میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بات کرنے سے قبیلے کا پتا چلتا ہے

بات کرنے سے قبیلے کا پتا چلتا ہے

منتظم
هفته, ۳ جون ۲۰۱۷

شیئر کریں

اس کی 20 سالہ سیاسی جدو جہد نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ وہم و گمان کا غلام نہیں یقین اور ایقان کا حامل ہے ۔ نااہلی کے خدشات کے شور شرابے میں بھی نتھیا گلی کے ٹھنڈے ماحول میں مطمن اور شاد نظر آ رہا تھا ۔ ہر ملنے والے کا یہی کہنا تھا کہ بے یقینی اور خدشات کے ماحول میں جب ’’ مائنس ون فارمولے ‘‘کی افواہوں کو یقین کے حصار میں آنے کے اشارے دیے جا رہے تھے تو اُس وقت بھی وہ گہری اور کامل طمانیت کا استعارہ بنا یہ کہتا دکھائی دے رہا تھا۔ کہ
بھٹک رہا ہوں خلا کے سراب زاروں میں
میں کوئی سجدہ عقیدت بھری جبیں کا ہوں
اچانک لند ن سے حُسن کی عدالت کو عشق کا سلام موصول ہوا ۔ جمائما خان دنیا بھرکو یہ پیغام دیتی ہیں کہ بنی گالہ سے متعلق رقم کی منی ٹریل کا پندرہ سالہ پرانا ریکار ڈ اُ نہوں نے ڈھونڈ لیا ہے ۔ اس ٹویٹ نے انتشار کے ماحول کو خوشگوار حیرت کی سر مگیں فضاؤں میں بدل دیا اور پیار، محبت اور رشتوں کے باہمی احترام کی کہانی کو اپنے کرداروں کے بیچ مرنے سے بچا لیا ۔ اس ٹویٹ کے عمران خان کے کیس پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں یہ عدالتی اور قانونی اُمور ہیںجو ہماری دسترس سے آگے اور دور کی باتیں ہیں ۔
عمران خان اور جمائما خان کی کہانی پریوں کے دیس کی کہانی معلوم ہوتی ہے ۔ اُس کے چاہنے والوں نے ہمیشہ سے جمائما خان کا احترام کیا ہے ۔ اس احترام کو اب شاید جنون کا درجہ حاصل ہو جائے ۔یہ الگ بات ہے کہ اس سے پہلے بھی کپتان کے چاہنے والے جمائما خان کی جگہ پر کسی کو بھی قبول کرنے کے لیے کبھی تیا ر نظر نہیں آئے ۔ عمران خان کی زندگی میں ان کی پہلی شادی کی بازگشت ہمیشہ سنائی دے گی ۔کرنوں کی شوخیوں سے کلیاں ہمیشہ مسکراتی رہیں گی ۔صباکی آنکھوں سے بچھڑی رُتوں کے آنسو چھلکتے رہیں گے ۔یاد کی خوشبوئیں دونوں کی عمر شکستہ پا کو تازہ دم رکھیں گی ۔
یہ شادی پاکستانیت اور مٹی سے وابستگی اور وارفتگی پر قربان ہوئی اور اس سارے فسانے میں کوئی ایک مقام بھی ایسا نہیں جہاں عمران خان کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے ۔ عمران خان نے کرکٹ کے میدان میں قدم رکھا تو کامرانی نے آگے بڑھ کر اُن کے قدم چومے ۔کامیابیوں ، شخصیت کی کشش ،اور سحر نے اُنہیں خیالوں کے شہزادے کا روپ دے دیا ۔ 80 کی دہائی میں جب عمران نے کرکٹ کی دنیا کو اپنے سحر میں پوری طرح جکڑا ہوا تھا تو وہ گلیمر کی دنیا کے لیے بھی ناگزیرہو چُکے تھے اور دنیا بھر کی خواتین کا مرکزِ نگاہ بنے ہوئے تھے ۔ بھارتی دوشیزائیں تو اُ ن کے ارد گرد اس طرح سے منڈلاتی رہتی تھیں جیسے تتلیاں پھول کا طواف کرتی ہیں۔ 1992 ء میں ورلڈ کپ جیتنے کے بعد عمران شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے ۔کینسر ہسپتال تعمیر کرنے کی ان کی خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں پاکستانی عوام نے اہم کردار ادا کیا ۔ والدہ شوکت خانم کی وفات کے بعد اور کینسر ہسپتال کی تکمیل کے مراحل میں عمران خان کی زندگی نے بدلنا شروع کر دیا ۔ ان کے فیملی ذرائع بتاتے ہیں کہ ’’ عمران خان کو کہیں سے ’’شکوہ ‘‘ جوابِ شکوہ کی کاپی ہاتھ لگی ۔ عمران نے ان نظموں کو کئی بار پڑھا لیکن سمجھ میں کچھ نہیں آیا ۔ عمران نے اپنے والد اکرام اللہ خان نیازی مرحوم سے ان دونوں نظموں اور ان کے خالق کے بارے میں دریافت کیا۔والد کی طرف سے شکوہ جواب ِ شکوہ کی تشریح ان کے من کو اس قدر بھائی کہ وہ اقبالؒ کے دیوانے ہو گئے ۔
مغرب کی امیر کبیر حسیناؤں کا مسئلہ ایک ہی ہوتا ہے۔ وہاں شہرت یافتہ نوجوانوں، اداکاروں ، اور کھلاڑیوں سے شادی کرنے کے لیے مقابلہ بازی کا رُجحان بہت زیادہ ہے ۔ برطانیہ کی شہزادی لیڈی ڈیانا ہوں ، سیتا وائٹ ہوں ، یا جمائما، اعلیٰ طبقے کی وہ خواتین تھیں جو شوہر سے زیادہ شہرت کو عزیز رکھتی ہیں۔
عمران خان کو لاہور کے ایک عالم دین نے مشورہ اور تجویز دی تھی کہ اگر جمائما اسلام قبول کرنے کا عہد کر لے تو شادی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ بلکہ یہ اسلام اور پاکستان کی عظیم خدمت ہو گی ۔
جمائما گولڈ سمتھ سے عمران خان کی شادی کی خبر پاکستانی عوام کو پسند نہیں آئی تھی ۔ بہت سے پاکستانی سرجیمز گولڈ سمتھ کے خاندان سے رشتہ جوڑنے پر دل گرفتہ تھے ۔ پاکستانی میڈیا نے اس شادی کو تنقید کا موضوع بنایا تھا ۔ پاکستانیوں کا غصہ تو سمجھ میں آتا تھا لیکن اس شادی کے اعلان سے برطانیہ میں بھی اکثریت کے ماتھے پر شکنیں اُبھر آئی تھیں۔ لیکن برطانوی شہزادی ڈیانا کی قریبی دوست جمائما گولڈ سمتھ نے اپنی تعلیم، مُلک بلکہ مذہب کو بھی خیر آباد کہ دیا ۔اور اسلام قبول کرکے پاکستان آکر ایک روایتی بیوی بننے کو پسند کرنے کا تاثر دیا تھا ۔
جمائما کو شادی سے پہلے لاہور سے شدید نفرت تھی ۔ عمران خان مشترکہ خاندانی نظام ( جوائنٹ فیملی سسٹم ) کے حامی تھے جبکہ جمائما خان اس نظام سے دور بھاگتی تھیں ۔ اس کا شروع سے ہی اصرار تھا کہ بچے انگلینڈ میں پڑھیںگے اور عمران بھی انگلینڈ میں بسیرا کریں ۔ اس دوران جمائما معدے کے مرض میں مبتلا ہو گئیں ۔ جمائما ہی کے اصرار پر عمران خان لاہور چھوڑ نے اور اسلام آباد منتقل ہونے پر آمادہ ہوئے تھے۔ جمائما نے سوشل وائف بننے کی بہت کوشش کی لیکن عمران نے سختی سے منع کر دیا ۔ جمائما نے اپنا اسلامی نام رکھا ، ڈوپٹہ اوڑھا اور پاکستان سے اپنی محبت کا ظہار کیا لیکن جمائما مشرقی بیوی نہ بن سکیں ۔ جبکہ عمران خان کے گھر کا ماحول شروع ہی سے اسلامی سانچے میں ڈھلا ہوا تھا ۔ پھر اچانک جمائما خان لندن چلی گئیں ۔لندن میں قیام کے دوران وہ بار بار عمران کو پیغام بھیجتی رہیں کہ ’’ پاکستان چھوڑ کر یہاں آجاؤ ‘‘ مجھے رکھو یا پاکستان کو، کسی ایک کا انتخاب کر لو ‘‘ ۔ان پیغامات کے حوالے سے عمران خان کے ایک قریبی دوست کا کہنا ہے کہ عمران اپنا گھر بسانے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے ۔لیکن پاکستان چھوڑنے کے مطالبے پر وہ ہر بار ایک ہی جواب دیتے تھے کہ ’’ میں پاکستان نہیں چھوڑ سکتا شادی سے پہلے میں تمہیںبتا چُکا ہوں کہ تمہیں باقی زندگی پاکستان میں گزارنا ہو گی ‘‘۔
عمران خان نے مغربی تہذیب کا اصل چہرہ پڑھ لیا تھا۔ان دنوں عمران خان نے ایک ریڈیو انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’ دو ثقافتوں کے درمیان ہونے والی شادیوں میں بہت مشکلات پیش آتی ہیں۔ ‘‘ عمران خان کا ہمیشہ سے یہ خیال رہا ہے کہ تہذیبوں کے تصادم کے ماحول میں تہذیبوں کے ملاپ کی باتیں محض کتابی اور خیالی ہوتی ہیں۔عمران خان نے برطانیہ جا کر اس رفاقت کو ختم کر دیا ۔ لیکن ترکِ تعلقات کا خوشگوار پہلو یہ تھا کہ تمام مراحل انتہائی صفائی سے طے ہوئے ۔قاسم خان اور سلمان خان کی اسلامی تربیت کی گارنٹی لی گئی ۔عمران خان نے جس طرح سے یہ معاملہ ختم کیا تھا وہ ان کی اسلام سے وابستگی اور پاکستان سے دلبستگی کا خوبصورت اظہار تھا ۔ لیکن پھر بھی طلاق کا لفظ رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے ۔ مغربی معاشرے کی کسی لڑکی کے لیے اس ’’ناپسندیدہ عمل‘‘کے معنی شاید بہت معمولی ہوں لیکن مشرقی معاشرے میں طلاق کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا ۔
جمائما خان نے اب بنی گالہ سے متعلق پندرہ سال پرانی دستاویزات ڈھونڈ نکال کر عمران خا ن کی اعانت کے لیے پاکستان بھیجنے کا اعلان کر دیا ہے ۔ ملک بھر میں جمائما کے اس اقدام پر اپنے اپنے انداز میں تبصروں کا سلسلہ جاری ہے ۔ لیکن جمائما گولڈ سمتھ کی جانب کے اس طرز عمل نے اخلاقیات کے اُصولوں میں ایک زریں باب کا اضافہ ضرور کیا ہے ۔ اس حوالے سے اپنے دوست محمد محمود احمد کا شعر یاد آ رہا ہے ۔
میں نہیں مانتا کاغذ پہ لکھا شجرۂ نسب
بات کرنے سے قبیلے کا پتہ چلتا ہے
٭٭…٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں