میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بحران کا خاتمہ اور خوشحالی کا سفر کیسے ؟

بحران کا خاتمہ اور خوشحالی کا سفر کیسے ؟

ویب ڈیسک
هفته, ۲ نومبر ۲۰۲۴

شیئر کریں

رفیق پٹیل

پا کستان کی ترقّی اور خوشحالی اسی صورت میں ممکن ہے جب مہنگائی کاخاتمہ ہو، بجلی کی قیمت میں کمی ہو،عوام کے لیے روزگار کی فراہمی ہو، کاروبار کے لیے سہولیات ہوں،زراعت اور صنعت کو فروغ دے کرپیداوار اور ایکسپورٹ میں اس طرح اضافہ کیا جائے جس کا فائدہ عوام کو بھی حاصل ہو سکے، یہ فائدہ چند مخصوص لوگوں تک محدود نہ ہو، ہر شہری کی بلاامتیاز جان، مال کو تحفّظ حاصل ہو ۔شہریوں کی عزّت اور آبرو کا احترام ہو لوگوں کو بنیادی حقوق سے محروم نہ رکھا جا رہا ہو، عوامی خواہشا ت اور رائے عامہ کا احترام ہو، دنیا کے جن ممالک نے اس پر توجّہ دی ہے وہ تیز رفتاری سے ترقّی کر رہے ہیں۔ بد قسمتی سے ہم ان معاملات میں پیچھے جا رہے ہیں اگر ملک کی اشرافیہ اور حکمران طبقہ ملک کے نظام کو اسی طرح چلانے کی کوشش کریں گے ،ایسی صورت میں بحرانی کیفیت کے خاتمے کے دور دور تک امکانا ت نظر نہیں آتے ہیں۔
اپریل 2022 سے پی ٹی آئی اور اتحادی جماعتوں کی حکومت کے خاتمے کے بعد پیدا ہونے والی بحرا نی کیفیت میں مسلسل شدّت پیدا ہورہی ہے۔ مہنگائی اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے سوا دیگر سہولیا ت میں کمی سے عوام کی پریشا نیا ن بڑھ گئی ہیں اور اس میں بہتری کے آثار نہیں ہیں۔ باصلاحیت نو جوان دو سرے مما لک کا رخ کر رہے ہیں۔ ان حالات کی وجہ سے عوام حکمرا نوں پر اعتماد کرنے کو تیارنہیں ہیں بلکہ ان کی بیزاری بڑھ رہی ہے اور ان میں غصّے کی کیفیت بھی ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے برسر اقتدار حکمران جماعتیں اور ان کے دیگر سہولت کار ان حالات کو مکمّل نظر انداز کرکے ا پنی ساری توجہ اپنے ذاتی اقتدار کو طول دینے کی طرف کر رکھی ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ ایسے منفی ا قدامات کر رہے ہیں جس سے بحران مزید سنگین ہوگا ۔ان اقدامات سے ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی کے خاتمے کے امکانات بڑھ رہے ۔ لا قانونیت میں اضافہ ہورہا ہے ۔موبائل فون، نقدی،موٹر سائیکل اور کاریں چھیننے کی وارداتوں کی موثّر روک تھام نہیں ہے ۔تجارتی اور صنعتی سرگرمیاں ماند پر رہی ہیں ۔لو گوں میں مایوسی بڑھ رہی ہے۔ بر سر اقتدار سیاسی جماعتیں روز بروز عوامی حمایت سے محروم ہورہی ہیں اور سکڑتی جا رہی ہیں۔ بر سراقتدار سیاسی جماعتوں کے بعض رہنمائوں کا شاید یہ بھی خیال ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی زندگی کے خاتمے سے ان جما عتوں کی ساکھ بحال ہوجائے گی۔ جب کہ معاملہ برعکس ہوگا ۔ان جماعتوں کو بانی پی ٹی آئی کی زندگی کے خاتمے کے الزام کا سامنا ہوگا ۔ نتیجے میں وہ عوامی غیض و غضب سے محفوظ نہ رہ سکیں گی۔ پاکستان کے عوام اور تمام مقتدر حلقوں کو اس بحران کا ایسا حل تلاش کرنا ہوگا جس میں کسی تصا دم کی صورت حال نہ ہو ۔انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔دنیا میں کسی بھی ملک میں عوام کو طا قت سے کچلنے سے مسائل حل نہیں کیے جاسکتے ہیں۔ اس سے مزید پیچیدگی اور بحرانی کیفیت پیداہوتی ہے۔ تنازعات تصادم سے حل کرنے کی صورت میں تبا ہی ہوتی ہے۔ پاکستان کا اندرونی تنازع ایک ایسی ان دیکھی ا ند رونی جنگ ہے جس میں اضافے سے ہماری تباہی کا منظر دیکھ کر وقتی طور پر ہمارا ایک پڑوسی شاید وقتی طور پر خوش ہورہا ہو لیکن اس کے طویل المدّت اثرات خود اس کے لیے بھی نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔عالمی سطح پر موجودہ حکومت کے لیے پہلے ہی مسائل ہیں۔ خصوصاً 8 فروری کے نتائج پرعالمی میڈیا کی مختلف رپورٹس نے حکومت کے جائز ہونے پر سوالات کردیے ہیں۔ حال ہی میں سا بق چیف جسٹس قاضی فائض عیسیٰ کے خلاف مظاہرین کے رویّے کے بارے میں حکومتی ردّعمل سے بیرون ملک پاکستانیوں میں مزید غصّہ پیدا ہوگا۔ اس ردّعمل سے اس وا قعے کو مزید شہرت ملی ہے جن لوگوں کو اس واقعے کے بارے میں علم نہ تھا انہیں بھی اس کا علم ہوگیا ۔حکومت کا رویّہ جلتی پر تیل دالنے کے مترادف ہے جبکہ آگ پر پانی ڈالنے کی ضرورت تھی جس کا پہلا قدم خاموشی اور نظر انداز کرنا زیادہ بہتر ہوتا ۔بیرون ملک مقیم دُہری شہریت کے پاکستانیوں یا برطا نیہ میں پیدا ہونے والے نوجوان برطانوی شہریوں یا ان کے اہل خا نہ کے خلاف اقدامات پیچید ہ مسئلہ ہے۔ اس کا نتیجہ اگر توقّعات کے قطعی برخلاف آجاتا ہے، ایسی صورت میں حکومت مزید مشکلات کا شکار ہو سکتی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے سب کچھ بوکھلاہٹ میں اور بغیر سوچے سمجھے کیا جارہا ہے۔ اگر فرض کرلیا جائے کہ حکومت بانی پی ٹی آئی سے چھٹکارا پانے میں کامیاب ہوجاتی ہے، مزید آئینی ترامیم کے ذریعے تمام عدالتوں کے جج بھی اپنی مرضی کے مطابق نامزد کردیتی ہے، میڈیا میں حکومت مخالف گفتگو اور خبروں کو روک دیتی ہے۔ سوشل میڈیا کے مبصّرین پر پابندی لگا کر انہیں جیلو ں میں بند کردیتی ہے ،پی ٹی آئی پر پابندی لگا کر کے پی کے میں گورنر راج لگا د یتی ہے۔ پی ٹی آئی کی تمام پارلیمانی نشستیں خالی کرانے کے بعد اپنے مرضی کے نمائندے ان نشستوں پر کامیاب کرانے کے بعد ایک فرینڈلی اپو زیشن تیار کر لیتی ہے ۔ایسے اقدامات ملک کو جیل بنا نے اورمایو سی کا سبب بنتے ہیں۔ ان اقدامات سے سیاسی استحکام نہیں آئے گا ۔اصل استحکام اسی صورت میں ممکن ہے جب عوامی نمائدے عوام کے دلو ں پر راج کریں۔ وہ صرف جمہوریت، شفافیت،جوابدہی اور منصفانہ انتخابی نتائج کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔
اگر ہمیں پستی کے سفر سے نکل کر آگے بڑھنا ہے تو تمام با اثر حلقوں کو ان باتوں سے سبق حاصل کرنا ہوگا جس کی نشاندہی دنیا کے تحقیقا تی ماہرین کر رہے ہیں ۔یو نائیٹڈ اسٹیٹ انسٹی ٹیوٹ آف پیس نے اپنی ایک تحقیق میں اس سوال کا جواب دیا ہے کہ” مستحکم حکمرانی سے کیا مراد ہے”۔ اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ” مستحکم حکمرانی اسی صورت میں ممکن ہے جب ریاست لوگوں کو بنیادی سہولیات فراہم کرے اور ریاست کے وسائل کا ذمّہ داری سے منصفانہ استعمال کرے حکومت کے تمام ذمّہ دار شفّاف سیاسی او ر منصفانہ قانونی طریقہ کار کے تحت جوابدہ ہوں عوام کی حکمرانی(امور مملکت) میں شراکت سول سوسائٹی کی تنظیموں،آزاد میڈیا ،سیاسی جماعتوں اور آزادانہ منصفانہ انتخابات کے ذریعے ممکن بنائی گئی ہو۔ ایک اور تحقیق جسے اس لیے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ یہ ہمارے معاشرتی نظام سے قریب تر ہے ۔یہ تحقیق ترکی کی سیلکوک یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات اور معیشت کے پروفیسر ڈاکٹر علی ایسا ر(Ali Acar ( کی جانب سے کی گئی ہے۔ اس تحقیق کے مطابق ”سیاسی جماعتوں اور ان کے نمائندوں کے وعدوں کی انتخابی عمل میں جواب دہی ہونی چاہیے آئین و قا نون کی بالادستی یقینی ہو اور عوام آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے سیاسی عمل میں شریک ہوں۔ انتخابی عمل کو شفّاف بنانے کے لیے اصلاحات ہوںعوام کوہر قسم کی اطلاعات تک رسائی ملے مقامی سطح کے اداروں(بلدیاتی اداروں) میں عوام کی شراکت ہوں ،معا شرہ تندہی اور ایمانداری کے ساتھ ترقّی اور خوشحالی کے لیے سر گرم اور متحرّک ہو،تما م اداروں کے عہدیدار اپنے فرائض ذمّہ داری کے سا تھ انجام دیں۔ اختیارات کی حدود کا تعیّن ہو، اختیارات سے تجاوز کی صورت میں ان کا منصفانہ احتسا ب ہو،عدالتیں آزاد ہوں اور وہ حکومت کو اپنے اختیارات تک محد ود رکھنے میں انصاف کے عمل کے ذریعے کردار اداکرنے کی اہل ہوں ” ۔
پاکستان کو اس بحران سے نکل کر خوشحالی کا راستہ اختیار کرنا ہے تو موجودہ افراتفری اور لاقانونیت سے نکلنا ہوگا ۔یہ اس قوم کا امتحان ہے۔ تباہی یا خوشحالی کی جدوجہد میں کسی ایک کا انتخاب کرنا ملک کی اشرافیہ اور برسر اقتد ار حلقوں اور عوام کی بھی ذمہ داری ہے ۔ریت میں منہ چھپا کر طوفان کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں