الزامات کی سیاست ترک کرکے ڈائیلاگ کا راستہ نکالا جائے!
شیئر کریں
وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں اپنی زیر صدارت اجلاس میں ملک میں آئندہ کسی بھی قسم کے انتشار و فساد کی کوشش کو روکنے کیلئے وفاقی انسداد فسادات (Riots Control) فورس بنانے کا فیصلہ کیا۔اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ انسداد فسادات فورس کو بین الاقوامی معیار کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور سازو سامان سے لیس کیا جائے گا۔ اجلاس میں وفاقی فورینزک لیب کے قیام کی منظوری بھی دی گئی۔ وفاقی فورینزک لیب میں ایسے واقعات کی تحقیقات و شواہد اکٹھا کرنے کیلئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال یقینی بنایا جائے گا۔ اسلام آباد سیف سٹی منصوبے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس میں وفاقی پراسیکیوشن سروس کو مضبوط کرنے اور افرادی قوت بڑھانے کے حوالے سے بھی فیصلہ کیا گیا۔
شہباز شریف نے اعلان کیا ہے کہ کسی کو بھی پاکستان کے مفادات اور ترجیحات سے کھیلنے نہیں دیا جاسکتا محاذ آرائی سے ملک، معاشرے اور انسانیت کے ساتھ سیاست اور سیاسی جماعتوں کو بھی نقصان ہوتا ہے، ملک کے مفادات کا تحفظ یقینی طورپر حکومت وقت کی ذمہ داری ہوتی ہے اس اعتبار سے شہباز شریفک کا یہ اعلان کہ کسی کو ملکی مفادات سے کھیلنے نہیں دیاجائے گا اپنی ذمہ داریوں کا اعادہ ہے اور اس حوالے سے کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا لیکن ملک میں قانون نافذ کرنے والے بیشمار اداروں کی موجودگی میں جن کے سربراہ ملکی خزانے سے بھاری تنخواہیں او ر مراعات ھاصل کررہے ہیں ایک نئی فورس کے قیام کے فیصلے سے ظاہرہوتاہے کہ ملک میں امن وامان قائم رکھنے کیلئے موجود فورسز اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہے ہیں یا اس ذمہ داری کو پورا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔اگر صورت حال یہی ہے تو وزیر اعظم کو ایک نئی فورس قائم کرنے کے بجائے ملک کی موجودہ فورسز کے سربراہوں سے ان کی ناکامی کا جواب طلب کرنا چاہئے اور ملک کے قیمتی وسائل ایک نئی فورس کی پرورش پر خرچ کرنے کے بجائے موجودہ فورسز کی کارکردگی بہتر بنانے کیلئے انتظامی اور تکنیکی تبدیلیاں کرنے پر توجہ دینی چاہئے۔حقیقت یہ ہے کہ آجکل الزام تراشی اور ملبہ منتقلی کا کھیل جاری ہے،اپوزیشن ساری خرابیوں کا ذمہ دار حکومت کو اور حکومت اپوزیشن کو قرار دے رہی ہے، شہباز شریف نے دعویٰ کیا ہے کہ جب جب ملک ترقی کی منازل طے کرنے لگتا ہے شر پسند عناصر ملک بھر میں جلاؤ گھیراؤ شروع کر دیتے ہیں۔ یہ وہ جملہ ہے جو پاکستانی قوم گزشتہ نصف صدی سے سنتی آرہی ہے، نواز شریف، بے نظیر، پرویزمشرف، عمران خان اور اب شہباز شریف، یہ سب یہی کہتے آرہے ہیں۔ ملکی ترقی، ملک ترقی کررہا ہے، ہم ملک کو ترقی دے رہے تھے کہ اپوزیشن نے فساد کردیا، تاہم یہ جملہ دہراتے ہوئے شہباز نے یہ حقیقت نظر انداز کردی کہ اب دنیا سکڑ کر لوگوں کے ہاتھ میں آگئی ہے۔ ایک لمحے میں پتہ چل جاتا ہے کہ جلاؤ گھیراؤ اور حکومتوں کی تبدیلی سے کہیں ترقی نہیں رُکتی، 2برس قبل فرانس میں مہینہ بھر احتجاج، جلاؤ گھیراؤ رہا اس کی ترقی تو نہیں رُکی، امریکہ میں بھی 9 مئی ہوا تھا جسے6 جنوری کہتے ہیں، مقدمات بھی بنے لیکن بائیڈن آئے اور گئے ٹرمپ پھر آگئے کسی نے ترقی رُکنے کا الزام دوسرے پر نہیں لگایا۔ یہ نالائقی اور نااہلی کا اعتراف ہے کہ کسی کے جلسے جلوس سے ترقی رُک جاتی ہے ملک کی اولین ترجیح امن وامان ہے اور ملک میں مسلسل امن وامان خراب ہے، تو امن وامان ٹھیک کب رہتا ہے، اس ملکی ترجیح سے یہ حکمران اور اپوزیشن، اپنی اپنی باری میں کھیلتے ہیں۔ اسی طرح ملکی ترقی ہے، وزیر اعظم یہ نہیں بتاسکے کہ پاکستان ترقی کب کررہا تھا اور ملک ترقی پہلے کررہا تھا یا اب کہ جلاو گھیراؤ کی وجہ سے ترقی رک گئی، اس سے برا کھیل ملکی ترجیحات اور مفادات سے کوئی اور نہیں ہوسکتا، مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی، فوجی حکمران، فوجی چھتری والے حکمران سب ہی مبینہ طورپر ملکی مفادات اور ترجیحات سے کھیلتے رہے ہیں یا اس کے نام پر سیاست کرتے رہے ہیں،لیکن جب یہ لوگ برسراقتدار ہوتے ہیں تو یہ بات بھول جاتے ہیں کہ دستورِ پاکستان میں مملکت کے ہر شہری کو آزادانہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا حق بھی دیا گیا ہے، اس حق کے تحت ماضی میں موجودہ حکمران نواز لیگ اور پیپلز پارٹی جلسے کرتی اور جلوس نکالتی رہی ہیں۔ تحریکِ نجات کی ہڑتال، چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے لیے اسلام آباد کی جانب میاں نوازشریف کا مارچ، مہنگائی مارچ اور بے شمار دوسرے جلسے جلوس اس کی مثال ہیں، مگر آج ان دونوں جماعتوں کے مشترکہ اقتدار میں تحریک انصاف نے 24 نومبر کو اسلام آباد میں پُرامن احتجاج کا اعلان کیا تو حکومت نے اس کی اجازت دینے سے صاف انکار کردیا۔ کون سی پابندی ہے جو عائد نہیں کی گئی، اور کون سا حربہ ہے جو اس احتجاج کو روکنے کے لیے آزمایا نہیں گیا؟ حالانکہ پُرامن احتجاج ہر سیاسی جماعت کا آئینی و قانونی حق ہے، مگر فارم 47 کی پیداوار موجودہ نام نہاد جمہوری حکومت نے دفعہ 144 نافذ کرکے پولیس کی بھاری نفری صرف اسلام آباد ہی نہیں پورے ملک میں سڑکوں پر بٹھا دی۔ رینجرز کے دستے بھی قبل از وقت ہی طلب کرلیے گئے، آخر میں دفعہ 245 کو بلاجواز روبہ عمل لا کر فوج بھی بلالی گئی، انٹرنیٹ اور سماجی روابط کے ذرائع کی بندش کا حربہ بھی آزمایا گیا۔ تمام اخلاقی اقدار کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وزرائے کرام نے تحریک انصاف کے احتجاجی کارکنوں کو فتنہ خوارج کا حصہ، دہشت گرد، انتشاری اور نہ جانے کیا کیا نام دیے۔ تحریک انصاف کے ارکانِ اسمبلی اور کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مار کر جو قابومیں آیا، پکڑ لیا گیا۔ احتجاج کو سختی سے کچل دینے کی دھمکیاں بھی دی گئیں، جو سب گیدڑ بھبکیاں ثابت ہوئیں۔ پورے ملک خصوصاً پنجاب اور صوبہ خیبر کے تمام راستوں پر کنٹینر کھڑے کرکے عام لوگوں کی آمدورفت بھی ناممکن بنادی گئی۔ موٹرویز اور ریلوے سروس تک بند کرکے عوام کو اذیت سے دوچار کرنے کی تمام حدیں حکمرانوں نے عبور کرلیں اور وزراء نہایت ڈھٹائی سے یہ دعوے کرتے رہے کہ لوگ احتجاج کے لیے گھروں سے نہیں نکلے اور تحریک انصاف کی کال عوام نے مسترد کردی ہے، مگر جب ہزاروں لوگ تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے اسلام آباد میں داخل ہوگئے تو وزراکے پاس منہ چھپانے اور بغلیں جھانکنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔اس صورت حال میں اپنی جھینپ مٹانے کیلئے رات کے اندھیرے میں لائٹ آف کرکے جو کھیل کھیلاگیا وہ پوری دنیا کے سامنے آچکا ہے لیکن حکومت اس سے انکاری ہے ۔
درحقیقت ہمارے ہاں ہوتا یہ ہے کہ مخالف کو ہر صورت اگر جیل میں رکھنا مقصود ہو تو اْس کی ایک مقدمے میں ضمانت کے بعد دوسرے مقدمے میں گرفتاری ڈال دی جاتی ہے۔ نئے مقدمات ایسے بنائے جاتے ہیں جیسے گرفتار شخص دنیا کا سب سے بڑا جرائم پیشہ شخص ہو۔ اور پھر اگر کسی کو گرفتار کر لیا گیا ہے تو تمام مقدمات یا دفعات اْسی روز شامل کرلی جاتی ہیں، ایسا کیوں کیا جاتا ہے کہ جیل کے اندر بیٹھے
شخص پر نئے مقدمات درج کر دیے جاتے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ جیل میں بیٹھ کر اْس نے کونسا کرائم کر لیا ہے؟ یہ تو سیاسی لوگ ہیں، سیاست ہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے، ہم سمجھتے ہیں اگر ملک کو بچانا ہے تویہ رویہ تبدیل کرنا پڑے گا اپنے آئین کی حفاظت کے لیے ‘‘نظریہ ضرورت’’ کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنا ہوگا۔ اسی نظریے کے تحت یہ اپنا سب کچھ قربان کر بیٹھتے ہیں۔ ہم آئین کے ساتھ ایسی چھیڑ چھاڑ کر لیتے ہیں بعد میں جس پر پچھتانا پڑتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکمراں اور اپوزیشن دونوں ہی کے رہنما اپنی انا کے گنبد بے در سے نکلیں، ملک کو مذاق نہ سمجھیں اور اس ڈیڈ لاک کا حل نکالیں جو ہمارے پورے وجود کو اندر ہی اندر سے کمزور کررہا ہے۔ جب ملک کے اندر اتنی دوریاں، دراڑیں، فاصلے اور اختلافات ہوتے ہیں اور ان کا حل نکالنے کی بجائے طاقت یا ضد سے کام لیا جاتا ہے تو اسلام آباد کے ڈی چوک پر جو ہوا، اس سے بچا نہیں جا سکتا۔ ریاستی اختیارات سے تحریک انصاف کی کوشش ناکام ہو گئی اور مظاہرین ڈی چوک پر دھرنا نہیں دے سکے یہ ایک فطری بات ہے کہ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے، کامیابی کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں رہتی، ناکامی ہو جائے تو پھر عذر تلاش کئے جاتے ہیں اور اب یہی ہو رہا ہے۔ اب اس پر باتیں،قیاس آرائیاں، الزام تراشیاں، صفائیاں اور نجانے کیا کیا کچھ ہوتا رہے گا۔بہرحال چاہے اصل حقائق سامنے نہ آئیں، چاہے یہ معلوم نہ ہو کوئی اس رات مرا یا نہیں، چاہے یہ فیصلہ نہ ہو کہ اپنی بڑی مشق کے باوجود بھی لوگوں کو اسلام آباد داخلے سے کیوں نہ روکا جا سکا، گولیاں چلیں یا پٹاخے چھوڑے گئے، لائٹ خود چلی گئی یا بند کر ائی گئی۔ کچھ بھی سامنے نہ آئے تو بھی اس واقعہ سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ 26نومبر رات ڈی چوک میں کچھ نہ کچھ تو ہوا تھا۔ اب تو یوں لگتا ہے ہم اپنے دشمن آپ بن گئے ہیں ایک ہی ملک کے ادارے اور عوام بھلا ایک دوسرے کے سامنے کیسے آ سکتے ہیں۔ ایسی نوبت آئے ہی کیوں کہ ہم دنیا کے لئے ایک تماشا بن جائیں۔ ایسے واقعات میں کسی کی ہار یا کسی کی جیت نہیں ہوتی بلکہ ملک ہار جاتا ہے، قوم ہار جاتی ہے۔ وزراکو تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ایسے بیانات بھلا کون دیتا ہے کہ گولیوں کی بوچھاڑ ہوئی تو یہ سب بھاگ جائیں گے۔اس میں انوکھی بات کیا ہے۔ گولیوں کی بوچھاڑ سے تو سبھی بھاگ جاتے ہیں۔ گولیوں سے حاصل ہونے والی فتح نہ پائیدار ہوتی ہے اور نہ فتح کے زمرے میں آتی ہے۔سوال یہ ہے ہماری سیاست میں یہ رویے کہاں سے آ گئے ہیں۔پاکستان کی تاریخ میں بڑی بڑی تحریکیں چلائی گئی ہیں۔ ایوب خان کے خلاف بڑی تحریک چلی، جس کے بارے میں کہتے رہے ہیں بھٹو اس کے ہیرو تھے، پھر ضیا الحق کے خلاف تحریکیں چلیں، اس کے بعد پرویز مشرف کا دور آیا تو سیاسی قوتیں اپنا کام دکھاتی رہیں، درمیان میں کبھی بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف دیگر جماعتیں کمربستہ ہوئیں تو پھر نوازشریف کے خلاف بے نظیر بھٹو نے سیاسی جماعتوں کا اتحاد بنا کر تحریک چلائی، غرض یہ کوئی انہونی بات نہیں کہ ہم اچانک یہ سوچنے لگیں، ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ دھرنے بھی ہوتے رہے، جلسے اور ریلیاں بھی نکلتی رہیں۔ لانگ مارچوں کی روایت بھی پڑی، یہ سب کچھ ہوتا رہا اور ہمارے سیاسی نظام نے اسے معمول سمجھ کے قبول کرلیا۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے سیاسی قوتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان رابطے اور مذاکرات بھی ہوتے رہے، یعنی راہیں نکلتی رہیں۔ ملک چلتا رہا، نظام آگے بڑھتا رہا۔ پاکستان کیلئے اندرونی استحکام انتہائی ضروری ہے اور اِسی مقصد کے پیش نظر ہم نے ہمیشہ قومی مفاہمت کی حمایت کی کہ ملک معاشی طور پر بھی خطرات میں گھرا ہوا ہے، قرضوں کا بوجھ اتنا ہے کہ اتارتے اتارتے عمریں گذر جائیں گی،اس پریشانی کا حل تو یہ ہے کہ ملک کے اندر سیاسی استحکام ہو،امن ہو جس کی بنیاد پر معاشی استحکام آئے۔ ملکی اتفاق رائے ترقی کے ذریعے زیادہ پیدا ہو سکتا ہے ہر کوئی مانتا ہے کہ ملک معدنی وسائل سے مالا مال ہے، بدقسمتی ہے کہ ہم ان وسائل سے فائدہ حاصل نہیں کر پا رہے اس کی وجہ باہمی محاذ آرائی ہے اگر یکسوئی سے درست جمہوری انداز اور روایات کو اپنا لیا جائے تو دہشت گردی اور در اندازی سے بھی نمٹا جا سکتا ہے ملک کے اندر جب امن ہو گا تو جرائم پر بھی قابو پا لیا جائے گا، سیاسی محاذ آرائی ہی کی وجہ سے جرائم کی شرح بھی بڑھ جاتی ہے اِس لئے یہ بھی ایک پہلو ہے جو باہمی جمہوری تعلقات کی ضرورت کا احساس دلاتا ہے۔محاذ آرائی نقصان دہ ہے، قوم اور ملک کی خاطر سوچنے والے حضرات متفق ہیں کہ سیاسی محاذ آرائی کی جنگ معاشی طور پر بھی نقصان دہ ہے اس لئے بہتر عمل یہی ہے کہ بلیم گیم ترک کرکے ڈائیلاگ کا راستہ نکالا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔