شہریت قانون ، مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہیں، بھارتی سکھ
شیئر کریں
بھارتی سکھوں کا کہنا ہے کہ شہریت کے متنازعہ قانون کے خلاف وہ مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہیں، ایسے کالے قانون کو کبھی تسلیم نہیں کریں جس سے کسی خاص مذہب کو نشانہ بنایا جارہا ہو، آج مسلمانوں کے ساتھ یہ سب کچھ ہورہا ہے کل ان کے ساتھ بھی ایسا ہوسکتا ہے ۔اتوار کو کرتارپور میں مذہبی رسومات کی ادائیگی اور گوردوارہ دربار صاحب میں آنے والے بھارتی سکھ یاتریوں نے ‘‘ایکسپریس’’ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آج جو کچھ ان کے ملک میں ہورہا ہے اس پر وہ سب دکھی اور افسردہ ہیں، سیاسی مقاصد کے لیے نفرت کی ایسی آگ جلائی جارہی ہے جس سے پہلے ہی لاکھوں گھر جل چکے ہیں۔ہریانہ سے تعلق رکھنے والے سردار امرجیت سنگھ نے بتایا کہ انڈیا میں ہزاروں ایسے ہندو، سکھ، بودھ اور مسیحی تارکین وطن عشروں سے مقیم ہیں جو پڑوسی ممالک کے سیاسی حالات اور مجبوریوں کی بنا پر اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے اوراب کئی برس سے بھارت میں مقیم ہیں، ایسے لوگ اب کہاں جائیں گے ؟ شہریت قانون کی مخالفت اس لیے ہو رہی ہے کہ تارکین کو شہریت دینے کا فیصلہ مذہب کی بنیاد پر کیا گیا اور مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کو اس سے باہر رکھا گیا، انسانی ہمدردی کی آڑ میں اس قانون کا مقصد سیاسی ہے ۔خاتون ارشدیب کور نے کہا شہریت کے نئے قانون کے تحت بھارتی ریاست آسام میں ہندوؤں کو تو شہریت دی گئی لیکن لاکھوں مسلمانوں کو ‘گھس بیٹھیے ’ قرار دے کر شہریت اور قومیت سے محروم کردیا گیا، آج مسلمانوں کے ساتھ یہ ہورہا ہے کل سکھ قوم کے ساتھ بھی یہ ہوسکتا ہے ، کیونکہ ماضی میں بھی خالصتان کے نام پر ہزاروں سکھ خاندانوں پر مظالم ڈھائے جاچکے ہیں۔سردار پرویندر سنگھ نے کہا بھارتی پنجاب کی حکومت پہلے ہی اعلان کرچکی ہے کہ وہ اس قانون کو تسلیم نہیں کرے گی اور پنجاب میں اس کا نفاذ نہیں ہونے دے گی، پنجاب سے سیکڑوں سکھ نوجوان اس قانون کے خلاف شاہین باغ دہلی میں ہونے والے احتجاج میں شریک ہیں، ڈرہے کہ بھارتی حکمرانوں کی غلط حکمت عملی کہیں بھارت کو تقسیم نہ کردے ۔ایک نوجوان ترن جیت سنگھ کا کہنا تھا ہم دیر سے بیدار ہوئے ہیں لیکن اب ہم جاگ اٹھے ہیں ہم نے پورے ملک کو بیدا کردیا ہے ، سکھ قوم شہریت کے ترمیمی ایکٹ کو امتیازی قانون سمجھتی ہے ۔