دہلی کے وائسرائے !
شیئر کریں
(مہمان کالم)
پی چدمبرم
امریکا کے سابق صدر ابراہم لنکن نے ایک مرتبہ جمہوریت کی تعریف و تشریح کرتے ہوئے کہا تھا کہ جمہوریت ایک ایسی طرزِ حکومت ہے جسے عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے حکومت اور عوام کے لیے حکومت کہا جاسکتا ہے۔ انہوں نے جمہوریت کی جو تشریح کی تھی‘ آج بھی اسے جمہوریت کی انتہائی جامع اور آسان تعریف کہا جاتا ہے۔ اس طرزِ حکومت میں جو مرکزی مقام ہے وہ دراصل عوام کا ہے‘ یعنی جمہوریت کا مرکز و مبدا عوام ہیں۔ نمائندہ جمہوریت صرف یہ قائل کرتی ہے کہ اس میں تعداد بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ جہاں تک بھارت کا تعلق ہے تو یہ ایک وفاقی ریاست ہے، دہلی اس کا دارالحکومت ہے۔ یہ بھی حقیقت تسلیم شدہ ہے کہ حکومتِ دہلی ریاستی حکومتوں سے مختلف ہے، اس کے باوجود یہ کہا جاسکتا ہے کہ جو بھی حکومت ہو‘ اس کا جمہوری حکومت ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ جمہوری حکومت میں عوام ہی حکومت کا مرکز ہوتے ہیں۔ بھارتی آئین و قانون میں ریاست (دہلی این سٹی) کو ایک خصوصی مقام عطا کیا گیا ہے۔ عدالت نے اس ضمن میں جگن موہن ریڈی جے کے حوالے سے یہ بات کہی۔ جگن موہن ریڈی جے نے کیشوا نندا بھارتی میں یہ واضح طور پر کہا کہ حکومت کی جمہوری شکل دراصل دستورکے بنیادی ڈھانچے کا ایک حصہ ہے۔
پارلیمنٹ کے آئینی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے بالآخر حکومت دہلی کے اختیارات اور افعال کا تعین کردیا گیا ہے۔ جہاں تک دہلی کا سوال ہے‘ دہلی کے معاملے میں 1991ء کے دوران دستور میں ترمیم کی گئی تھی اور اس میں آرٹیکل 239 AA شامل کیا گیا تاکہ دہلی کے لیے خصوصی دفعات فراہم کی جاسکیں۔ اس سلسلے میں جو بیانات اور وجوہات بیان کی گئیں ان میں واضح طور پر کہا گیا کہ دہلی مسلسل ایک مرکزی زیر انتظام علاقہ رہے گا اور اس کے لیے اسے ایک قانون ساز اسمبلی اور اس کے ذمہ دار وزرا کی کونسل فراہم کی گئی تاکہ یہ لوگ عام آدمی سے تعلق رکھنے والے معاملات سے نمٹ سکیں۔ اس کے لیے انہیں مناسب اختیارات دیئے گئے تھے۔ آرٹیکل 239 AA میں وہ تمام الفاظ اور جملے استعمال کیے گئے جن کے معنی و مطالب کی ہر جمہوری ملک میں ضرورت ہوتی ہے۔ ان میں علاقائی حلقوں سے راست انتخاب جیسا جملہ بھی شامل ہے اور جس میں یہ بھی کہا گیا کہ قانون ساز اسمبلی کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ قوانین بنائے‘ جن کا انہیں اختیار دیا گیا یعنی ریاست کی فہرست یا بیک وقت تیار کردہ فہرست میں کسی بھی تفصیل وار بیان شمار یا گنتی کے معاملہ میں قانون ساز اسمبلی کو قوانین بنانے کا آئینی اختیار رہے گا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہاں وزرا کی کونسل ہوگی اور اس کونسل کا سربراہ چیف منسٹر ہوگا جو قانون ساز اسمبلی اور ریاستی حکومت کی کارکردگی وا افعال کی انجام دہی کے لئے لیفٹیننٹ گورنر کی نہ صرف مدد کرے گا بلکہ اسے مشورہ بھی دے گا۔ گورنمنٹ آف دی نیشنل ٹیریٹری ایکٹ 1991ء دراصل آرٹیکل 239AA کے تحت بنایا گیا تاکہ آرٹیکل میں جو دفعات ہیں انہیں نئی طاقت عطا کی جائے۔
گزشتہ 20 برسوں میں کئی ایسے واقعات پیش آئے جہاں لیفٹیننٹ گورنر نے مجلس وزرا پر برتری قائم کرنے کی کوشش کی لیکن اس طرح کی کوششوں کو سختی کے ساتھ دبا دیا گیا؛ تاہم 2014ء کے بعد سے بے شمار تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ دہلی میں بی جے پی کی مرکزی حکومت دارالحکومت دہلی میں غیر بی جے پی حکومت کو برداشت نہ کرسکی‘ خاص طور پر وزیر اعظم مودی ایک ایسے چیف منسٹر کو برداشت نہیں کرسکے جو دہلی میں سیاسی مقام و مرتبہ میں حصہ چاہتا تھا۔ ایسے میں ایک طویل عرصے سے دفن تنازع کو دوبارہ اٹھایا گیا اور یہ سوال گونجنے لگا کہ دہلی حکومت میں حقیقی طور پر کون بڑی طاقت ہے۔ اس کوشش کو سپریم کورٹ نے ناکام بنا دیا اور عدالت اعظمیٰ نے ریاست بمقابلہ یونین آف انڈیا مقدمے میں 4 جولائی 2018ء کو یہ اعلان کیا کہ آئین میں اعانت اور مشورے کے جو معنی دیے گئے ہیں ان کا مطلب یہ لیا جائے کہ دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر دراصل وزرا کی کونسل کی اعانت اور مشورے کے پابند ہیں۔ اس بل کے ذریعے قانون میں جو ترمیم کی گئی، اس سے یہی مطلب نکلتا ہے کہ لیفٹیننٹ گورنر کو زیادہ اختیارات دے دیے گئے ہیں اور جنہیں یعنی حکومت کو زیادہ اختیارات دیے جانے چاہئے تھے‘ اس کے اختیارات گھٹا دیے گئے ہیں۔ اس بل کے ذریعے اس بات کا بھی تعین کردیا گیا ہے کہ کسی بھی عاملانہ کارروائی، اقدامات یا فیصلوں سے قبل لیفٹیننٹ گورنر کی رائے لینی چاہئے۔ بالفاظ دیگر قانون میں ترمیم کرتے ہوئے مودی حکومت نے لیفٹیننٹ گورنر کی شکل میں دہلی میں اپنے وائسرائے کو بٹھا دیا ہے جبکہ چیف منسٹر اروند کجریوال اور ان کے وزرا کو ان کے ماتحت کردیا گیا ہے جو ان کے پیچھے پیچھے چلیں گے۔
مسٹر کجریوال کو شاید اسی دن یہ معلوم ہوجانا چاہئے تھا جب جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی اختیار ختم کرتے ہوئے اسے دو مرکزی زیرانتظام علاقوں میں بانٹ دیا گیا تھا۔ وہ ایک طرح سے دستوری بغاوت تھی، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ مسٹر کجریوال نے قوم پرستی کے نام پر جمہوریت کو جس طرح نشانہ بنایا گیا اور حملہ کیا‘ اس کی بھرپور تائید کی تھی۔ آج کجریوال اور تمام جمہوریت پسندوں کے لیے المناک دن ہے۔ ایسا دن جس میں قانون میں وہ ترمیم کی گئی جو جمہوریت کی توہین ہے۔ اگر کجریوال اس معاملے میں مودی حکومت کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں تو میری ساری ہمدردی ان کے ساتھ ہے۔ جہاں تک بھارت میں جمہوریت کا سوال ہے‘ روز بروز اس میں کمی آتی جا رہی ہے اور دنیا نے بھی اس کا نوٹس لیا ہے اور کہا ہے کہ فی الوقت بھارت جزوی طور پر آزاد ہے۔ اگر ہم بی جے پی کے اغراض و مقاصد کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ اس کا مقصد ملک میں صرف اور صرف ایک پارٹی کی حکمرانی قائم کرنا ہے۔ ساتھ ہی پارلیمنٹ میں ارکان کی تعداد کو بڑھانا، پارلیمنٹ کو ایک ربر ا سٹیمپ کی طرح بنانا، عدلیہ کو اپنے تابع کرنا اور سرکاری طور پر ا سپانسرکردہ میڈیا کو فروغ دینا، ہر حکم پر میرے آقا کہنے والے کارپوریٹ یا صنعتی گھرانوں کو آگے بڑھانا اور خوشامد پسند لوگوں کی تعداد میں اضافہ کرنا ہے جو صرف اپنی مادی ترقی پر خوش ہوتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو بھارت اور دوسرے آمریت پسند ملکوںمیں میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔