میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
عرضی!!!

عرضی!!!

ویب ڈیسک
پیر, ۲ اکتوبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

ظل سبحانی، آیت ِ دولت جاودانی، عدل وانصاف اور حکمرانی کے مصدرِ اعلیٰ ! حضرت شہنشاہِ عالی جاہ وعالم پناہ !
محترم المقام نوازشریف صاحب !
میں آپ کے دسترخوانی قبیلے کا ایک اعلیٰ بھوکا صحافی ہوں۔ میں نے ہمیشہ آپ کے دسترخوان کی چچوڑی ہوئی ہڈیوں کو چچوڑا ہے۔ اُگلے ہوئے نوالوں کو نگلا ہے۔ پڑے ہوئے دانوں کو چنا ہے۔ برسوں سے ہڈیاں چچوڑتے ہوئے آنجناب نے مجھے جس خدمت کے لیے چُنا ہے، میں اُسے بصد عز وادب بجالاتا ہوں۔
میری صلاحیت پر آپ کو کبھی کوئی شبہ نہیں رہا۔ ”اُس بازار کی ”حاملہ کی دلدلی پیٹ میںگڑگڑ کی طرح میرا قلم آواز کرتا ہے، میری زبان ہمہ وقت حرکت میں رہتی ہے۔ آپ کو یہ پسند ہے مجھے بھی۔ آپ تالی بجاتے ہیں میں نحوست کو رقص میں لاتا ہوں۔ جب آپ اندھیروں کو ترقی کہتے ہیں تو میں اسے تقدیس کا ورق پہنانے کے لیے آسمان کے تاروں کو تاریکیوں کی تصویریں باور کراتاہوں۔ سورج سے کالک کاشت کرواتا ہوں۔ پھر اے میرے1999 کے ایک ترمیمی امیر المومنین! میں اسے آسمانی صحیفوں کی صدا بنا دیتا ہوں۔
آپ کی للکار مخنثوں کو بھی ہنساتی تھی مگر میں نے مردوں کے لیے بھی اُسے ہیبت کی آواز بنائے رکھا۔ آپ کے نیزے ستر سالہ بوڑھیوں کے دانتوں میں خلال کے بھی کام نہ آسکتے تھے، میں نے اُنہیں ایٹم بم کی طرح خطرناک ثابت کیے رکھا۔ میں نے لسّی پیتے ہوئے آپ کی ڈکار کو ابن خلدون کا مقدمہ بنا دیا۔ آپ کے دربار میں حاضری، غزالی کی کیمیائے سعادت سے بڑھ کر بیان کی۔ آپ کے اسٹیبلشمنٹ سے متعلق خیالات کی تشریح ، ابن رشد کی اُن کتابوں سے بڑھ کر فضیلت ماب ہے جو وہ ارسطو کی مابعدالطبیعات کی تشریح میں لکھتے رہے۔ آ پ کی ہر حال میں حمایت کی منطق امام ابن تیمیہ کی ”الجمع بین العقل والنقل” سے زیادہ مشرف ہے۔ آپ کا ہر عیب ہماری وظیفہ خواری میں ہنر بن کر ظاہر ہوتا ہے۔ آپ کی محدود لغت اور غیر رواں گفتگو کو میں نے رواں سیاست کا نقارہ بنایا۔ آپ کی مستعار خدمات پرپرچی کی عادت کو میں نے تدبر کی علامت کہا۔ آپ کی محدود یادداشت میں بدلتے رنگ برنگے کرداروں کوکبھی میں نے گرگٹ کا رنگ نہیں بننے دیا۔ آپ کے اُلٹی سیدھی قلابازیوں پر کبھی کسی کو یوٹرن کی پھبتی نہیں کسنے دی۔
معلوم نہیں لند ن کی پرکیف فضاؤں میں آپ کو یاد بھی رہا ہوگا کہ نہیں۔ میں بھی اُن ہی میں سے ہوں جس نے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو سے بطور وزیراعلیٰ پنجاب آپ کی لڑائی کو ملک کی اعلیٰ ترین خدمت لکھا۔ اتفاق کے جہازوں کی بندرگاہوں پر روک کو ملک کی بندش سے ٹوکا۔ اس کے اشتہارات کی کمائی کھائی ۔وزیر اعلیٰ پنجاب سے وزیر اعظم پاکستان بننے تک میں نے آپ کے ہر اقدام کا دفاع کیا۔ میں نے آپ کے پروپیگنڈہ سیل کی مہیا کردہ ایک غیر ملکی صدر کے ساتھ رقصاں نصرت بھٹو کی تصویر چھاپی، بے نظیر بھٹو کی کردار کشی پر مبنی پمفلٹ کی ہیلی کاپٹر کے ذریعے بارش کا دفاع کیا۔آپ کو ہر کردار میں محسن قوم کے طور پر اجا گر کیا۔ آپ نے بے نظیر بھٹو کو سیکورٹی رسک کہا، میں نے سیکورٹی رسک لکھا۔ اسمبلی میں بے نظیر بھٹو پر گلی کے لقندروں کی طرح قہقہے اچھالنے اور فقرے کسنے کو قومی خدمت سمجھا۔ تب شیخ رشید آپ کو بھاتا تھا، میں بھی اس کی بلائیں اُتار نے لگا، پھر آپ نے اسے تھوک دیا میں نے بھی کھنکار کر اپنا گلا صاف کیا۔مشرف کے خلاف جب اکٹھ کی ضرورت پڑی اور آپ نے میثاق جمہوریت کا ڈول ڈالا تو میں نے بھی اسے قومی تاریخ کا سیاسی تحفہ بنا دیا۔ پیپلزپارٹی اچانک محب وطن جماعت بن گئی۔ میں بھی اس پر ایمان لے آیا اور اس کے خلاف نفرت کے بھڑکتے الاؤ وقتی طور پر ٹھنڈے کر دیے۔ پھر زرداری یک بیک ایک بیماری ہوا، اُنہیں سڑکوں پر گھسیٹنے کے دعوے ہوئے تو میں بھی اُن سڑکوں کی تلاش میں نکلا جہاں یہ مقدس فریضہ ادا کیا جانا تھا۔ پھر جس جنرل نے آپ کو نکالا ، اُسی جنرل سے اقتدار میں داخلے کا راستہ ملا تو وہ جنرل اور اس کے ذریعے نیا ملنے والا بھان متی کا کنبہ(پی ڈی ایم) میں نے بھی ناگزیر قرار دیا۔ طوفانوں کو نچوڑتے اور گردابوں کو بھنبھوڑتے قلم سے آپ کی خاموش قلابازیوں کی تحسین کی۔
جناب والا!
یہی نہیں! جنرل جیلانی کے پنگھوڑے میں جھولتے ہوئے جب آپ نے ہاتھ پاؤں نکالے تو میں بھی عسکری اشرافیہ کا قصیدہ خوان رہا۔ جنرل ضیاء نے اپنی عمر آپ کو دینے کی دعا دی تو میں نے بھی جنرل ضیاء کی بلائیں لیں۔ تب پیپلے جنرل کو اپنے ”قائد عوام” کا قاتل کہتے تو میں بھی آپ کے ساتھ اُن پر گرجتا برستا۔ جب آپ مرزا اسلم بیگ سے خفا ہوئے تو مجھے بھی کچھ کچھ جنرل بُرے لگنے لگے۔ جب صدرغلام اسحق خان کو آپ نے کہا ”میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا”۔ تو میں نے بھی اس فقرے میں آپ کے اندر سے” شی گویرا” نکالا اور اس فقرے کو پاکستان کی سیاست میں انقلاب کی تمہید کے طور پر باندھا۔ پھر آپ گھوم پھر کی اقتدار کی اُن ہی راہداریوں سے دوبارہ وزیراعظم ہاؤس براجمان ہوئے اور ڈکٹیشن نہ لینے سے کہیں زیادہ کمتر ”ٹائپسٹ” کی نوکری پکڑ لی تو میں نے اِسے سیاسی فہم وفراست کا رس بھرا عنوان دیا۔ جنرل آصف نواز سے لے کر جنرل مشرف تک ہر جنرل سے آپ کی کٹاچھنی کو میں نے ”انقلابی” تعبیرات کی رنگارنگ تفصیلات میں پرویا۔ آپ ہر جھگڑے کے نتیجے میں اقتدار سے بے دخل ہوئے تو میں نے اس بے دخلی کو بارعب بنائے رکھا۔ پھر اُن ہی طاقتوروں کی مٹھی چاپی اور قدم بوسی سے اقتدار کی راہداریوں میں پہنچے تو اسے بھی باوقار تدابیر کا زرق برق ورق پہنائے رکھا۔ یہ کل ہی کی تو بات ہے جنرل راحیل سے آپ ناراض ہوئے تو میں بھی کانا پھوسی میں مصروف ہو گیا۔ جنرل باجوہ سے آپ ناراض ہوئے تو میں انقلاب کی رتھ پر سوار ہو کر اُن سے سوال کرنے لگا۔ یہاں تک کہ آپ نے خاموشی سے معاملات سنوارے تو میں بھی سج سنور کر اس قلابازی کی مشق کرنے لگا۔ اس تدبیر کی کاریگری میں اقتدار چھوٹے بھائی کی گود میں گرا تو میں بھی ملک میں عظیم تبدیلی کے بہر عنوانات کی ڈگڈگی بجانے میں مصروف ہو گیا۔ اس دوران میں آپ اُن تمام کے ساتھی بن گئے جن سے اپنے کیرئیر میں ہمیشہ لڑتے رہے۔ میں بھی کسبی کی حیا بن کر اُن کا ہم نشین ہو گیا۔
حضور والا!!
میں آپ کے اصطبل میں بندھا گھوڑا ہوں۔ کسی گمشدہ میدان کی مشاق اور طرار سواری۔ آپ میرے اور مجھ جیسے ہزاروں گھوڑوں کے بیک وقت سوار ہیں۔ میرا کام بھی اُن ہزاروں گھوڑوں کی طرح آپ کی ناز برداری ہے۔ جناب آپ تو جانتے ہی ہیں کہ میں ایک صحافی ہوں۔ میں سطح شور پہ ڈھم ڈھم بجتی آپ کی ڈھول ہوں جو میرے جیسے دوسرے نمک خواروں سے مل کر ایک ایسا نقارخانہ تخلیق کرتے ہیں جس میں آپ کے خلاف کسی حق سچ کو ہم طوطی کی آواز بنا دیتے ہیں، جسے سنتا کون ہے۔ بس ایک شور ہے، ڈھول ہے اور جس میں صرف میاں دے نعرے وجدے ہیں۔
ظل سبحانی نوازشریف صاحب
یہ ٹھیک ہے کہ میرے لفظ برائے فروخت ہیں، میرا کام "درمیانوں” میں درمیان داری سے بھی گیا گزرا ہے۔ میں ازل کی لعنت بن کر ابد تک پھیلا دیا گیا ہوں۔ میرا وجود تہمت بن کر میرے ہی گردن میں طوق کے طور پر پڑا ہے۔ میرا مقام ، میری ہی نظروں میں نیچ سے بھی گیا گزرا ہے۔ مگر آپ کو بھی اپنے بغلچیوں، ڈھنڈورچیوں ، طبلچیوں کی یہی اسناد تو درکار ہیں۔ میری حالیہ کارکردگی بھی آپ کے علم میں ہوگی، آپ جب علاج کے بہانے سارے نظام کو چکر دیتے ہوئے یہاں سے رفو چکر ہوئے تو میں نے بھی اس کی تائید میں چکرا دینے والے عذر تراشے تھے۔ تب آپ کے جانے اور اب آپ کے آنے کو میں پاکستان کے اندر پاکستان سے بڑھ کر ثابت کردوں گا۔ میں اب بھی مکمل برائے فروخت ہوں، میں اپنے لفظوں سے آپ کی بلائیں اُتاروں گا۔ آپ کی آمد شریف کو ایران میں خمینی کی آمد بنا ڈالوں گا۔ آپ کے استقبال کے لیے نہ دکھائی دینے والوں کو لوگوں کی نظروں میں انڈیل دوں گا۔
حضور والا!
آپ سے مگر مودبانہ گزارش ہے کہ ہمیں یہ تو بتا دیں کہ جنرل باجوہ کو اب کیا سمجھنا ہے؟ ووٹ کو عزت دینے والے نعرے کا کیا کرنا ہے؟ اسٹیبلشمنٹ سے تعلق کو قوم کی ضرورت باور کرانا ہے یا ملکی ترقی کے لیے اسٹیبلشمنٹ کو حدود آشنا کرنے کا بھاشن شریف دینا ہے۔ اور ہاں سب سے بڑھ کر شہباز شریف کی سولہ ماہ کی حکومت کو کہاں پٹخنا ہے؟ رہنمائی دیتے ہوئے یہ دھیان رکھیے گا کہ ان دنوں پاکستان میں گالیاں بہت پڑتی ہیں۔
محترم نوازشریف صاحب!
ایک گزارش یہ بھی ہے کہ ہمارے محنتانے میں کچھ اضافہ فرما دیں، آپ کی وظیفہ خواری میں اب خجل خواری زیادہ ہے۔ عزت بھی کوئی نہیں رہی، گالیاں زیادہ پڑتی ہیں پھر”چھوٹے” کی سولہ ماہ کی حکومت نے مہنگائی کا جو طوفان برپا کیا، اس میں موجودہ وظیفہ کافی نہیں۔ حضور نیا موقف اختیار کرتے ہوئے یہ بھی مدنظر رکھیں کہ نازبرداری اور بار برداری میں کچھ تو فرق ہوتا ہے۔ اپنے اصطبل کے گھوڑوں کو گدھے تو نہ سمجھیں۔ پاکستان اب ویسا نہیں رہا جیسا آپ چھوڑ گئے تھے۔ اپنی تازہ خیر خبر سے آگاہ رکھیں۔
فقط
آپ کے بے شرم قلم قبیلے اور زباں دراز فتنہ طراز جتھے کامنگتا رکن


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں