دکھائی اور اسی کے پیچھے اُس کو بھاگنے کا راستہ اور طریقہ بتایا لیکن ہمیشہ ثابت رہا کہ عوام نے جس کو بھی ہیرو بنایا وہ زیرو ثابت ہوا۔ اور جب عوام نے زیرو بننے والے ہیرو کے کارنامے اور کرتوت دیکھے تو عوام غصے سے لال پیلی ہوتی رہی اور عوام نے اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے کا صرف ایک ہی فیصلہ کیا کہ وہ اپنے گھروں میں آرام کریں اور پھر اس غصے اور آرام کے نتیجہ میں آبادیاں پھیلتی پھولتی اور بڑھتی گئیں جبکہ سیاسی سودا گروں، لٹیروں اور مفاد پرستوں کی دولت کے قلعے تعمیر ہوتے رہے، بینک کے مینار بلند ہوتے اور ان کی عیاشیوں کے دریا بہتے رہے۔ یہ قوم یعنی عوام کی فکری خستہ حالی ہی رہی کہ انہوں نے اپنی نئی نسل کو بھی ان سیاستدانوں کے سیاسی ٹرک کے پیچھے لگایا اور اس ٹرک کے سفر کی منزل اور سمت کا بھی کسی کو پتہ نہیں، پانی بند، بجلی بند، سکون اور آرام بند… ہاں اگر طرفہ تماشہ ہو رہا ہے تو وہ سیاستدانوں اور ان کے حواریوں کا ہے کہ کوئی بھی غریب عوام کا پرسان حال نہیں، منافع خوروں نے تو تجارت پر قبضہ جما رکھا ہے رمضان المبارک کی صورتحال بازاروں میں دیکھئے مہنگائی کے گھوڑے پر سب سوار ہیں اگر پیادہ سفر مقدر ہے تو وہ صرف عوام کا ہے۔ یہی وہ عوام ہے کہ جب اپنے مسائل کے احتجاج کی تجریک کے لیے نکلتے ہیں تو ان کے لیڈر ان کی جدوجہد اور تحریک کی قیمت برائے راست وصول کرکے گھر چلے جاتے ہیں اور بے چاری عوام کو پولیس کے رحم و کرم کے سپرد کر دیتے ہیں ان میں جو زخمی ہو جاتے ہیں تو یہی نام نہاد لیڈر صرف فوٹو سیشن کے لیے ان کے درمیان کھڑے ہو جاتے ہیں اور ان میں اگر موت کی آغوش میں چلا جائے تو اس کو بھی شہید کا درجہ دے کر ہمدردیوں کے راگ الاپتے ہیں۔ اور در پردہ اپنے مفادات حاصل کرنے میں کوئی موقع ہاتھ سے جانے یا نکلنے نہیں دیتے۔ آج عوام اندھیروں کے سمندر میں غوطے کھا رہی ہے۔ افطاری ہو یا سحری عوام کو پتھروں کے زمانے کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ پینے کے لیے پانی میسر نہیں یہاں تک کہ روزہ دار کندھوں پر پانی کے کنستر اٹھاتے اِدھر اُدھر گھوم رہے ہیں۔ کیا یہ طرف تماشہ اور مذاق نہیں کہ وزیراعلیٰ جب کسی وزیر سے بات کرتے ہیں تو یہ بریکنگ نیوز بن کر اسکرین پر آتی ہے مگر ان کی ملاقات بھی رات گئی بات گئی کے مترادف ان کی گفتگوں بھی اُس پانی کے مترادف ہوتی ہے جو ریت میں جذب ہو جایا کرتا ہے۔ اب ہم نے عوام کی فکری دہلیز پر دستک دینی ہے کہ ہوش کے ناخن لو۔ اچھے اور بُرے کی تفریق کا احساس پیدا کرو، بیدار ہو کر حق مانگنے سے بہتر ہے کہ حق چھین لیا جائے کے تسلیم اور طے شدہ اصول اختیار کر لو اگر اس کے باوجود ہم نے غیرت و حمیت کے ساتھ ساتھ ہوشمندی اور بیداری کا ثبوت نہ دیا تو اللہ تعالیٰ ناراض ہو کر ہمارے ان حالات کا جغرافیہ نہ بڑھا دے۔
٭٭…٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں