شہریوں کا فوجی ٹرائل، فل کورٹ کی استدعا مسترد
شیئر کریں
سپریم کورٹ آف پاکستان نے فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا مسترد کردی گئی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ اے ملک پر مشتمل 6 رکنی لارجر بینچ نے عام شہریوں کے ملٹری ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی ۔ سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ فیصل صدیقی کی درخواست پر تین نکات پر بات کروں گا، گرفتار افراد کی فیملیز سے ملاقات سمیت تمام یقین دہانی ہم کروا چکے ہیں، مرضی کا وکیل کرنے اور تفصیلی وجوہات پر مشتمل فیصلہ دینے کا کہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بھی یقین دہانی کروائی ہے کہ کسی شخص کو سزائے موت یا عمرقید نہ ہو، تمام 102 افراد کے وقار اور احترام کی ضمانت دی جاتی ہے، کسی کے ساتھ برا برتاؤ نہیں ہوا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ لطیف کھوسہ نے گرفتار ملزمان سے ناروا سلوک کی شکایت کی، میں نے خود چیک کیا، کسی ملزم کے ساتھ ناروا سلوک نہیں ہوا، ملزمان کو صحت سمیت تمام سہولیات میسر ہیں، ملزمان کے خلاف ناروا سلوک ہوا تو ایکشن ہوگا۔ دوران سماعت عدالت نے فل کورٹ کی درخواست کرنے والے وکیل فیصل صدیقی کو روسٹرم پر بلا لیا، دریں اثنا عدالت نے گزشتہ روز محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا مسترد کر دی۔ چیف جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیے کہ ہم نے فل کورٹ کی تشکیل پر مشاورت کی ہے، ہم آپ کے تحفظات کی قدر کرتے ہیں لیکن ستمبر تک فل کورٹ بینچ دستیاب نہیں ہے، 2 مرتبہ معمول سے بڑا لارجر بینچ بنایا وہ مکمل سماعت نہیں کرسکا، لارجر بینچ بنا کر مقدمے کی سماعت کرنا تو ناممکن ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جہاں پر دلائل رکے تھے وہاں سے ہی شروع کر دیں، اپنا کام جاری رکھیں گے کوئی پسند کرے یا نہ کرے، ملک میں کون سا قانون چلے گا یہ فیصلہ عوام کریں گے، ہم نے کام ٹھیک کیا یا نہیں تاریخ پر چھوڑتے ہیں، اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے تاریخ سب دیکھ رہی ہے، ہمیں تنقید کی کوئی پروا نہیں، ہم صرف اللہ کو جواب دہ ہیں۔