میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
موسمیاتی تبدیلی کی خوفناک صورت حال

موسمیاتی تبدیلی کی خوفناک صورت حال

جرات ڈیسک
هفته, ۲ نومبر ۲۰۲۴

شیئر کریں

عالمی سطح پر موسمیاتی تبد یلی یعنی گلوبل ورامنگ نے پاکستان میں عام آدمی کی زندگی کو تہہ وبالا کرکے رکھ دیاہے ،پنجاب کے وسیع علاقوں میں اسموگ اسی گلوبل وارمنگ میں اضافے کا سبب ہے جس کی شدت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ وہاں اسکول بند کرنا پڑ رہے ہیں،اس طرح یہ کہا جاسکتاہے کہ ‘‘گلوبل وارمنگ’’ کی اصطلاح اب‘‘گلوبل بواءئلنگ’’میں بدل چکی ہے۔گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پاکستان میں درجہ حرارت میں خوفناک اضافہ ہواہے اور پاکستان کے بڑے شہروں خاص طورپر کراچی اور لاہور میں سانس کی بیماریوں میں بے تحاشہ اضافہ ریکارڈ کیا گیاہے اوزون کی تہہ کمزور ہونے کے ساتھ ساتھ گلیشیر پھٹنے سیپاکستان سمیت دنیا کے مختلف ملکوں میں سیلابوں کا خطرہ پیدا ہواہے ، کہیں خشک سالی ہے تو کہیں سیلاب، صنعتی کچرے نے پانی اور زمین سے اگنے والی خوراک کو بھی آلودہ کر دیا۔ ماحولیاتی تبدیلیوں سے سمندر اور منجمد خطوں کو اس دور میں جتنا نقصان ہو رہا ہے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ریکارڈ اخراج سے سطح سمندر کے اضافے میں نمایاں طور پر تیزی دیکھنے میں آئی ،ماہرین کے مطابق 2100تک سمندر کا لیول 9سے 100سینٹی میٹر تک بڑھنے سے ساحلی شہر ڈوب جائیں گے۔ آب و ہوا میں تبدیلی کی وجہ سے جہاں مجموعی اقتصادی پیداوار میں کمی دیکھنے کو ملی وہیں مختلف صنعتوں اور ٹرانسپورٹ سے خارج ہونے والے نائٹروجن اور کاربن کے مرکبات سے بھی فضائی آلودگی میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔کرۂ ارض پر روز افزوں ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ اورگرین ہاؤس گیسوں کے اخراج سے‘‘گلوبل وارمنگ’’میں اضافہ حقیقت میں اقوام عالم کو ایک سنگین‘‘وارننگ’’ ہے جس سے روئے زمین پر پائے جانے والے تمام جانداروں کو شدید خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔
ماحولیاتی آلودگی سے ایک اندازے کے مطابق اربوں ڈالرز نقصان کے علاوہ پاکستان سمیت دنیا بھر کے ممالک میں لاکھوں اموات ہو رہی ہیں۔جنوب مشرقی ایشیااور کئی دیگر ممالک کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ہر 3 میں سے2 جبکہ امریکہ، چین اور بھارت میں آلودگی سے مجموعی طور پر ہزاروں افراد موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں کیونکہ ان ممالک میں زہریلا مواد خطرناک حدوں کو چھو رہا ہے۔ ستمبر 2021 میں عالمی ادارہ صحت نے جو گلوبل ایئر کوالٹی گائیڈ لائنز جاری کیں ان کے مطابق ہر سال فضائی آلودگی سے 70 لاکھ قبل از وقت اموات کا تخمینہ تھاجو اب بڑھ کر ایک کروڑ سے تجاوز کر چکا ہے۔ ؂درحقیقت ماحولیاتی خطرات نے اس دنیا کو ہلا کے رکھ دیا ہے اور اس کے اثرات اتنے شدید ہیں کہ ماحولیات کے ماہرین، اقوام متحدہ اور دیگر ادارے اور تنظیمیں اپنے اپنے دائرہ کار میں متحرک و فعال ہو چکی ہیں۔ اس سطح پر سرگرمیاں اگر دو عشرے پہلے شروع ہو جاتیں تو شاید ہماری زمین اس زبوں حالی کا شکار نہ ہوتی۔کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے لیے درست ڈیٹا کی ضرورت ہوتی ہے جو دنیا کے بیشتر ممالک کے پاس نہیں ہے، اسی حوالے سے پاکستان کییہ تجویز صائب ہے،جس پر یقیناً عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے گا کہ ماحولیاتی ٓلودگی ور اس کے اثرات کے حوالے سے درست ڈیتا جمع کیاجائے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری کوششیں زمین کو اس کا حسن اور درجہ حرارت واپس دلانے میں بار آور ثابت ہوں گی؟ اس سوال کا جواب دنیا کو مل کر ڈھونڈنا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں فوسل فیول یعنی حیاتیاتی ایندھن کے بڑے پیمانے پر استعمال سے کاربن کے اخراج میں اضافے کی وجہ سے زمین کے درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ سے دنیا کے ایک بڑے حصے میں پانی کی قلت اور اس کے نتیجے میں زرعی پیداوار میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ جنگلوں میں آگ لگنے کے بڑھتے ہوئے واقعات بھی اسی صورت حال کا نتیجہ ہیں۔ سائنسدان مسلسل متنبہ کر رہے ہیں کہ کرہ ارض نے ٹپنگ پوائنٹس کی ایک سیریز کو عبور کر لیا ہے جس کے تباہ کن نتائج ہو سکتے ہیں، آرکٹک کے علاقوں میں پرما فراسٹ پگھلنا، گرین لینڈ کی برف کی چادر غیر معمولی شرح سے ختم ہونا ہماری پریشانی کے لیے کافی ہے۔ماہرین اقتصادیات اور ماحولیات نے برسوں سے پالیسی سازوں پر زور دیا ہے کہ وہ ایسی سرگرمیوں پر بھاری ٹیکس عائد کریں جو گرین ہاؤس گیسز خارج کرتی ہیں۔ کاربن ٹیکس اس وقت دنیا کے 27 ممالک میں لاگو ہے، جس میں یورپی یونین، کینیڈا، سنگاپور، جاپان، یوکرین اور ارجنٹائن کے مختلف ممالک شامل ہیں۔ہماری دنیا جانے کیوں پلاسٹک کی اس قدر عادی ہوگئی۔ ہر سال 300 ملین ٹن پلاسٹک کا فضلہ پیدا ہوتا ہے۔ سائنسی جریدے نیچر کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت تقریباً 14 ملین ٹن پلاسٹک ہر سال سمندروں میں پہنچتا ہے، جس سے جنگلی حیات کی رہائش گاہوں اور ان میں رہنے والے جانوروں کو نقصان پہنچتا ہے۔ نیشنل جیوگرافک کے مطابق اب تک بنائے گئے پلاسٹک کے سامان کا 91% ری سائیکل نہیں کیا گیا۔ماہرین کے مطابق اس کو گلنے اور ختم ہونے کے لیے صدیاں درکار ہوتی ہیں۔دنیا کے سیکڑوں سائنسدانوں نے 8 برس کی محنت سے تیار کر دہ رپورٹ میں کہا ہے کہ کلائمیٹ چینج کے باعث فوسل فیول انڈسٹریز میں مرحلہ وار کمی نہ ہونے اور کاربن کا اخراج روکنے میں عزم کی کمی، قحط، خشک سالی، سیلاب، سطح سمندر میں اضافے، ماحولیاتی عدم مساوات، غذائی عدم تحفظ، ورلڈ فوڈ مارکیٹ کے بحران، خوراک اور خصوصاً زرعی پیداوار میں کمی، آبادیوں کی نقل مکانی، پانی اور توانائی کی سپلائی چین متاثر ہونے اور گلیشیئرز پگھلنے سے دنیا کے لیے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ متوقع اثرات پہلے سے زیادہ شدید ہیں اور دنیا تیزی سے خطرناک نتائج کی طرف بڑھ رہی ہے۔ عالمی سطح پر سیکورٹی کے خدشات بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ سادہ اور آسان الفاظ میں اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں کلائمیٹ چینج کے نتیجے میں خوراک، پانی اور توانائی کی فراہمی متاثر ہو گی، قدرتی وسائل کے حصول کے لیے ممالک اور خطوں کے درمیان مقابلہ شروع ہو جائے گا، معیشتیں شدید خسارے میں چلی جائیں گی، قدرتی آفات کے تسلسل سے مختلف خطوں اورعلاقوں کے لوگ ہجرت پر مجبور ہوں گے۔ یہ مہاجرین غریب ممالک سے ہجرت کرتے ہیں اور قریبی غریب ملکوں میں ہی جاتے ہیں۔ کم آمدنی والے معاشروں میں وسائل کی کمی کے باعث مناسب ڈیٹا مرتب نہیں ہو پاتا، اسی وجہ سے پناہ گزینوں کی آڑ میں ایسے عناصر بھی دوسرے ملکوں میں چلے جاتے ہیں، جو بعد میں ان ممالک میں سیکورٹی کے مسائل پیدا کر دیتے ہیں۔ ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن کے مطابق کرہ ارض پر دستیاب 0.5 فیصد قابل استعمال پانی کے معاملے پر بھی مختلف خطوں کا تناؤ ہے، موسمیاتی تبدیلی سے عالمی سطح پراس کی فراہمی شدید متاثر ہو رہی ہے۔ غیر متوقع بارشیں ہو رہی ہیں، برف کی تہہ سکڑتی جا رہی ہے، سطح سمندر میں اضافہ ہو رہا ہے اور سیلاب و خشک سالی بڑھ رہی ہے۔ ماہرین وسائل کی تیزی سے کمی کے باعث سماجی، اقتصادی اور ماحولیاتی عوامل کے بگاڑ کے بارے میں فکر مند ہیں۔ پاکستان ارضیاتی طور پر ایک ایسے خطے میں واقع ہے جہاں موسمیاتی تبدیلیاں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کی آمدنی، رہائش، خوراک اور سلامتی کو خطرے میں ڈال چکی ہیں۔ اس سنگین صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کو عالمی اوسط کی نسبت زیادہ اوسط درجہ حرارت کا سامنا ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ آفات کے خطرے کی سطح کو ماپنے کے نظام انفارم رسک انڈیکس کی طرف سے 2023میں جاری کی گئی رینکنگ کے مطابق پاکستان191ممالک میں سے 16ویں نمبر پر ہے۔ماہرین کے مطابق سال 2024 میں بھی ماحولیاتی آلودگی اوراسموگ کے مسائل کا سامنا پاکستان کو رہے گا۔ ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ پنجاب میں بسنے والے شہریوں کی اوسط عمر کم از کم 7 برس کم ہوسکتی ہے۔اسموگ اور فضائی آلودگی شہریوں کی صحت کے لیے دوسرا سب سے بڑا خطرہ ہے جو برقرار رہے گا۔ ہمارے پاس اسموگ بڑھنے کی وجوہات کی مستند ریسرچ ہی نہیں، ہم صرف سنی سنائی باتوں اور قیاس آرائیوں کے ذریعے اسموگ پر قابو نہیں پا سکتے۔ عوام کی صحت کے تحفظ کے لیے مستند ڈیٹا سے ہی اسموگ سے نمٹنے کے لیے جامع اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ ماحولیاتی سائنس کے ماہرین کہتے ہیں کہ سڑکوں پر پانی چھڑکنے یا اسکول ہفتے میں تین دن بند کرنے سے کچھ بہتری تو آتی ہے مگر حکومت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ماحولیات سے جڑے مسائل کو حل کرنے کے لیے مربوط منصوبہ بندی کیسے کرنی ہے اور طویل عرصے کے لیے کیا اقدامات ہوں جو واقعی کار آمد ثابت ہوں۔ پانی کے محفوظ ذخائر کی طلب و رسد میں فرق سے معاشروں میں تناو بھی بڑھ رہا ہے جو کسی بھی وقت بدامنی کا سبب بن سکتا ہے۔ میٹھے پانی، آبپاشی کے پانی کی کمی اور پن بجلی کی ضروریات پر تنازعات جنم لے سکتے ہیں۔ قدرتی آفات کے باعث کھیت کھلیان تباہ اور ساحلی علاقوں میں ماہی گیری کو لاحق خطرات سے خوراک کی پیداوار بھی متاثر ہو رہی ہے۔ یوں خوراک کی بلند قیمتیں اور افلاس معاشرے میں عدم مساوات کو جنم دیتی ہے جس سے امن و امان کوخطرہ ہو سکتا ہے۔عالمی سطح پر کاربن کے اخراج میں اضافے سے دنیا بھر میں لوگوں کا بے گھر ہونے کا رجحان بھی زیادہ ہو گیا ہے۔ پاکستان اور جمہوریہ کانگو میں تباہ کن سیلاب سے لے کر افغانستان، مڈغاسکر اور افریقہ میں مسلسل خشک سالی تک، لاکھوں افراد گھر چھوڑچکے ہیں۔ غیر معمولی بارشوں، طویل خشک سالی، ماحولیاتی انحطاط، سطح سمندر میں اضافہ کے نتیجے میں ہونے والے خطرات اور طوفانوں سے متاثر ہو کر سالانہ 20 ملین سے زیادہ لوگ اپنے ملک چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں جانے پر مجبور ہیں۔غریب ترین ممالک کی آبادی کا بڑا حصہ براہ راست کلائمیٹ چینج سے متاثر ہو رہا ہے۔ ان میں سے بھی زراعت، جنگلات اور ماہی گیری پر گزر بسر کرنے والے باسی زیادہ پریشان ہیں۔ پانی پر تناؤ براعظم ایشیاکا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ماضی میں امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کے تنازع کو انتہائی تشویشناک قرار دے چکی ہے۔ ماہرین متفق ہیں کہ اس وقت دنیا بھر میں تقریباً پونے 8 کروڑ افراد بھوک و افلاس کا شکار ہیں۔ اگر ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات کو کنٹرول اور عالمی درجہ حرارت میں اضافہ نہ روکا گیا تو مزید تقریباً 2 کروڑ لوگ بھوک کی وادی میں چلے جائیں گے۔ماحولیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے بحران کے باعث عالمی امن اور سلامتی کو بھی خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ غریب یا کم آمدنی والے ممالک تو شاید اس حساسیت کو فی الحال نہ سمجھ سکیں لیکن اپنے عوام کی سیکورٹی، فلاح و بہبود اور وسائل کے درست استعمال کو ترجیح بنانے والے ممالک کے لیے یہ سب سے بڑا مسئلہ بن کر سامنے آیا ہے۔ان عوامل سے اقوام متحدہ خود بھی فکر مند ہے۔ اسی لیے ہر روز دنیا کو احساس دلایا جا رہا ہے کہ تمام ممالک کوسوچ بچار کر کے متحد ہو کر آگے بڑھنا ہو گا۔ موسمیاتی تبدیلی کی تخفیف کے اقدامات اکثر غیر متناسب طور پر سب سے زیادہ پسماندہ افراد کو متاثر کرتے ہیں۔ اس لیے ہمیں ہر ممکن طریقے سے موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے متحرک ہونے اور آگاہ رہنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے جہاں وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے لے کر مقامی حکومتوں تک کی سطح پر عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے وہیں ہمیں اسے اسکولوں کی سطح پر نصاب کا بھی حصہ بنانا ہو گا تاکہ ہماری نئی نسل موسمیاتی تبدیلیوں کو سمجھنے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو سکےء گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کے آب و ہوا کی تبدیلی کے فریم ورک کنونشن میں گلوبل وارمنگ کو کم کرنے کیلئے مختلف تجاویز زیربحث آئیں۔ جاپان میں تیسرے فریم ورک کنونشن کے دوران 160 سے زائد ممالک نے ایک معاہدے پر دستخط کئے جس کے تحت متعین کردہ اہداف میں اس ایجنڈے کو فوقیت دی گئی کہ گرین ہاؤس گیسزجو گلوبل وارمنگ کی سب سے بڑی وجہ ہیں ان کے اخراج کو کم سے کم کیا جائے گا لیکن فروری 2005ء سے اس معاہدے کو جب عملی جامہ پہنانے کا وقت آیا تو واشنگٹن نے اس کی توثیق سے انکار کر دیا۔چین نے 2020ء تک کوئلے کی پیداوارمیں 500 ملین ٹن کمی کا جوہدف مقرر کیا تھا اس حوالے سے کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔بھارت بھی معاہدوں کی پاسداری نہیں کر سکاجس سے اب خدشہ یہی ہے کہ آنے والے برسوں میں موسمیاتی اثرات تیزی سے بڑھیں گے۔ خشک سالی کے اختیار کرتے طویل ادوار، بے موسمی بارشیں،سیلاب،زراعت کے بدلتے انداز، پیداوار میں کمی، پانی کی عدم دستیابی اور حیاتیاتی تنوع یہ سب موسمیاتی تبدیلیوں کے ہی منفی اثرات ہیں جن سے چھٹکارہ وقت کا تقاضا توہے لیکن ترقی یافتہ ممالک کے تعاون کیے بغیر یہ ممکن نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں