میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
حافظ صاحب کی نظر بندی۔۔۔۔کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے

حافظ صاحب کی نظر بندی۔۔۔۔کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے

ویب ڈیسک
جمعه, ۳ فروری ۲۰۱۷

شیئر کریں

جس دن اہلِ پاکستان کشمیریوں کے ساتھ یومِ یکجہتی کشمیر منا رہے ہیں اور مظفر وانی شہید کی شہادت سے شروع ہونے والی مزاحمتی تحریک ایک نیا جنم لے چکی ہے،عین اُسی دن بھارت کے وزیر اعظم نریندرا مودی امریکا یاترا کوپدھاریں گے۔ جہاں اہلِ نظر مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ میں یکسانیت ڈھونڈنے میں مصروف ہیں اور ان کو زیادہ مایوسی بھی نہیں ہوتی، وہیں مودی کی اس دورے کو طویل المدتی تزویراتی ساجھے داری کی یادہانی بھی یاد آ رہی ہے۔
بھارتی ذرائع ابلاغ مودی کے اس دورہ امریکا کو بڑی مہارت سے اپنے زیراثر بین الاقوامی سطح پر مارکیٹ فرما رہے ہیں۔ اور لگتا یہی ہے کہ وہ بڑی مہارت سے ، مظفر وانی کی شہادت سے شروع ہونے والی ، کشمیر میں جاری مزاحمت کی موجودہ تحریک کو پس منظر میں دھکیل کراسے پاکستان کی مداخلت اور دہشت گردی ثابت کر نے میں کامیاب رہیں گے کیوں کہ ہمارے میڈیا اور سفارت کاروں نے تو کچھ کرنا نہیں ہے ۔
ایسے میں ن لیگ کی حکومت کے حامی ایک میڈیا گروپ نے اپنے اخبارمیںایک خبر اپنے صفحہ اول پر نمایاں طور پر چھاپی جس میں امریکا کی طرف سے کسی دھمکی کی بات کی گئی جس میں کہا گیا تھا اگر ”حافظ سعید اور ان کی جماعت کے خلاف ایکشن نہ لیا گیا تو پاکستان کے خلاف ایکشن لیا جاسکتا ہے“۔ اسی دن جب حافظ صاحب کو نظر بند کرنے کی خبر سامنے آئی تو جیو نے شام سات بجے سے لے کر رات دس بجے تک یہ بات ثابت کرنے میں ایڑھی چوٹی کا زور لگا دیا کہ یہ نظر بندی دراصل امریکا یا بھارت کی فرمائش پر نہیں بلکہ دوست ملک چین کی فرمائش پر لگائی گئی تھی ۔ فوج کو ایبٹ آباد آپریشن سے ©”بری الذمہ“ قرار دینے کے لیے کتاب لکھ مارنے والے اس کے ایک با خبر ’رپورٹر‘ نے اس حوالے سے کم از کم تین دفعہ یہی بات کی۔ پھر شاہ زیب خانزادہ اپنے پروگرام میں تو یہاں تک چلے گئے کہ انہوں نے یہ اعلان بھی کر دیا کہ دفترِ خارجہ کا کوئی ترجمان ابھی اس بات کی تصدیق کرنے کے لیے ان کے ساتھ شریکِ پروگرام ہونے ہی والا ہے۔ لیکن دفترِ خارجہ تو کیا اس کے ’ان ہاوس‘ ماہرینِ خارجہ امور میں سے کوئی یہ بات کہنے کو تیار نہ ہوا تو پھر چڑیا والے نے اپنے پروگرام میں اس بیانیے سے مراجعت اختیار کر لی اور قوم کو تسلی دی کہ بس یہ ضابطے کی کارروائی ہے، اور اب بھارت سے ثبوت مانگے جائیں گے اور چوں کہ بھارت نے نہ پہلے کبھی ثبوت دئیے ہیں اور نہ ہی اب دے گا تو یوں حافظ صاحب عنقریب رہا ہو جائیں گے۔
اب ظاہر ہے کہ امریکا نے بھارت کا سواگت کرنے کے لیے کسی سطح سے تو یہ دباو¿ ڈلوایا ہو گا ، لیکن جیشِ محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کے حوالے سے آنے والے دباو کو چینی دوستوں کی مدد سے کم کرنے کی بجائے نہ جانے حافظ سعید کی دفعہ کیوں لیٹ جانے پر اکتفا کیا گیا؟ ہوسکتا ہے کچھ ایسی بات ہوجو ہمیں سمجھ نہ آ سکتی ہو؟
حافظ سعید صاحب کی یہ کوئی پہلی نظربندی نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی وہ کافی طویل عرصوں تک اس طرح کی نظربندیاں بھگتا چکے ہیں۔ اور ملک کی اعلیٰ ترین عدالتوں کی جانب سے بے گناہ قرار دینے پر رہا ہوئے تھے ۔ ہماری حافظ صاحب سے آخری ملاقات اسی طرح کی ایک نظر بندی کے دوران ان کے جوہر ٹاو¿ن کے گھر کے نزدیک واقع مسجد میں ہوئی تھی جہاں وہ’بندوقوں کے سائے میں‘ باجماعت نماز ادا کرنے تشریف لائے لیکن حافظ صاحب بھارت کی ایک چھیڑ بن چکے ہیں، اور بھارتی میڈیا ان کی وقتاً فوقتاً ایسی تیسی کرتا رہتا ہے۔ بھارتی میڈیا کو ایسا کرنا بھی چاہیے کیوں کہ حافظ صاحب کشمیر یوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں۔ لیکن اصل دکھ کی بات یہ ہے کہ اس مسئلے پر ہمارا میڈیا بھی بھارتیوں کا ہم نوا بن جاتا ہے اور وہ کشمیریوں کے حقوق کی بات کرنے والے کی مدافعت میں کوئی بات نہیں کرتا۔ اور تو اور حکمران لیگ کے ارکان بھی حافظ صاحب کے خلاف بھارتی زبان بولتے ہیں باوجود اس کے کہ حافظ صاحب کے سیاسی عزائم نہ ہونے کے باعث ان کے رضاکاروں کی غالب اکثریت تو ن لیگ کی ووٹر ہے۔
حافظ صاحب کی نظربندی کے فوراً بعد ایک طریقہ تو یہ ہے کہ پورا راشن پانی لے کر ”میاں نوازشریف کی نا اہل حکومت “کے سر پرسوار ہواجائے اور اپنی بغل میں لپیٹ کر رکھا گیا چموٹا نکال کر خوب خوب ان کی چھترول کی جائے کیوں کہ یہ ہیں ہی اس قابل، اور آج کل چوں کہ یہ ہم جیسوں کو منہ نہیں لگاتے ، تو یہ بات اور بھی ضروری ہے۔ اور یہ بیانیہ چیونگم کی طرح چباتے چلے جائیں کہ چوں کہ حافظ صاحب فوج کے حق میں کھلے عام ریلیوں کا انعقاد کرتے رہے ہیں ، اس لیے ہو نہ ہو یہ نواز حکومت نے فوج کو نیچا دکھانے کے لیے کیا ہے۔ویسے بھی پاناما قضیے میں کل اور آج کا ناغہ تھا تو ایسے میں ہم جیسے چموٹہ برداروں کے پاس ’آج‘ کے دال دلیا کے لیے کچھ تو ہونا چاہیے۔
لیکن اس سے پہلے اگر جان (اور سوشل میڈیا پر عزت کی بھی) امان مل جائے تو کیا یہ پوچھنے کی جسارت کی جا سکتی ہے کہ حافظ سعید صاحب اندرونِ ملک کن اداروں کا تزویراتی اثاثہ مانے جاتے ہیں۔ آپ کا جواب ہوسکتا ہے کہ بھائی یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے، یہ توگلی کے بچے بچے کو معلوم ہے۔
تو پھر کچھ ہم یاد دلاتے چلیں کہ جب حافظ صاحب اعلیٰ عدالتوں سے بے گناہ قرار پائے تھے تو اُس وقت انہوں نے ایک پریس کانفرنس کی تھی جس میں انہوں نے اعلان کیا تھا کہ چوں کہ ان پر پابندی کے حوالے سے یہ دباو¿ امریکا کی طرف سے آتا ہے ، اور اقوامِ متحدہ امریکا کی باندی بن چکی ہے، اس لیے وہ امریکا جاکر ، ان کی عدالتوں میں ایک مقدمہ دائر کریں گے جس میں وہ اپنی بے گناہی ثابت کریں گے۔ حافظ صاحب کی دیکھا دیکھی باجوڑ اور اس سے ملحقہ دیگر قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کی زد میں آنے والے کچھ قبائلیوں نے بھی امریکی عدالتوں میں جا کر مقدمے کرنے کا اعلان کر دیا۔ حافظ صاحب کو توہو سکتا ہے ’اعلیٰ کمان‘ نے یا پھر کمال سالارالدین صاحب نے سمجھا لیا ہو لیکن قبائلی چوں کہ پٹھان تھے، نہ سمجھ پائے اس لیے تو ان کو ’احتیاطاً غائب کر دیا گیا، اور آج تک اُس بندے کا سراغ نہیں مل پارہا جس نے اس بات کا اعلان کیا تھا۔
ظاہر ہے جو کولیشن سپورٹ فنڈ دیتے ہیں تووہ اس بات کی گارنٹی تو لیتے ہوں گے جو ’گند ‘ ہم تمہارے ملک میں ڈالیں گے اس کو اپنے ملک تک محدود رکھنا بھی تمہاری ہی ذمہ داری ہو گی۔ اگر کسی کو اس میں شک ہو توجنرل ریٹائرڈ شاہد عزیز صاحب کی کتاب ’یہ خاموشی کہاں تک‘ پڑھ لے ۔ کیا کتاب لکھی ہے اس فوجی زادے نے۔ اس لیے چموٹہ بازی میں تھوڑا سا وقفہ، اگر آپ معدے سے نہیں بلکہ دماغ سے سوچتے ہیں تو۔۔!!
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں