آپ کے مسائل کا حل اسلام کی روشنی میں
شیئر کریں
مفتی غلام مصطفی رفیق
عورت کا مہرکب اداکیاجائے؟
سوال:۱۔مہرکے بارے میں کیا حکم ہے؟یعنی عورت کے مہر کی ادائیگی کے بارے میں شریعت کیاکہتی ہے،شادی کے بعد کب دیناچاہیے؟ ۲۔دوسرایہ کہ عورت سے جومہرمعاف کروادیاجاتاہے کیامعاف ہوجاتاہے؟شریعت کا حکم کیاہے؟۳۔اگر کئی سال قبل دس ، گیارہ ہزار مہررکھاابھی تک ادانہیں کیااور اب تو کرنسی بڑھ گئی ہے کیاوہی مہرلازم ہے؟
جواب:۱۔مہرعورت کا حق ہے،جس قدر جلد اداکیاجائے زیادہ بہترہے،بلاوجہ حق مہرکی ادائیگی میں تاخیرنہیں کرنی چاہیے،قرآن کریم میں ارشادباری تعالیٰ ہے:”اوردے ڈالوعورتوں کواُن کے مہرخوشی سے “۔ (النسائ:4) اس آیت کریمہ میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ مہر عورت کاحق ہے اور شوہرپراس کی ادائیگی واجب ہے،س طرح دیگرحقوق واجبہ کوخوش دلی کے ساتھ اداکرناضروری ہے ، اسی طرح مہرکوبھی خوش دلی کے ساتھ اداکرنالازم ہے۔۲۔اگرعورت خوش دلی سے بغیرکسی جبرکے مہرمعاف کردے تومعاف ہوجاتاہے،زبردستی معاف کروانے سے معاف نہیں ہوگا۔قرآن کریم کی سورہ نساءمیں ارشادباری تعالیٰ ہے:”اگروہ عورتیں خوش دلی کے ساتھ اپنے مہر کا کوئی حصہ تمہیں دے دیں توتم اس کوکھاسکتے ہو“۔مفتی محمدشفیع رحمہ اللہ لکھتے ہیں:”آیت شریفہ میں جو یہ قید لگائی” طیب نفس“ کی کہ خوشی سے تمہاری بیویاں اگر مہر کا کچھ حصہ تم کو دیدیں یا تم سے وصول ہی نہ کریں تو تم اس کو کھا سکتے ہو ،اس میں ایک بہت بڑا راز ہے، بات یہ ہے کہ شریعت کا یہ اصول ہے کہ کسی کا ذرا سامال بھی کسی دوسرے کے لئے حلال نہیں ہے ،جب تک کہ طیب نفس سے اجازت نہ ہو، بطور قاعدہ کلیہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”خبردار ظلم نہ کرو اور اچھی طرح سے سمجھ لو !کہ کسی شخص کا مال(دوسرے شخص کے لئے)حلال نہیں ہے، جب تک کہ اس کے نفس کی خوشی سے حاصل نہ ہو“ ۔ یہ ایک عظیم اصول ہے اور اس کے ماتحت بہت سے جزئیات آ جاتے ہیں ۔ دورِ حاضر میں چونکہ عورتیں یہ سمجھتی ہیں کہ مہر ملنے والا نہیں ہے، اگر سوال کروں یا معاف نہ کروں تو بد دلی یا بدمزگی پیدا ہو گی، اس لئے بادل ناخواستہ معاف کر دیتی ہیں، اس معافی کا کوئی اعتبار نہیں۔ سیدی حضرت حکیم الامت قدس سرہ فرماتے تھے کہ صحیح معنی میں طیب نفس سے معاف کرنے کا پتہ اس صورت میں چل سکتا ہے کہ مہر کی رقم بیوی کے حوالہ کر دی جائے، اس کے بعد وہ اپنی خوشی سے بغیر کسی دبائو کے دیدے “۔۳۔جی ہاں! جتنی نقد رقم مہرمیں مقررہوئی تھی اسی رقم کی ادائیگی واجب ہے۔(معارف القرآن ، جلد دوم ،ص:298,299،ط:مکتبہ معارف القرآن )
مساجدمیں رکھی ہوئی پلاسٹک کی ٹوپیاں پہن کر نمازپڑھنا
سوال:ہماری مسجد میں پلاسٹک کی ٹوپیاں رکھی ہوئی ہیں،کبھی کبھاروہ بہت میلی بھی ہوجاتی ہیں،لوگ انہیں پہن کر نمازپڑھتے ہیں،سوال یہ ہے کہ کیاایسی ٹوپیاں پہن کرنمازنمازپڑھی جاسکتی ہے؟
جواب:نمازایک مقدس عبادت ہے، لہذا نمازکے لئے صاف ستھرااور عمدہ لباس ہونا چاہیے،مساجدمیں رکھی جانے والی ٹوپیاں اگر صاف ستھری ہوں اورکبھی اتفاق سے ٹوپی موجودنہ ہوتوتوانہیں پہن نمازپڑھ سکتے ہیں ، مگراس کی عادت نہیں بنانی چاہیے،ہرمسلمان کو چاہیے کہ خود اپنے لئے اچھی ٹوپی خریدکررکھے اور اسے پہن کرنمازپڑھے،فقہاءنے لکھاہے کہ وہ لباس جس کوپہن کرکوئی شخص عام مجالس میں نہ جاسکتاہوایسے لباس میں نمازبھی مکروہ ہے،مساجدمیںرکھی جانے والی ٹوپیاں بھی عموماً اسی قسم کی ہوتی ہیں اس لئے مستقل انہیں پہننے کی بجائے خوداپنے لئے ٹوپی کاانتظام کرناچاہیے۔(البحرالرائق،کتاب الصلوة، باب مایفسدالصلوة ومایکرہ فیھا، 2/35، ط: دارالمعرفة بیروت)
امام نے دوسری رکعت میںسورةالناس پڑھی تومقتدی کون سی سورت پڑھے؟
سوال:اگرامام کے ساتھ مغرب کی یاعشاءکی دوسری رکعت میں شامل ہوئے اور امام نے سورة الناس پڑھی تواب مقتدی اپنی رہ جانے والی رکعت میں کہاں سے پڑھے گا؟کیاکوئی بھی سورت پڑھ سکتاہے؟
جواب:مقتدی اپنی رہ جانے والی رکعات کی ادائیگی میں منفرد (یعنی اکیلے نمازپڑھنے والے)کی طرح ہے،اس لئے اگر امام نے دوسری رکعت میں سورة الناس پڑھی ہے تومقتدی اپنی رہ جانے والی رکعت میں سورہ¿ فاتحہ کے بعد کوئی بھی سورت پڑھ سکتاہے۔ (فتاویٰ شامی، کتاب الصلوة، 1/557، ط: ایچ ایم سعید)
ہاتھوں پرایلفی لگی ہوتووضوکاحکم
سوال:کام کرتے ہوئے ایلفی ہاتھوں پر یاانگلی کے کسی کونے پر لگ جاتی ہے ،کبھی پتہ بھی نہیں چلتا، اس صورت میں وضو کاکیاحکم ہے؟
جواب:ہروہ چیز جووضو کے اعضاءپر لگی ہواورجلد تک پانی کے پہنچنے کو روکنے والی ہواس کودورکئے بغیروضودرست نہ ہوگا۔لہذا اگر ہاتھوں پرایلفی لگ جائے چاہے وہ انگلی کے کسی حصہ پرمعمولی مقدارمیں ہی کیوں نہ ہواس کو ہٹاناضروری ہے ،تب وضودرست ہوگا۔ اگرایلفی لگی ہوئی ہوتواس صورت میں وضوبھی نہ ہوگااور اس وضوسے پڑھی گئی نمازوں کااعادہ بھی لازم ہوگا۔
اپنے سوالات اس پتے پر بھیجیں:
انچارج ”فہم دین“روزنامہ جرا¿ت، ٹریڈسینٹر،نویں منزل907،
آئی آئی چند ریگرروڈ کراچی
masail.juraat@gmail.com