میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سچی خوشی اور اچھی آس

سچی خوشی اور اچھی آس

منتظم
جمعه, ۲۱ اکتوبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

shahid-a-khan

شاہد اے خان
کہتے ہیں جب تک سانس تب تک آس ، اور ہاں یہ بھی تو کہتے ہیں کہ امید پر دنیا قائم ہے۔ تو یہ آس یا امید زندگی کو گزارنے کے لیے بہت ضروری ہیں ،مطلب یہ ہوا کہ بندے کو خوش امید ہونا چاہیے ، اچھی آس رکھنی چاہیے اور خوش رہنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ میں نے کوشش کرنے کا لفظ استعمال کیا ہے یہ نہیں کہا کہ زبردستی خوش رہا جائے۔ ویسے زبردستی تو ناخوش بھی نہیں رہا جا سکتا۔ بات آس سے شروع ہوئی تھی اور خوشی تک پہنچ گئی ،آس کا تعلق خوشی سے بنتا تو ہے ، اب امید اچھی رکھی جائے گی تو نتیجہ اچھا نکلے گا اور اچھے نتیجے کے صلے میں جو کچھ ملے گا اس کو خوشی ہی کہا جائے گا۔ بہتری کی امید رکھنا یو ں بھی آسان ہے کہ اس میں کچھ خرچ نہیں ہوتا ، صرف یہی تو سوچنا ہے کہ جو بھی ہوگا اچھا ہی ہوگا۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ساون کے اندھے کی طرح ہر طرف ہرا ہرا ہی سجھائی دے۔ کام اچھا ہوگا تو انجام بھی اچھا ہوگا ، ورنہ تو مثل مشہور ہے جیسی کرنی ویسی بھرنی۔
اچھی یا اچھائی کی امید رکھنے کے بالکل الٹ ہے ناامیدی ،یہ کیا بات ہوئی کہ ذرا کسی معاملے میں نتیجہ اچھا نہیں آیا اور منہ بسور کر بیٹھ گئے۔کوشش کی نہیں اور تمام خرابی کا ذمہ دار حالات کو ٹہرا دیا۔ مشکلات آئیں تو گھبرا گئے ،مایوس ہو گئے۔ذرا سی تکلیف آئی اور پریشانی صورت سے ٹپکنے لگی۔ارے بھائی کیا آپ نے نہیں سنا کہ مایوسی کفر ہے۔تو بلا وجہ کفر کیوں کیا جائے۔آپ طالب علم ہیں ، امتحان ہوا، پاس نہ ہو سکے ، پاس ہوئے تو نمبر کم آئے ، لوڈ شیڈنگ نے پڑھائی میں رکاوٹ ڈالی ہو یا بیماری نے ، یا کسی گھریلو مسئلے نے نہ پڑھنے دیا ہو ، جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا ، اب اگر مایوس ہو کر بیٹھ گئے تو آئندہ کے امتحان سے بھی جائیں گے۔ امید رکھیں کہ اس بار آپ ضرور پاس ہو جائیں اور لگ جائیں پڑھائی میں ، نتیجہ دیکھیں گے تو ضرور خوش ہو جائیں گے۔
بات ہو رہی ہے اچھی امید رکھنے کی ، تو خوش امید لوگوں کے لیے خوش خبری یہ بھی ہے کہ ماہرین طب کے مطابق وہ مریض جو اپنی بیماری کے دوران خوش رہتے ہیں اور جلد صحت یاب ہونے کی امید رکھتے ہیں ان کے ٹھیک ہونے کے چانسز بڑھ جاتے ہیں ، اور ایسے مریض جو اپنی بیماری کو کوستے رہتے ہیں اور انہیں لگتا ہے کہ وہ ٹھیک نہیں ہوں گے انہیں در حقیقت صحت مند ہونے میں زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔اب آپ خود سوچ لیں کہ اپ جلد صحت یاب ہونا چاہتے ہیں یا دیر تک اسپتال کے بستر پر پڑے رہنا چاہتے ہیں۔
ویسے سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ایک بار ناکامی کے بعد اگلی بار کے لیے اچھی امید تو رکھ لی لیکن کیا اس سے سب ٹھیک ہو جائے گا۔یقینا خود بہ خود کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوگا ، آپ کو خوش امیدی کے ساتھ کچھ عملی کام بھی کرنے ہوں گے ، اس لیے ایک بار کی ناکامی کے بعد منہ بنانے کے بجائے سوچیں کہ راستے میں خرابی کہاں ہوئی ، کیا ایسا ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا ، اب دوبارہ سے پلان کریں غلطیوں کو سدھاریں اور لگ جائیں کام سے،اس بار نتیجہ ضرور آپ کے چہرے پر خوشی بکھیر دے گا ، کیونکہ سوچ بھلا ہو بھلا ،انت بھلے کا بھلا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں