میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پیغام سیرت .... مسکراہٹیں بکھیریں خوشیاں سمیٹیں!!!

پیغام سیرت .... مسکراہٹیں بکھیریں خوشیاں سمیٹیں!!!

ویب ڈیسک
جمعه, ۳ فروری ۲۰۱۷

شیئر کریں

اشفاق احمد
حضور انور ﷺ کو چالیس سال کی عمر مےں نبوت ملی۔نبوت کیا تھی ،پوری اک ذمہ داری تھی کہ اللہ کا پیغام ساری دنیا تک پہنچانا آپ کے فرائض منصبی میں شامل تھا۔ اللہ تعالیٰ نے خودبھی فرمایا کہ میرے پیغمبر دن کے اوقات میں تیرے لیے بڑا کام ہے۔ چنانچہ حضور ﷺ بھی اس کے لیے شب وروز فکر مند رہتے ،یہاں تک کہ اللہ کا پیغام ساری دنیا میں اور ہر کچے پکے گھر میں پہنچاکر گئے۔
ہمارے نبی عزم واستقامت کے پہاڑ تھے ، بے سرو سامانی کے عالم میں ساری دنیا تک اسلام پہنچانے کی ذمہ داری لی۔ دن رات اس کے لیے محنت کی۔ رجال ِکار تیار کیے۔ اپنے خون جگر سے ایک ایسا معاشرہ سینچا جو بعد مےں بھی اس پیغام کا علم بردار بن کر جیے، یہ تمام کٹھن ترین کام پایہ تکمیل کو پہنچائے۔ مگر میں یہاں پر ایک دوسرے نکتے کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ان شبانہ روز مشکلات کے باوجود دیکھنے والے بتاتے ہیں کہ حضور ﷺ ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے۔ اکثر تو آپ ﷺ سامنے کے دونوں دانتوں سے مسکراتے اور کبھی پورے منہ سے مسکراتے ۔سبحان اللہ
اگر ہم دنیا میں نام پیدا کرنے والی شخصیات کا مطالعہ کریں تو مشترکہ طور پر ہمارے سامنے دوباتیں آتی ہیں، ایک ان کا تمام بڑے بڑے کاموں میں جہد مسلسل، انتھک محنت کرنا۔ دوسرا ان کا اپنے آس پاس کے لوگوں سے بالکل دوستانہ رویہ اور ہمیشہ چہرے پر مسکراہٹ سجائے رکھنا۔ یہ وہ اوصاف ہیں جس سے ساری دنیا کو مسخر کیاجاسکتا ہے۔
ڈیل کارنیگی اپنی کتاب میں نیویارک کے اسٹاک بروکر ممبر ولیم کے بارے میں لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے تجربہ کیا کہ مسکراہٹ کے جواب میں ہر شخص مسکراتا ہی ہے ، جو لوگ اپنی شکایات اور تکالیف لے کر میرے پاس آئے ،میں ان سے خوش خلقی سے ملتا ہوں ان کی بات سننے کے دوران مسکراتا رہتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ میری مسکراہٹوں کی بدولت میری جیبیںروپوں سے بھری رہتی ہیں۔ اس نے کہا کہ جب میں مسکراتا ہوں تو سچ مچ میں انسان لگتا ہوں، میں نے اپنی تنقید اور نکتہ چینی کی عادت بھی ختم کردی ہے۔ اب میں عیب جوئی کے بجائے لوگوں کی تعریف وتحسین کرتا ہوں ،میں نے اپنی ضرورتوں کا ذکر کرنا چھوڑ دیا ہے۔ اب میں دوسروں کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں اور ان تبدیلیوں نے میری زندگی میں ایک انقلاب برپا کردیا ہے، اب میں ایک بالکل مختلف انسان ہوں۔ ایک شادماں، امیر، دوستی کی مسرتوں سے مالا مال….!!اور یہی چیزیں ہیں جن کی زندگی میں قدر وقیمت کو سمجھنا چاہئے۔ اب یہ ایک انگریز کے الفاظ ہیں جن کا ٹارگٹ یہ دنیا، اس کی مادیت پر ستی، اور چار دن کی چاندنی ہی ہے ،اس لیے ہمےں روپے پیسے سکون اور لطف اور دنیاوی مزے کی بات سننے کو ملیں۔ یہ بھی اپنی جگہ حیثیت رکھتی ہیں، مگر ہمارا مشن تو بہت اعلیٰ اور بلند ہے۔سو ہمےں نہ صرف اپنی ذات کے لیے بلکہ اپنے گرد وپیش میں موجود انسانیت کے لیے یہ مسکراہٹوں کے پھول بکھیرتے ہوئے زندگی گزارنی ہے، اس سے ہمارے آس پاس رہنے والے لوگ ہمارے بہت قریبی ہوجائیں گے اور سب سے بڑی بات یہ کہ ہمارا نامہ اعمال نیکیوں سے بھرتا چلا جائیگا کیونکہ ہمارے پیارے پیغمبرﷺ نے ہمیں یہ بات بھی سکھائی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی سے مسکراکر ملنا بھی نیکی ہے۔ سو آئیے اپنی زندگی کو خوشگوار بنائےں اور ساتھ ہی ساتھ اپنے توشہ آخرت کو بھی بڑھائےں۔
پھر یہ مسکراہٹ ہے کتنی سہل وسستی۔۔۔ اور نتیجہ آور کس قدر ہے، اس کا بھی ذرا اندازہ لگائیے کہ اس پر خرچ کچھ نہیں آتا لیکن یہ لاتی بہت کچھ ہے۔ یہ حاصل کرنیوالے کو مالا مال کردیتی ہے اور دینے والے سے کچھ نہیں مانگتی، یہ ایک جھلک ہوتی ہے لیکن اس کی یاد بعض اوقات ابدی ہوتی ہے ۔اس کے بغیر کوئی شخص امیر نہیں لیکن جس کے پاس یہ نہیں اس جیسا غریب کوئی نہیں۔ یہ گھر میں مسرت اورشادمانی لاتی ہے ،کاروبارمےں اعتماد پیدا کرتی ہے اور یہ دوستوں کی پہچان ہے۔یہ تھکے مانندے کے لیے آرام ،بددل کے لیے دن کی روشنی ، مایوس کے لیے روشنی کی کرن اور مصیبت زدہ کے لیے بہترین قدرتی تریاق ہے۔
ہاں یہ خریدی ،مانگی یا چرائی نہیں جاسکتی ۔کیونکہ یہ ایک ایسی چیز ہے جو اس وقت تک کسی کو فائدہ نہیں دیتی جب تک اسے اپنے دل کی گہرائیوں سے پیدا نہ کیاجائے۔ مسکراہٹ کی ضرورت سب سے زیادہ اسے ہوتی ہے جس کے پاس دینے کے لیے کچھ نہ ہو۔اس لیے اگر آپ لوگوں کے دلوں میں گھر کرنا چاہتے ہیںتو اس کا اصول ہے:مسکراہٹ!!
اور یہی سیرت ِ نبوی کا بھی پیغام ہے کہ ہم ہر دم مسکراتے نظرآئیں۔آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ مسکرانا بھی نیکی ہے ،تو ہم کیوں ان مفت کی نیکیوں سے دور رہیں جو ہمےں لوگوں میں بھی ہر دل عزیز بنادیں اور ہمارے نامہ اعمال میںبھی اضافہ کرادیں؟؟


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں