عدالتی فیصلوں کو متنازع بنانے کی کوشش
شیئر کریں
پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں نے گزشتہ روز اپنے اجلاس میں، جس میں لندن سے نواز شریف نے بھی ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی، نواز شریف کی تجویز پر سپریم کورٹ کے3 رکنی بینچ کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا گیا ہے اور کہا ہے کہ فل کورٹ کا مطالبہ تسلیم نہ کرنا انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔ اجلاس میں سپریم کورٹ کا یک طرفہ فیصلہ آنے کی صورت میں تمام اتحادی جماعتوں نے مشترکہ لائحہ عمل اپنانے پر اتفاق کیا، بعد ازاں وزیرداخلہ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کے عندیہ کا بھی اظہار کیاہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عدم اعتماد اور اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے اور من پسند فیصلے حاصل کرنے کی کوشش کے حوالے سے ن لیگ کا ریکارڈ کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے،جبکہ سپریم کورٹ کے موجودہ بینچ پر نواز شریف کے عدم اعتماد کا بنیادی مقصد انتخابات کرانے سے متعلق فیصلے میں رخنہ اندازی کرکے اس کو کسی نہ کسی صورت ٹالنے کی کوشش کرنا ہے،دراصل مسلم لیگ ن کی خواہش ہے کہ عدالتی فیصلوں کو کم از کم ستمبر تک روکا جائے تاکہ موجودہ چیف جسٹس ریٹائر اور صدر مملکت دونوں ہی ریٹائر ہوجائیں اور نئے چیف جسٹس سے اپنے من پسند فیصلے حاصل کرنے کی کوشش کی جاسکے۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ انتخابات کے انعقاد سے حکومت کی فرار کی کوششوں اور اس حوالے سے اختیار کیے جا نے والے حربوں نے سیاسی اور عوامی سطح پر ہی نہیں‘ آئین کے نگہبان اور پاسدار حلقوں میں بھی محاذآرائی اس انتہاء تک پہنچا دی ہے کہ پورے سسٹم کے درہم برہم ہونے کے آثار اجاگر ہوتے نظر آنے لگے ہیں۔ اس وقت پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ آئینی اور قانونی جنگ کے ساتھ ساتھ اپنی اپنی بقا کی جنگ کے بھی مراکز بن چکے ہیں۔ پل پل حالات تبدیل ہو رہے ہیں۔عدلیہ کی جانب سے عمران خان کو دی جانے والی ضمانتوں کی وجہ سے حکومت اب تک عمران خان کو گرفتار کرکے حکومت مخالفت کا مزہ چکھانے میں ناکام رہی ہے،جس پر پورا حکومتی ٹولہ شدید جھنجھلاہٹ کا شکار ہے،اور اب عدالت کے اختیارات کم کرنے کے اقدامات شروع کردیے گئے ہیں،عدالتوں کو جکڑنے کے اس عمل کو درست ثابت کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے عوام کو یہ باور کرایا جارہاہے کہ عدلیہ عمران خان کی بی ٹیم بن چکی ہے اور عدلیہ کی مداخلت سیاسی عدم استحکام کا باعث بنتی ہے۔ اس لیے اجتماعی دانش کے متقاضی دستوری معاملات کی عدالت عظمیٰ کے فل کورٹ میں سماعت کی جائے۔ا س صورتحال میں عدالت عظمیٰ میں 1997والا ایکشن ری پلے ہوتا ہی نظر آرہا ہے جب اس وقت کے چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ کے برادر ججوں نے ان کے ازخود اختیارات کے تحت اٹھائے جانے والے اقدامات سے اختلاف کرتے ہوئے اور ایک متوازی بینچ تشکیل دیکر انہیں چیف جسٹس کے منصب سے فارغ کر دیاتھا۔ آج صورتحال اس سے بھی زیادہ گمبھیر اور پیچیدہ نظر آرہی ہے کیونکہ اس وقت پاکستان بارکونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن بھی چیف جسٹس کے ازخود اختیارات میں کمی کے لیے حکومت کی کوششوں کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہو گئی ہے،وکلا عدالتوں کو چھوڑ کر سڑکوں پر نکل رہے ہیں جس کے باعث سیاسی محاذآرائی سنگین سیاسی کشیدگی میں تبدیل ہو رہی ہے،گزشتہ ایک سال سے ملک میں جاری سیاسی کشیدگی، عدم استحکام اور ایک دوسرے کے خلاف پوائنٹ ا سکورنگ کے لیے اختیار کی گئی بلیم گیم کی سیاست نے اہم ترین ریاستی ادارے سپریم کورٹ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ معاشرہ واضح طور پر نفرت و عقیدت کے جذبات میں تقسیم ہو گیاہے۔ معاشرے میں شائستگی اور رواداری کی سیاست مفقود ہورہی ہے اور بلیم گیم کی سیاست غالبا آنے لگی ہے۔عوام دیکھ رہے ہیں کہ حکومت نے مسلسل ایسی قانون سازی کی جس سے احتساب جیسا عمل بے جان بن گیا،اب نواز شریف کواپیل کا حق دلاکر انھیں مسٹر کلین اور مظلوم بناکر پیش کرنے کیلئے عدالتی اختیارات کے پرکترنے کیلئے بھی قانون منظور کرالیاگیا ہے لیکن بیساکھیوں پر کھڑی اس حکومت کے اس طرح منظورکرائے گئے قوانین کی حیثیت پر سوال اٹھائے جاتے رہیں گے،اس قانون کی منظوری کے بعد ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اب انتخابی عمل سے فرارکے لیے راہ تلاش نہیں بلکہ راہ نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہی عمل سیاسی انتشاربڑھانے کا موجب ہے۔ اسمبلی ٹوٹنے کے بعد آئین کے تحت90 روز کے اندر انتخاب کرانا لازم ہے لیکن حکومت ہر صورت انتخاب ملتوی کراناچاہتی ہے۔ اِس حوالے سے قومی اسمبلی سے مستعفی پی ٹی آئی نے عدالتِ عظمیٰ میں درخواست دائر کررکھی ہے لیکن حکومت فیصلے کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے پرعزم نظر آرہی ہے، یہ صورت حال ہماری قومی سیاسی اور ادارہ جاتی قیادتوں کیلئے بہرصورت لمحہ فکریہ ہونی چاہیے کیونکہ ملک میں پیدا ہونے والے ان حالات سے پورا سسٹم بھی داؤ پر لگ سکتا ہے اور ملک کی سلامتی کے درپے ہمارے سفاک و مکار دشمن بھارت کو بھی اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کا موقع مل سکتا ہے۔آج کے سنگین حالات اسی تناظر میں قومی سیاست اور ادارہ جاتی نظم و ضبط کے سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کیلئے یہ فیصلہ کن موڑ ہے،اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں ادارے ایسے فیصلے کریں جو پوری قوم کو قابلِ قبول ہوں۔ محاذ آرائی کے اس ماحول میں ریاستی انتظامی ادارے ایک دوسرے کے مدمقابل آئیں گے تو اس سے پورے سسٹم پر زد پڑنے کا اندیشہ لاحق ہو سکتا ہے۔ یہی وہ حالات ہیں جو آج قومی سیاسی اور ادارہ جاتی قیادتوں کے معاملہ فہمی اور اجتماعی افہام و تفہیم کے راستے پر آنے کے متقاضی ہیں۔ موجودہ گمبھیر صورت حال کا تقاضا ہے کہ تمام قومی سیاسی اور ادارہ جاتی قیادتیں باہم مل بیٹھ کر اپنے ہاتھوں سے الجھائی گئی مسائل کی گتھی کو سلجھانے کی کوشش کریں اور ایسی کوئی صورت حال پیدا نہ ہونے دیں جس کے نتائج پر انہیں بعد میں پچھتانا پڑے آئین کو بہرصورت پامال نہیں ہونے دینا چاہیے۔اداروں کے درمیان اختیارات کے حوالے سے آئین میں کوئی ابہام نہیں۔اس کے لیے تمام ا سٹیک ہولڈرز قومی ڈائیلاگ کیلئے میز سجا لیں تو اس میں کیا مضائقہ ہے، بصورت دیگر ماضی کی طرح پورے سسٹم کی بساط لپیٹے جانے کے حالات بھی سازگار ہو سکتے ہیں۔
سیاستدانوں کو اگرملک میں آئین و قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی عمل داری مقصود ہے تو اپنی اپنی اناؤں کو تج کر ذاتی انتقام و منافرت کی فضا کو مزید فروغ پانے سے روکنے کا لائحہ عمل طے کرنا ہوگا جو تمام ا سٹیک ہولڈرز کے مابین قومی ڈائیلاگ سے ہی ممکن ہے،لیکن اتحادی حکومت کی کوششوں اور فیصلوں سے یہ ظاہرہوتاہے کہ حکومت کے اتحادیوں کوبھی اب اس بات کا مکمل اندازہ ہوچکاہے کہ شہباز شریف کی زیر قیادت موجودہ حکومت مسائل حل کرنے میں ناکام ہوچکی ہے مگر وہ اپنی ناکامی تسلیم کرنے سے بھی گریزاں ہے، ایسے حالات میں وطن عزیز کی صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ ہم نہیں یا تم نہیں کی باتیں، نت نئے تجربات اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششیں چھوڑ کر، مل جل کر مہنگائی کو شکست دی جائے۔ آٹے کی لائنوں میں لگ کر مرتے لوگوں کو بچایا جائے۔ مہنگائی کے ہاتھوں خود اور اپنے بچوں کو مارتے پاکستانیوں کو باعزت روزگار دے کر روکا جائے۔ وقت آگیا ہے کہ سیاست دان سمجھ جائیں کہ اب بھی اگر انھوں نے اپنی روش نہیں بدلی تو پھر پچھتاوے کے سوا کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا، کیونکہ زرمبادلہ کے ذخائر روز بروز کم ہورہے ہیں کہیں سے بھیک کا کوئی ٹکڑا مل جاتاہے تو زعمائے خزانہ بڑے فخر سے بیان دیتے ہیں کہ زرمبادلہ کی صورت حال بہتر ہورہی ہے جبکہ فی الوقت حقیقت یہ کہ ماہرین کے مطابق ملک کو اپنی بنیادی برآمدی صنعت ٹیکسٹائل ملوں کو چلانے کے لیے صرف کپاس کی درآمد کے لیے 4 اعشاریہ ایک ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف، تمام شرائط پوری کرانے اورعوام پر مہنگائی کے بم گرانے کے باوجود ہمیں قرضہ دینے کو تیار نہیں۔ مگر حکمرانوں کی کوشش ہے کہ کوئی ایسا طریقہ ہاتھ لگ جائے جس کے ذریعے اقتدار میں رہ سکیں وہ اقتدار کے لیے ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں۔حکومتی چالوں سے ظاہر ہے کہ اُسے ہر صورت الیکشن کا التوا چاہیے۔ انتخابات کے حوالے سے چونکہ چیف جسٹس کے از خود نوٹس سے انتخابات ملتوی کرنے کی حکومت کی خواہش میں رخنہ پڑنے کا امکان ہے،اس لیے اب حکومت کا خیال ہے کہ چیف جسٹس کے پاس اکیلے ازخود نوٹس اور بینچ بنانے کا اختیار غلط ہے جو خاصامضحکہ خیز ہے۔پاکستان کے عوام کو یاد ہے کہ جب موجودہ چیف جسٹس نے عدمِ اعتمادکی تحریک مسترد کرنے کا نوٹس لے کر رات کو سماعت شروع کی تھی تو پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں نے واشگاف الفاظ میں بڑھ چڑھ کر اس عمل کی تائید کی اور اِس عمل کو عین قانون و آئین کے مطابق قرار دیا تھاکیونکہ بینچ بنانا چیف جسٹس کا انتظامی اختیارتھا۔ جب ان ہی چیف جسٹس کے فیصلوں سے موجودہ حکمراں ٹولے کو ریلیف مل رہاتھا تو ان کے اختیارات بھی صحیح تھے اور فیصلے بھی لاجواب تھے مگر یہی حکومت اب چیف جسٹس کے ازخودنوٹس پر معترض اور خلافِ آئین قرا ر دے رہی ہے،تشویشناک امر یہ ہے کہ سب کچھ ایک متفقہ آئین کی موجودگی میں ہو رہا ہے جس میں سب کچھ وضاحت سے بیان کر دیا گیا ہے اورہر ایک کے حقوق کا تعین بھی کیا جا چکا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہر کوئی اس بات کا دعویدار بھی ہے کہ وہ آئین کا احترام کرتا ہے اور اُس کی حفاظت کرے گا مگر سوال یہ ہے کہ جب آئین کے مندرجات پر اتفاق رائے ہی پیدا نہیں ہو گا اور ہر کوئی انہیں اپنے مطلب کے معانی پہنائے گا تو بات کیسے بنے گی۔ اس وقت معاشی عدم استحکام نے تو ملک کو گھیرا ہی ہوا ہے اس کے ساتھ سیاسی عدم استحکام بھی موجود ہے جو معاملات کو مزید بگاڑ رہا ہے۔ قانون کی حکمرانی یقینا کسی بھی ملک اور معاشرے کو چلانے کے لیے بہت ضروری ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دیگر قائدین ہی نہیں، خود حکمراں ٹولے میں موجود بعض انتہا پسند بھی قانون کی حکمرانی کو اپنے اقتدار کے لیے زہر قاتل تصور کرتے ہیں اور وہ یہ نہیں چاہتے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی قائم ہو۔ موجودہ سیاسی عدم استحکام میں حکومت اور اپوزیشن سب نے ایک دوسرے سے بڑھ کر حصہ ڈالا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف ایک طرف افہام وتفہیم کی بات کرتے ہیں دوسری طرف وزیر داخلہ مائنس عمران خان مذاکرات کا فارمولاپیش کرتے ہیں،عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے خلاف ایسی زبان استعمال کی جاتی ہے جو کسی بھی طور مناسب قرار نہیں دی جاسکتی۔لاہور میں عمران خاں کے جلسے پر ردعمل دیتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا تھا کہ غدارِ وطن مینارِ پاکستان جیسی پاک جگہ کو اپنے جھوٹ کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ ایک بیان میں رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے خلاف کام کرنے والے ایجنٹ کو مینارِ پاکستان پر جلسے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے سماجی رابطے کے ذریعے ٹوئٹر پر اس حوالے سے کہا
تھا کہ آج حقیقی آزادی کا جنازہ مینارِ پاکستان میں پڑھا گیا۔ فتنے، فسادی اور دہشت گرد سے حقیقی آزادی دلوانے کا وقت آ گیا ہے۔کیا اس طرح کے بیانات سے صورت حال میں بہتری کی کوئی امید کی جاسکتی ہے۔سیاسی قیادتوں نے اس وقت جو رویے اختیار کیے ہوئے ہیں وہ ملک کو ترقی اور استحکام کی راہ پر گامزن کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ انھی رویوں سے عوام کو یہ پیغام مل رہا ہے کہ سیاسی اختلافات کی بنیاد پر اپنے مخالف کے خلاف کسی بھی حد تک جانا جائز ہے۔ سیاست دانوں کو اپنایہ رویہ بدلنا چاہیے اور ملک کی فلاح و بہبود کے لیے سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے۔ اگر کوئی بھی سیاسی جماعت یا شخصیت یہ سمجھتی ہے کہ وہ اکیلی ملک کے تمام مسائل کا حل فراہم کرسکتی ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہی ہے۔ اس وقت موجود سیاسی جماعتوں میں سے کوئی بھی قابلِ ذکر جماعت ایسی نہیں جو اقتدار میں نہ رہ چکی ہو لیکن اس کے باوجود مسائل کا انبار لگا ہے جو اس بات کا تقاضا کررہا ہے کہ سیاسی قیادت متحد ہو کر مسائل کو حل کرنے کے لیے کوشش کرے۔قوموں کی زندگی میں ایسے مواقع آتے ہیں جب ہر بات کو بالائے طاق رکھ کر قومی یکجہتی اور اتفاق ر ائے کی بات کی جاتی ہے۔ کیا پاکستان میں ایسا وقت نہیں آیا ہوا، کیا حالات خطرے کی گھنٹی نہیں بجا رہے؟ ایسے چیلنجز تو ہر دور میں درپیش رہے ہیں مگر ہم نے اپنی یکجہتی اور اتحاد سے انہیں ناکام بنایا ہے،صرف یہ کہہ دینے سے بات نہیں بنے گی کہ عمران خان ایک فتنہ ہے جس نے سارا انتشار پھیلا رکھا ہے، سیاست میں اس طرح کسی کو ایک خاص نام دے کر رد نہیں کیا جا سکتا۔عمران خان اِس وقت ایک بڑی سیاسی حقیقت ہیں اُنہیں دیوار سے لگا کر ملک میں سیاسی استحکام نہیں لایا جا سکتا۔ حاکمانِ وقت دِل بڑا کریں اور اس حقیقت کو تسلیم کر کے آگے بڑھیں۔ مختلف طریقوں یا ہتھکنڈوں سے قوانین بنائے جا سکتے ہیں مگر زمینی حقیقتوں کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا، ملک میں استحکام تب ہی آئے گا جب سیاسی استحکام ہو گا اور سیاسی استحکام کے لیے ایک دوسرے کو تسلیم کر کے آگے بڑھنا ہو گا وگرنہ حالات ایسی خرابی کی طرف جائیں گے جو کسی طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔
٭٭٭