میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کراچی کے شہری اور ایم کیو ایم قسط1

کراچی کے شہری اور ایم کیو ایم قسط1

ویب ڈیسک
جمعه, ۳ فروری ۲۰۱۷

شیئر کریں

کراچی کے مسائل روز بروز سنگین تر ہو رہے ہیں لیکن اسٹیک ہولڈرز ایک دوسرے پر ذمہ داریاں ڈالنے کے سوا کچھ نہیں کر رہے ۔ کراچی کا ماضی بڑا مثالی اور تابناک ہے ۔ ماضی میں اس شہر کی شناخت اس کی روشنیاں ، یہاں کی صفائی ، یہاں کا سکون ، یہاں کی تعلیم ، منصوبہ بندی اور ہر ایک کے لیے روزگار کے مواقع ہوا کرتی تھی ۔ یہ شہر انتہائی پُر کشش تہذیب و تمدن کا گہوارہ بھی تھا ۔ آج کے کراچی کی شناخت کیا ہے ، سردیوں میں بھی بد ترین لوڈ شیڈنگ ، بے ہنگم ٹریفک ، تباہ حال تعلیم ، گلی ، محلوں اور مین شاہراہوں پر بہتا سیوریج کا پانی ، پانی کے ٹینکرز ، رکشے ، گٹکے کے زہر سے آلودہ منہ والے لوگ ، گٹکے اور پان کی پیکوں سے رنگین فٹ پاتھیں ، کچرے کے ڈھیر ، شہریوں کو ہراساں کرتے ہوئے پولیس ناکے ، جاہلانہ انداز گفتگو ، گالم گلوچ ، چائنا کٹنگ ، پارکوں پر قبضہ ، ٹارگٹ کلنگ ، بھتے کی پرچیاں اور ناجائز تجاوزات وغیرہ وغیرہ ۔ کراچی کی شناختیں تبدیل ہو گئیں اس شہر پر بلا شرکت غیر مسلط رہنے والی سیاسی جماعت کے رہنماﺅں کو جب ہوش آیا تو پانی سر سے گزر چکا تھا اور اب ان کی جانب سے کراچی کے مسائل کو اُٹھانا بڑا مضحکہ خیز لگ رہا ہے ۔ جس شہر میں لوگ روزگار کے لیے آتے تھے آج وہاں کے مقامی لوگ غربت اور بے روزگاری کے تلخ ایام گزارنے پر مجبور ہیں ۔ کراچی والوں کے ساتھ یہ ہاتھ کیسے ہو گیا ؟ کراچی والوں کے دشمن جو نہ کر سکتے تھے وہ ان کے دوستوں نے کر دکھایا ۔ ایم کیو ایم کے قیام ، نشونما، عروج اور پھر زوال کی داستان بڑی سبق آموز ہے ۔ بد قسمت قوموں کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ تاریخ سے سبق نہیں سیکھتیں ۔ حکمران ، اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی و مذہبی قیادت سے لے کر عوام الناس تک کسی نے بھی سقوط ڈھاکاسے سبق نہیں سیکھا ۔ عوام آج بھی تعصب کی آواز کو پذیرائی دے رہے ہیں ، آج بھی الیکشن میں ووٹوں کی بھاری تعداد لسانی ، نسلی ، علاقائی اور مذہبی تعصبات کی بنیاد پر کاسٹ ہوتی ہے ۔ وطن عزیز میں صورتحال یہ ہے کہ ان تعصبات کی وجہ سے قومی جماعتیں، علاقائی اور صوبائی جماعتیں بن چکی ہیں ۔ اسی طرح آج بھی سیاسی و مذہبی جماعتیں کارکردگی اور نظریات کے بجائے تعصبات کو استعمال کر کے خود کو بر قرار رکھے ہوئے ہیں ۔ آج بھی ریاستی پالیسیوں میں تعصبات کے رنگ جھلکتے ہیں ، اسٹیبلشمنٹ آج بھی لسانی و مذہبی اکائیوں کے ساتھ منصفانہ سلوک کا اظہار نہیں کر رہی ۔
ایم کیو ایم بنیادی طور پر رد عمل کی پیدا وار ہے اور رد عمل کی تحریکیں شاذ و نادر ہی مثبت اور تعمیری رخ پر بر قرار رہ پاتی ہیں ۔ تعصب ، نفرت ، تخریب ، جذباتیت اور سطحیت گویا انکے خمیر میں شامل ہوتا ہے ۔ ایم کیو ایم کا مقصد مہاجروں کے حقوق کا حصول تھا ۔ حقوق کی بنیاد پر اُٹھنے والی کوئی تحریک اس وقت تک زور نہیں پکڑ سکتی جب تک کہ اس کی لیڈر شپ اپنے مخاطبین میں محرومیوں کا احساس نہ پیدا کردے اور یہ ثابت نہ کردے کہ تم پر بڑے ظلم ڈھائے جا رہے ہیں اور تمہارے تمام حقوق سلب کر لیے گئے ہیں ۔ ایم کیو ایم جس نے طلبہ تنظیم اے پی ایم ایس او کے بطن سے جنم لیا تھا ۔ ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین نے اپنی کتاب سفر زندگی میں اس طلبہ تنظیم کے قیام کا پس منظر یہی بتایا ہے کہ جب وہ کراچی یو نیورسٹی میں داخل ہوئے تو وہاں پنجابی ، سندھی اور پختون طلباءتنظیمیں نظر آئیں چناچہ انھیں مہاجر شناخت رکھنے والی طلباءتنظیم کی کمی کا احساس ہوا جو انھوں نے پوری کی ۔ اور ظاہر ہے جب لسانی بنیاد کی شناخت پر کوئی تنظیم بنے گی تو اس کی قیادت کا ذہن ان محرومیوں کو تلاش کرنے کے لیے سرگرداں ہوگا جو اس لسانی گروہ میں پائی جا رہی ہیں ۔ ایسا ہی ہوا الطاف حسین کی ذہانت اور ان کی تنظیمی صلاحیتوں کا زبردست ٹیلنٹ کام آیا، محرومیوں کی ایک طویل فہرست بھی بن گئی اور ان محرومیوں کو محسوس کرنے والے نوجوانوں کی ایک ٹیم بھی تیار ہونے لگی ۔
اللہ کی اس دنیا میں ہر ایک کو محرومیوں کے ساتھ زندگی گزارنا ہوتی ہے خواہ وہ مطلق العنان قسم کا بادشاہ کیوں نہ ہو اور خواہ وہ دنیا کو ورلڈ آڈر دینے والی طاقتور قوم کیوںنہ ہو اسی لیے غالب نے کہا تھا
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
افراد کا معاملہ بھی یہی ہے اور گروہوں کا معاملہ بھی اس سے مختلف نہیں ارمان اور خواہشیںجتنی پوری کر لی جائیں مزید سر اُٹھا کر کھڑی ہوتی ہیں ۔ خواہشات کی تکمیل کا بس ایک مقام ہے اور وہ ہے جنت جہاں انسانوں کا رب اپنے بندوں سے پوچھے گا ،ہاں بھئی !کچھ اور بھی چاہئے؟ تو بندے کہیں گے: یا اللہ اب تو ہماری ہر خواہش پوری ہو چکی اب ہمیں مزید کسی چیز کی ضرورت نہیں ۔ لیکن اس دنیا کی بناوٹ ہی ایسی ہے اس میں بہت کچھ ملنے کے بعد بھی محرومیاں بر قرار رہتی ہیں ۔ محرومیاں طاقت بھی بنتی ہیں اور محرومیاں کمزور ی بھی بن جاتی ہیں۔ یہ معاملہ قوموں کی قیادت پر منحصر ہوتا ہے ، حقیقی قیادت محرومیوں کو بنیاد بنا کر نفرت اور تعصبات پیدا کرنے کے بجائے احساس ذمہ داری پیدا کرتی ہے اور محرومیوں کے ازالے کے لیے مثبت اور تعمیری کاموں میں اپنے لوگوں کو لگا ڈالتی ہے، ایسی قیادت دوسروں کی شکایت کا رونا نہیں روتیں بلکہ اپنے گریبان میں جھانکنے کی بات کرتی ہے ۔وہ قوم کو بزدلی نہیں بہادری سکھاتی ہے، انھیں مایوس نہیں کرتی ان میں عزم پیدا کرتی ہے۔ وہ یہ نہیں کہتی کہ تم اپنا حق چھین لو وہ کہتی ہے کہ تم بس اہلیت پیدا کرو زیادہ دیر تک تمہارا حق کوئی نہیں مار سکتا ۔ ( جاری ہے )
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں