طالبان تحریک اور حکومت
(جلال نُورزئی) قسط نمبر(7)
شیئر کریں
طالبان کی تحریک اور حکومت نے بلاشبہ کارہائے نمایاں انجام د یے ۔مگر ان کی تشہیر اور دنیا کو دکھانے کی ان کے باس کوئی ذریعہ و وسیلہ نہ تھا۔ گو یا انہیں ذرائع ابلاغ کہ جن کے ذریعے جنگیں جیتی جاتی ہیں کی اہمیت و ضرورت کا ادراک نہ تھا۔ حال یہ کہ ناقدین، انسانی حقوق کی تنظیمیں ، سیاسی حلقے اور کئی ممالک ذرائع ابلاغ کے ذریعے طالبان کے خلاف متعصبانہ ، غیر حقیقی ،یکطرفہ و لغو باتیں عام کرتے و پھیلاتے۔ اور دنیا اسے سچ و حقیقت تسلیم کر تی ۔ انہیں وحشی ، تعلیم و تہذیب سے نا آشنا متعارف کراتے۔ قتل طالبان ہوتے جبکہ دنیا کو بتایا جاتاکہ طالبان مخالفین کو بے دردی سے قتل کرتے ہیں۔ طالبان میڈیا کا استعمال کرتے اور ابلاغی توسط سے اپنا مؤثربیانیہ دنیا کے سامنے رکھتے تو یقینی طور پر ان کے خلاف منفی و گمراہ کن پروپیگنڈہ بے اثر ہوتا ۔ افغان جہاد کے معروف کردار طورن اسماعیل سال1997ء میں طالبان کے قیدی بنے ۔ تین سال بعد بڑی آسانی سے فرار ہوکر ایران پہنچ گئے۔ طورن اسماعیل فرار میں اس لیے کامیاب ہوئے کہ وہ کندھار میں قیدی کی بجائے ایک نظر بند کی حیثیت سے رکھے گئے تھے۔ حکمت طالبان کی یہ تھی کہ جب پورے ملک میں امن قائم ہوگا تو انہیںرہا کردیا جائے گا ۔وہ سمجھتے تھے کہ مخالف بڑی شخصیات جنگ کی وجہ بنے ہوئے ہیں۔ بی بی سی کے نمائندہ رحیم اللہ یوسفزئی کو اپنے انٹرویو میں طورن اسماعیل نے تسلیم کیا کہ طالبان نے ان پر کسی قسم کی سختی کی اور نہ ہی زندان میں ڈالے گئے تھے ۔ طورن نے یہ تک کہا کہ’’ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم طالبان کی مدد کرتے، مگر افسوس کہ ہم ان کے مد مقابل کھڑے ہوگئے‘‘۔ حزب وحدت کے سربراہ عبدالعلی مزاری کے قتل کے واقعہ کو بھی حقیقت کے برعکس پیش کیا گیا۔ ہلاکت کے اس واقعہ کے باب میں طرح طرح کی من گھڑت کہا نیاں بیان کی گئیں ۔اس کی آڑ لے کر تعصبات پھیلائے گئے ۔
طالبان کے کئی سرکردہ رہنماء اس بارے اصل تفصیل پیش کرچکے ہیں ۔ جن کے مطابق مارچ1995ء میں طالبان کابل کی حدود میں داخل ہوئے ۔ حزب وحدت، احمد شاہ مسعود اور دوسرے جنگجئوں نے فرار کی راہ اختیار کرلی ۔ عبدالعلی مزاری برقعہ میں اپنے چند کمانڈروں کے ہمراہ کابل سے نکلنے کوشش کے دوران گرفتار کر لیے گئے ۔ فوراً ملا عمر کو اطلاع دی گئی ۔جنہوں نے مزاری کو ہیلی کاپٹر میں قندھار منتقل کرنے کی ہدایت کی۔ مقصد انہیں قیام امن تک اپنی حفاظت میں ر کھنے کا تھا۔ ہیلی کاپٹر غزنی کی فضاء عبور کررہا تھا کہ اس دوران عبدالعلی مزاری کے ایک کمانڈر ابو ذر نے طالب سے کلا شنکوف چھین لیا جس کی اس وقت آنکھ لگ گئی تھی اور پائلٹ کو ہیلی کاپٹر اتارنے کا کہا ۔اور متذبذب پائلٹ پر گولی چلائی جو اس کے بازو میں لگی ۔ چناں چہ ہیلی کاپٹر اتارا گیا ۔ عبدالعلی مزاری اور اس کے کمانڈر اتر کر بھاگ نکلے ۔اتفاقاً اس وقت طالبان عساکر گاڑیوں میں غزنی شہر کی طرف جار ہے تھے ۔ انہوںنے ہچکولے کھاتے ہیلی کاپٹر کو دیکھ لیا تھا۔ اور بھاگنے والے افراد پر فائرنگ کی ۔
ملا عمر نے واقعہ کی تحقیقات کا حکم دیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ واقعہ غیر ارادی تھا ،انہیں معلوم نہ تھا کہ یہ افراد کون تھے ۔ملا عمر نے عبدالعلی مزاری کے قتل پر افسوس کا اظہار کیا ۔ چوں کہ طالبان کے پاس ابلاغ کا مؤثر و جدید ذریعہ نہ تھا۔ اور یہ قتل دنیا کو یوں باور کرایا گیا کہ مزاری فضاء سے زندہ پھینکے گئے ۔ عبدالعلی مزاری نے دوستم ، احمد شاہ مسعود اور جنرل عبدالمالک سے ملکر ہزاروں طالبان کو بڑی بے دردی سے قتل کیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود ملا عمر انہیں قیدی رکھنا چاہتے تھے۔ ملا عمر نے احمد شاہ مسعود کے قتل پر بھی نا خوشی کا اظہار کیا ۔اور واضح کیا کہ وہ نہ قاتلوں کو جانتے ہیں اور نہ ہی ان کی حکومت کا ہاتھ ہے۔ طالبان املاک فصل و باغات تباہ کر نا بھی پسند نہیں کرتے تھے ۔ کابل کے شمال میں پنج شیر کی جانب پیشرفت کے دوران باغات سے مسلسل فائرنگ کے پیش نظر ملا عمر سے رہنمائی مانگی گئی کہ آیا باغات کو نشانہ بنایا جائے۔تو اس پر علماء نے فتویٰ دیا کہ محض اس باغ کو نشانہ بنایا جائے جہاں سے زیادہ حملے ہوتے ہوں۔ تاکہ باقی باغات کو نقصان نہ پہنچے۔ یہاں تک کہ طالبان کو کسی کے باغ سے میوہ کھانے کی بھی اجازت نہ تھی۔ ننگرہار کے گورنر مولوی عبدالکبیر نے ایک بار اپنے سپاہیوں کے لیے باغ خرید لیاتاکہ وہ اس سے انگور کھائیں ۔ یقینا طالبان سے ارادی و غیر ارادی غلطیاں بھی سر زد ہوئیں۔ جن کا بعد میں ان کی جانب سے اظہار بھی ہوا۔ البتہ ڈاکٹر نجیب کی پھانسی کو جائز سمجھا۔یقینا ڈاکٹر نجیب بڑی زیادتیو ں کے مرتکب تھے ۔ روس کے پروردہ تھے ۔اور دورصدارت میں بھی ان کا کردار مجرمانہ تھا۔ بہر حال ان تمام زیادتیوں و جرائم کے باوجود ڈاکٹر نجیب کے ساتھ عفو و در گزر کا معاملہ ہونا چاہیے تھا ۔ وہ طالبان کے قیدی نہ تھے۔ ا پنوں کی دغا نے اقوام متحدہ کے دفتر میں پناہ لینے پر مجبور کیا تھا ۔ ان کو افغانستان میں رہنے یا باہر جانے کا اختیار دے دینا چاہیے تھا۔ ڈاکٹر نجیب اپنے لوگوں کا ڈسا ہوا تھاان سے پاکستان کے دوستوں نے بھی وفا نہ کی۔ زندہ رہتے تو یقینا بہت سارے تلخ حقائق کہتے اور لکھتے اور بہت سارے لوگ منہ دکھانے کے قابل نہ رہتے۔
طالبان کے بعض سرکردہ رہنماء بامیان کے بدھا کے مجسموں کو ٹینک کے گولوں سے نشانہ بنانے کے اقدام کو درست سمجھتے ہیں ۔ یہ لکھتے ہیں کہ ملا عمر نے علماء سے رائے لی، جنہوں نے مجمسے توڑنے کا فتویٰ دیا ۔یعنی یہ مسئلہ شرعی سمجھا گیا۔ پاکستان کی حکومت نے طالبان حکومت سے اس اقدام سے گریز کی درخواست کی تھی۔ یہاں تک کہ یونیسکو کی درخواست پر قطر کی حکومت کے وزیر خارجہ شیخ احمد عبداللہ زیدال محمود کی قیادت میں نامور علماء قندھار گئے ۔ ملا عمر اور حکومتی مناصب پر موجود افغان علماء سے ملاقات کی۔ جن میں عالم اسلام کے مشہور و جید عالم دین علامہ یوسف ا لقرضا وی ، مصر کے مفتی اعظم فرید واصل، قطر کے شیخ عبدالقادر العماری ، قطر کے شیخ محمد الراوی، محمد ھیشم الخیاط، عرب کے فہمی ہو یدی اورقطر کے وزارت خارجہ کے چند علماء شامل تھے۔ یہ وفد 11مارچ2001ء کو گیا تھا ۔ ان علماء کے جانے کے بعد طا لبان حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لے لینا چاہیے تھا ۔ خود طالبان کہتے تھے کہ بدھا کے مجسموں کی عبادت نہیں ہو تی ہے۔البتہ بعض طالبان رہنماوں نے اسے احتجاج کا جواز فراہم کیا ۔طالبان حکومت کے ایک گشتی سفیر رحمت اللہ باہمی نے 10 مارچ 2011 ء کو امریکا کے جنوبی کیلی فورنیا کی یونیورسٹی لاس انجیلس میں اپنے خطاب میں توجہی پیش کی تھی کہ’’ ان کے ملک افغانستان پر سیاسی و معاشی پابندیاں عائد ہیں۔دنیا قحط زدہ افغانستان میںخوراک کی قلت، خوراک ادویات کی عد م دستیابی سے بچوں کی اموات ، خواتین کی زچگی کے دوران اموات کی روک تھام میں مدد دینے کی بجائے ان مجسموں کو محفوظ بنانے، اس کی نوک پلک سنوارنے کی فکر میں ہے ۔ان کے مطابق یونیسکو اور سویڈن کی ایک این جی او اس مقصد کے لیے پروجیکٹ لے آئے تھے ۔ حکومت نے ان کے سامنے درپیش سنگین صورتحال رکھی۔اور اپنی مشکلات و ضرویات کو مشروط کیا ۔طا لبان نے موقف اختیار کیا کہ انہیں اپنی عوام اوربچوں کی زندگیاں عزیز ہیں اورا نہیں ان مجسموں کی کوئی پرواہ نہیں ہے‘‘ ۔بہر حال حقائق خواہ کچھ بھی ہوں، حقیقت یہ ہے کہ بدھا کے مجسموں کو نقصان پہنچانا طالبان کے لیے بدنامی کا باعث بنا۔(جاری ہے )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔