میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پیپلزپارٹی کی جیت سے، کراچی کو کیا ملے گا؟

پیپلزپارٹی کی جیت سے، کراچی کو کیا ملے گا؟

ویب ڈیسک
پیر, ۳ مئی ۲۰۲۱

شیئر کریں

کہنے کو تو یہ کراچی کے ایک چھوٹے سے حلقہ کا عام سا ضمنی انتخاب تھا، جو تحریک انصاف کے اُمیدوار فیصل واڈا کے اپنی نشست سے مستعفی ہونے کے بعد منعقد ہورہا تھا لیکن پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے حلقہ این 249 کے اِس ضمنی انتخاب میں جس قدر دلچسپی کا اظہار کیا، اُس کی وجہ سے اس ضمنی انتخاب کے نتائج کو ملک بھر میں بہت زیادہ اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جارہاتھا۔ خاص طور پرپاکستانی الیکٹرانک میڈیا میں اِس ضمنی انتخاب کو حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک فیصلہ کن معرکہ کے طور پر پیش کیا جارہاتھا۔ لیکن جب حلقہ این اے 249 کے غیر حتمی سرکاری نتائج کا اعلان ہوا تو ’’سیاسی حیرانیاں‘‘ اور ’’سیاسی پریشانیاں‘‘بجائے کم ہونے کے مزید بڑھ گئیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حلقہ این اے 249 کا ضمنی انتخاب پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار قادر خان مندوخیل نے16 ہزار 156 ووٹ حاصل کر کے جیت لیا۔ مسلم لیگ ن کے امیدوار مفتاح اسماعیل 15 ہزار 473 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر، تحریک لبیک پاکستان کے مفتی نذیر کمالوی 11 ہزار 125 ووٹ لیکر تیسرے نمبر پر، پاک سر زمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال نو ہزار 227 ووٹ لیکر چوتھے نمبر پر، پاکستان تحریک انصاف کے امجد آفریدی جنہیں انتخاب سے ایک دن قبل تک تمام سروے متوقع فاتح اُمیدوار قرار دے رہے تھے ۔فقط آٹھ ہزار 922 ووٹ لیکر پانچویں نمبر پر بھی بڑی مشکل سے پہنچ سکے۔جبکہ کراچی پر پچھلی کئی دہائیوں سے راج کرنے والی سیاسی جماعت ایم کیوایم کے نامزد اُمیدوار حافظ محمد مرسلین 7511 ووٹ لے کر چھٹے نمبر پر رہے۔
اگرچہ غیر حتمی غیر سرکاری نتائج عین آخری وقت پر مسلم لیگ کے حق میں برقرار نہیں رہے۔حالانکہ مسلم لیگ ن کے اُمیدوار دورانِ نتائج واضح برتری کے ساتھ مسلسل آگے تھے کہ اچانک سحری کی وقت چند پولنگ اسٹیشن سے موصول ہونے والے نتائج نے پانسہ پاکستان پیپلزپارٹی کے نامزد اُمیدوار کے حق میں پلٹ دیا۔ مفتاح اسماعیل کی ہار کتنی غیر متوقع تھی اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز نے تو اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر مفتاح اسماعیل کو انتخاب جیتنے کی باقاعدہ مبارکبار بھی پیش کر دی تھی۔ ان کا ٹوئٹ میں لکھنا تھا کہ ’’کراچی اور خصوصاً این اے 249 کی تہہ دل سے شکر گزار ہوں کہ انھوں نے نواز شریف اور مسلم لیگ ن کو ووٹ دیا اور مفتاح اسماعیل کو منتخب کیا‘‘۔نیز مفتاح اسماعیل نے باقاعدہ اپنی جیت کا جشن مناکر مٹھائی بھی کھالی تھی کہ بعد ازاں مسلم لیگ ن کی فتح کے رنگ میں مبینہ دھاندلی کی بھنگ پڑ گئی اورغیر متوقع طور پر پاکستان پیپلزپارٹی یہ ضمنی انتخاب جیت گئی ۔ اس حوالے سے مریم نواز نے اپنے ٹوئٹر کاؤنٹ پر لکھا کہ’ ’مسلم لیگ ن سے الیکشن چرایا گیا۔ یہ جیت مستقل طور پر واپس مسلم لیگ ن کے پاس آ جائے گی ۔یہ ہم سب کے لیے ایک بہت اہم فتح ہے۔ عوام کے جاگنے کا بھی شکریہ۔ آپ کے ووٹ چوری کرنے والے جلد آپ کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے‘‘۔یعنی مسلم لیگ ن نے پاکستان پیپلزپارٹی پر ضمنی انتخاب چوری کرنے کا انتہائی سنگین الزام عائد کردیا اور بعد ازاں مسلم لیگ نے یہ نتائج الیکشن کمیشن میں چیلنج کرنے کا اعلان کرکے اپنے الزام کی باقاعدہ ’’سیاسی توثیق ‘‘ بھی فرمادی ۔
دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کراچی کے حلقہ این اے 249 میں مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز کی جانب سے لگائے جانے والے دھاندلی کے اعتراضات سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ’’ دھاندلی کے ثبوت ہیں تو سامنے لائیں ورنہ خاموش ہوجائیں۔ کیونکہ پیپلز پارٹی کی تاریخی کامیابی نے ثابت کردیا ہے کہ کراچی کے عوام اُن کے ساتھ ہیں اور کراچی کے عوام نے سلیکٹڈ حکومت کو ریجیکٹ کردیا ہے۔ جس پر میں کراچی کے عوام کا شکریہ ادا کرتا ہوں‘‘۔ بلاول نے مسلم لیگ (ن) کے الزامات کے جواب میں مزید الزامات لگاتے ہوئے کہا کہ ’’کراچی میں ڈسکہ کی طرح نہ دھند تھی نہ پولنگ افسر غائب ہوئے۔ ڈسکہ-2 کا شور مچانے والے بتائیں ڈسکہ کی طرح فائرنگ کہاں ہوئی؟جبکہ شاہد خاقان عباسی خود آر او آفس میں موجود تھے اور اپنی ہار براہ راست ملاحظہ فرما رہے تھے۔ویسے بھی مسلم لیگ ن کا پرانا شوق ہے حکومت کے بجائے اپوزیشن سے اپوزیشن کرنا، ان کا شوق ہے پیپلز پارٹی سے مقابلہ کرنا، تو کرو اور ہارو‘‘۔اپوزیشن جماعتوں کے لیئے کتنی عجیب سیاسی صورت حال ہے کہ این اے 249 کے انتخابی نتائج نے انہیں ایک دوسرے کے خلاف ایک بار پھر سے صف آرا ء کردیا ہے۔ جبکہ حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف انتخابی نتائج آنے کے بعد بس ، ایک ’’سیاسی تماشائی ‘‘ بن کر رہ گی ہے۔ دراصل پاکستان تحریک انصاف کے نامزد اُمیدوار نے تو ایک کونسلر کی جیت کے لیئے درکار ووٹوں سے بھی کم ووٹ حاصل کیے ہیں۔ اس لیئے وہ تو یہ بھی شکوہ نہیں کرسکتے کہ اُن کے ساتھ دھاندلی کی گئی ہے۔
علازہ ازیں ہمارے انتخابی نظام کا المیہ ملاحظہ فرمائیں کہ کراچی میں تین لاکھ ووٹرز والے حلقے این اے 249سے پیپلز پارٹی کے فاتح اُمیدوار نے صرف 16 ہزار ووٹ لیکر میدان مار لیا، یاد رہے کہ یہ کل ووٹوں کا محض پانچ فیصد ہے، یعنی صرف پانچ فیصد ووٹ لینے والا پورے حلقے کے عوام کی نمائندگی کرنے کا دعوی دار بن گیا ہے۔ جب کہ ڈالے گئے ووٹوں میں سے بھی فقط 16 فیصد نے اس امیدوار کے خلاف باقی اُمیدواروں کو ووٹ دیا ہے لیکن نمائندہ پھر بھی پانچ فیصد والا بن گیا ہے۔ یعنی حلقہ این اے 249 کے کم و بیش 80 فیصد ووٹرز نے اپنے ووٹ کاسٹ کیئے ہی نہیں ۔ایک انتخابی حلقے سے 80 فیصد ووٹروں کاانتخابات سے مکمل طور پر لاتعلق رہنا ظاہر کرتا ہے کہ ہمارا انتخابی نظام عوام کی نظروں میں کس قدر بے وقعت ہوچکا ہے۔ مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اَب تو کراچی کے عوام نے پیپلزپارٹی کو کم یا زیادہ ووٹ دے کر بہر حال حلقہ این اے 249 کا فاتح بناہی دیا ہے ۔کیا اَب سندھ حکومت کی طرف سے کراچی کو انتظامی و سیاسی وسائل سے کچھ حصہ بقدر جثہ مل سکے گا؟۔ یا شکریہ !کراچی کہہ کر اہلیان کراچی کو اگلی بارشوں میں ڈوبنے کے لیئے اکیلا چھوڑ دیا جائے گا؟ویسے بارشیں بھی زیادہ دور نہیں ہیں ،جلد ہی پتہ لگ جائے کہ کراچی کے باسی پیپلزپارٹی کو ووٹ دے کر کون سا سیاسی و انتظامی فیض اٹھاتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں