میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
امریکہ :کیسا صلہ دیا تو نے میرے پیار کا

امریکہ :کیسا صلہ دیا تو نے میرے پیار کا

ویب ڈیسک
هفته, ۲ دسمبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

ڈاکٹر سلیم خان

چین اور امریکہ فی الحال دو سُپر پاور ہیں ۔ دنیا کی تقریباً 40 فیصد اشیاء اور خدمات کا کاروبار انہیں کے قبضے میں ہے ۔ ان کے درمیان دوطرفہ تعلقات وزیر اعظم نریندر مودی کے چہیتے دوست سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دور میں خراب ہوگئے تھے ۔انہوں نے چین کے حق میں بھاری تجارتی خسارے پر ٹیکس لگایا جسے بائیڈن انتظامیہ نے چینی ٹیک کمپنیوں پر پابندیاں عائد کرکے جاری رکھا ۔ اس معاشی جنگ پر قابو پانے کے لیے چینی صدر چھ سال میں اپنے پہلے دورے پر امریکہ پہنچ گئے تاکہ تجارت کے ساتھ جنوبی چین کے سمندر میں عسکری غلبہ اورتائیوان کا مسئلہ گفتگو کر سکیں ۔ امریکہ نے قواڈ نامی اتحاد بناکر ہندوستان، جاپان ، آسٹریلیا اور فرانس کو بحیرہ جنوبی چین میں اپنی نقل و حرکت بڑھا دی جس سے بیجنگ امریکہ سمیت اس کے سارے حلیفوں سے ناراض ہوگیا۔ امریکہ اور چین کا عسکری مفاد تائیوان سے بھی وابستہ ہے ۔ تائیوان چونکہ امریکہ کے لیے مائیکرو چپس کا بڑا سپلائرہے اس لیے واشنگٹن سفارتی تعلقات کی عدم موجودگی کے باوجود اس جزیرے کی تحفظ و سلامتی کے لیے ہتھیار فراہم کرتا ہے ۔ گزشتہ اگست میں امریکی ایوان نمائندگان کی سابق اسپیکر نینسی پیلوسی نے تائیوان کا دورہ کیا تو چین نے اسے اپنی خودمختاری میں خلل اندازی قرار دے کر امریکہ کے ساتھ فوج سے فوج کے مواصلات کامعاہدہ معطل کردیا ۔ امریکی انتظامیہ اس کو پھر سے بحال کرنے اوراسرائیلـغزہ یا روسـیوکرین جنگوں کی توسیع کو روکنے کا خواہشمند ہے ۔
امریکہ کے اندر چین کے تعلق سے جاسوسی اور منشیات کی فراہمی پر بھی شدید اختلافات ہیں۔ TikTok اور Huawei پر چینی کمپنیوں پر واشنگٹن جاسوسی کا الزام لگا چکا ہے ۔امسال فروری میں انٹیلی جنس اکٹھا کرنے کا الزام لگا کر امریکہ نے چینی غبارے گرادئیے جبکہ چین نے غباروں کے نگرانی کے مقاصد سے اڑانے کی تردید کی تھی۔ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں میں چینی ٹیک کمپنیوں کے خلاف شکوک و شبہات میں اضافہ ہورہاہے ۔ واشنگٹن چونکہ فوجی ایپلی کیشنز والی ٹیکنالوجیز کو نشانہ بنانا چاہتا ہے اس لیے وہ چینی چپ فرموں پر پابندیاں نہیں اٹھا سکتا۔ اس کے علاوہ فینٹی نائل نامی نشہ آور دوا نے امریکہ کے اندر بحران پیدا کررکھا ہے ۔ اس بابت واشنگٹن نے بیجنگ پر الزام لگایا ہے کہ وہ اس کی سپلائی کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہا ہے ۔ پچھلے مہینے ، بائیڈن انتظامیہ نے منشیات کی غیر قانونی تجارت میں ملوث چینی کمپنیوں کے خلاف پابندیاں بڑھا دی تھیں۔ امریکی صدر کے لیے بیجنگ پر نرمی ظاہر کیے بغیر کشیدگی کو کم کرنا بڑی آزمائش ہے کیونکہ انتخابی سال میں بائیڈن کی مخالف ریپبلکن پارٹی چین کو امریکہ کے لیے سب سے بڑا خطرہ بتاتی ہے ۔ چین سے قربت امریکی عوام کے مفاد میں ہو تب بھی بائیڈن کے لیے نقصان دہ ہے ۔ چینی سربراہ شی جن پنگ پراپنی رکی ہوئی معاشی ترقی کی بحالی کے لیے دباؤ ہے ۔ انہیں سالانہ APEC فورم سے توقع ہے کہ چینی کمپنیوں کو تجارت اور سرمایہ کاری کے مواقع ملیں گے ۔
تائیوان میں دو ماہ کے اندر انتخابات ہونے والے ہیں اس لیے بیجنگ اور واشنگٹن دونوں کی ان پر گہری نظر ہے ۔ انتخابی میدان میں سرکردہ امیدوار اورامریکہ کی پسند موجودہ نائب صدرکو چین نے "علیحدگی پسند قرار دے دیا ہے جبکہ چین نواز حزب اختلاف کا رہنما تیسرے نمبر پر ہے ۔تائیوان کی ٹیک کمپنی Foxconn کے بانی ٹیری گو آزاد امیدوار کے طور پر صدارتی انتخابات کے لیے میدان میں ہیں ۔ ، ایپل کے اس بڑے سپلائر کی حوصلہ شکنی کے لیے چین نے ان کے خلاف ٹیکس کی تفتیش شروع کردی ہے ۔اس طرح امریکہ اور چین آمنے سامنے ہیں۔ موجودہ عالمی تناظر میں یہ ناممکن ہے کہ شی اور بائیڈن اسرائیل غزہ جنگ اور روس یوکرین تنازع پر بات چیت نہ کریں ۔یوکرین میں جہاں امریکہ کھلے عام روس کا مخالف ہے ، چین نے ماسکو کے حملے کی مذمت نہیں کی۔فلسطین کے معاملے میں امریکہ نے اسرائیل کا بھرپور ساتھ دیا جب کہ چین نے فلسطینیوں کی بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے پیش نظر جنگ بندی پر زور دے رہا ہے ۔ ایران سے چین تیل خریدتا ہے ۔ چین کی مدد سے امریکہ اس کے اتحادی تہران کے ذریعہ حزب اللہ کو جنگ شمولیت سے روکنا چاہتا ہے ۔اپنے اس مقصد میں امریکی صدر کس قدر کامیاب ہوسکیں گے یہ کہنا مشکل ہے ۔ امریکہ کو مشرق وسطیٰ کی سفارت کاری کا تجربہ چین سے کہیں زیادہ ہے مگر وہ امریکی خوشنودی کے لیے اپنے علاقائی مفادات کو داوں پر لگائے ا س کی امید بہت کم ہے ۔
وزیر اعظم نریندر مودی اور چین کے صدر شی جن پنگ ویسے تو ایک دوسرے کے دوست ہیں اوراحمد آباد میں ایک ساتھ جھولا بھی جھول چکے ہیں لیکن دونوں کا مزاج بالکل متضاد ہے ۔ مودی جی کی طرح شی جن پنگ کوسرکاری خرچ پر سیر و سیاحت کا شوق نہیں ہے ۔ انہوں نے اس سال صرف تین غیر ملکی دورے کیے ۔یوکرین تنازع کے پیش نظر پہلے روس گئے اورپھر برکس اجلاس کے لیے جنوبی افریقہ کا دورہ کیا۔ اب تیسرا دورہ امریکہ کا کیا۔ امریکہ میں جاکر انہوں نے ببانگِ دہل کہہ دیا کہ چین نے کبھی کسی ملک کی ایک انچ زمین پر قبضہ نہیں کیا اور نہ ہی ہم نے کبھی کوئی جنگ شروع کی، حالانکہ یہ دونوں باتیں غلط ہیں مگر اس میں کوئی جھجھک یا ابہام نہیں تھا۔ مودی جی کی مانند اپنے غیر ملکی دورے پر وہ رقص و سرود کی محفل سجا کرغیر مقیم ہندوستانیوں سے خطاب نہیں کرتے ۔ ایسا کرنا تو جمہوریت نوازٹرمپ اور مودی کی مجبوری ہوتی ہے جو کبھی’ ہاوڈی مودی’ اور کبھی’ نمستے ٹرمپ’ جیسے ناٹک کرتے ہیں ۔ شی چونکہ تقریباًتاحیات سربراہ بن گئے ہیں اس لیے یہ ان کی سیاسی ضرورت نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بائیڈن کوانہیں ایک ‘ڈکٹیٹر’کہنا پڑتا ہے ۔ بائیڈن نے کہا تھا ‘وہ ایک آمر ہی ہیں کیونکہ وہ ایک کمیونسٹ ملک چلاتے ہیں۔ وہ طرز حکومت ہم سے بہت مختلف ہے ‘۔
جن شی پنگ کی اس کو کوئی پروا نہیں ۔ ان کو اعتراف ہے کہ ”ہمارا ملک امریکہ سے مختلف ہے لیکن ہم اس فرق کے باوجود ساتھ رہ سکتے ہیں۔زمین اتنی بڑی ہے کہ دونوں سپر پاور یہاں رہ سکتی ہیں۔ چین اور امریکہ جیسے دو بڑے ممالک کا ایک دوسرے سے منہ موڑکر تصادم کی راہ اختیار کرنا خطرناک نتائج نکال سکتاہے ”۔ جن پنگ کے اس بے باکانہ اظہارِ خیال کا امریکی صدر جو بائیڈن پر کوئی منفی اثر نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایک دوسرے کو واضح طور پر سمجھتے ہیں تاکہ کوئی غلط فہمی یا رابطے کا فاصلہ نہ ہو۔ اس کے ساتھ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمیں مسابقت کو تصادم میں بدلنے سے روکنے کو یقینی بنانا ہو گا ۔ دنیا کی دو بڑی طاقتیں اس طرح اختلاف پر اتفاق کرکے ایک دوسرے سے تعاون پر آمادہ ہوجائیں تو اس ایک اچھی فضا بن سکتی ہے ۔ فی الحال عالمِ انسانیت کو سرد جنگ کی نہیں امن و سلامتی کے لیے سرگرم ِ عمل ہونے کی ضرورت ہے ۔ سان فرانسسکو کے اجلاس اور ملاقات میں دونوں رہنماؤں کے درمیان معاشی مسابقت اور عالمی سلامتی کے لیے خطرات کے حوالے اختلافات ختم تو نہیں ہوئے مگر اس پراتفاق ہوا کہ اگر دونوں رہنماؤں میں سے کسی کو بھی کوئی بات کھٹکے تو وہ ٹیلی فون اٹھائیں اور ایک دوسرے کو کال کریں اور ایک باہمی گفت و شنید کے دروازے کھلے رہیں ۔ اپنی اخباری کانفرنس میں جو بائیڈن نے اسے ایک اہم پیش رفت قرار دیا ۔
چینی سربراہ کا یہ حالیہ دورۂ امریکہ چونکہ یوکرین یا فلسطین سے متعلق نہیں تھا اس لیے وہاں امن کی بحالی کے حوالے سے کوئی اہم پیش رفت نہیں ہوسکی حالانکہ سان فرانسسکوکے دوران اجتماع غزہ کی حمایت میں ایک بہت بڑا مظاہرہ ضرور ہوا۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ پس پردہ چینی سربراہ نے امریکی صدر کو اسرائیل کی اندھی حمایت سے منع کیا ہوگا مگر باہمی اختلاف کے سبب اس کو ذرائع ابلاغ میں لانے گریز کیا گیا ۔چین فی الحال دوہری پالیسی پر عمل کررہا ہے ۔ ایک طرف تو وہ امریکہ سے مفاہمت کی کوشش کرتا ہے اور دوسری جانب اس کے عالمی تسلط کو کم کرنے کی سعی کرتا ہے ۔ اس کی سب سے بڑی مثال ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو بحال کرنے کی سفارتکاری ہے ۔ ایران اور امریکہ دونوں ایک دوسرے کو اپنا اپنا دشمن نمبر ایک کہتے ہیں۔ ایسے میں سعودی عرب کے ساتھ گہرے تعلقات مشرق وسطیٰ میں امریکی برتری قائم رکھنے کا سب سے بڑاا وسیلہ تھا لیکن چین نے اسی کے اندر سیندھ لگا دی ۔
سعودی عرب اور ایران کا باہمی اتحاد و اتفاق خطے کی مجموعی ترقی کے لیے بے حد معاون ومددگار ہے مگر امریکی مفادات کے خلاف ہے۔ چین نے ماضی کے ان دشمنوں کو قریب لانے کے لیے خفیہ ثالثی کرکے امریکی سفارتی حکمرانی کادھڑن تختہ کر دیا۔ اس سے سیاسی’ معاشی اور اقتصادی لحاظ سے دنیا کے نہایت اہم خطے میں امریکہ کی چودھراہٹ پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگ گیا۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے بلکہ چینی صدر ‘شی جن پنگ’ اس کو جی ایس آئی (Global Security Initiative) کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔امسال اپریل میں سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود اور ان کے ایرانی ہم منصب حسین امیر کی چین کے دارالحکومت بیجنگ میں ملاقات ہوئی جس کے نتیجے میں دونوں ممالک نے سفارتی’ تجارتی اور دیگر روابط کی بحالی کے معاہدے پر دستخط کیے گئے ۔ غزہ میں حالیہ تصادم کے بعد ایرانی وزیر خارجہ نے سعودی عرب کا دورہ بھی کیا اور تینوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید بہتر ہوئے جو اسرائیل اور امریکہ کے لیے تو بری خبر ہے مگر فلسطین اور مسلم دنیا میں ایک خوش آئند مستقبل کی نوید ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں