میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
عدالتی فیصلے پرردعمل اوربہتان تراشی کی سیاست

عدالتی فیصلے پرردعمل اوربہتان تراشی کی سیاست

ویب ڈیسک
بدھ, ۲ اگست ۲۰۱۷

شیئر کریں

وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر نے وضاحت کی ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف کی بطور وزیراعظم نااہلی کے فیصلے کے بعد انہوں نے کوئی غلط بات نہیں کی، ان سے غلط بات منسوب کی گئی جس پر انہیں افسوس ہے۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر نے کہا کہ ‘میں نے سپریم کورٹ پاکستان کے فیصلے پر جو کہا اس پر ابھی بھی قائم ہوں، میں نے کوئی غلط بات نہیں کی، بلکہ میرے الفاظ کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا’۔پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما عمران خان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کی بطور وزیراعظم نامزدگی سے عمران خان کی ملک کے ساتھ سنجیدگی ظاہر ہوتی ہے۔راجہ فاروق حیدر نے پاکستانی ذرائع ابلاغ کے اداروں سے اپیل کی کہ کشمیر ایک نازک معاملہ ہے، اسے میڈیا کی جنگ میں نہ گھسیٹیں۔ان کا کہنا تھا کہ وہ قائداعظم کے پاکستان کے حامی ہیں اور اگر انہوں نے کوئی غلط بات کی ہے تو انہیں پکڑ لیا جائے۔وزیر اعظم آزاد کشمیر نے کہا کہ عمران خان خان کے بیان سے ان کی اور کشمیری عوام کی بے عزتی ہوئی ہے اور وہ کبھی بھی اپنی اور کشمیری عوام کی بے عزتی برداشت نہیں کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے بیان کی وضاحت کردی اب وہ آزاد کشمیر کے عوام کے پاس جاکر اپنا مقدمہ پیش کریں گے۔خیال رہے کہ راجا فاروق حیدر نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں دیگر اراکین کے ساتھ شرکت کی تھی بعد ازاں پریس کانفرنس کے دوران مبینہ طور پر ان سے منسوب کردہ یہ بیان سامنے آیا تھا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے نوازشریف کی نااہلی کے بعد سنجیدگی سے سوچنا پڑے گا کہ پاکستان سے الحاق کریں یا کسی اور ملک سے۔بعد ازاں وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر نے کسی دوسرے ملک سے الحاق سے متعلق بیان کی سختی سے تردید اور وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ان کی بات کا مطلب یہ تھا کہ کشمیری الحاقِ پاکستان کے علاوہ اور کچھ نہیں چاہتے۔
نواز شریف کی بطور وزیراعظم نااہلی کے فیصلے کے بعد مختلف حلقوں سے مختلف انداز کے ردعمل سامنے آنا خاص طورپر نواز شریف کے حامیوں کی جانب سے اس پر شدید ردعمل کے اظہار کوکسی بھی طور غیر متوقع اورحیران کن قرار نہیں دیاجاسکتا اس اعتبار سے وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر کے متنازع بیان کو بھی ان کاجوش خطابت قرار دے کر نظر انداز کیاجاسکتاتھا لیکن چونکہ ان کے اس متنازعہ بیان کا تعلق براہ راست پاکستان کے انتہائی حساس معاملے اور بھارتی جارحیت اور سفاکی سے دوچار مظلوم کشمیری عوام سے تھا اس لئے پاکستان کے مختلف حلقوں کی جانب سے اس پر شدید ردعمل آنا بھی فطری عمل ہے ۔پانامہ کیس میں ابتدائی فیصلے پر ہر طرح کا ردعمل سامنے آرہا ہے۔ نواز شریف تو ظاہر ہے براہ راست اس کانشانہ بنے ہیں اس لئے وہ اس پر سخت ردعمل دیں گے ہی لیکن اس حوالے اب تک سامنے آنے والا سب سے خوفناک ردعمل آزاد جموں وکشمیر کے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کے ردعمل کو ہی قرار دیاجاسکتاہے۔ گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی نااہلی بغاوت ہے کسی منصف میں جرات ہے تو پرویز مشرف کو کٹہرے میں لائے انہوں نے فیصلے کو فکسڈ قرار دیا،جبکہ بعض اخبارات میں آزاد کشمیر کے وزیراعظم فاروق حیدر کا جو بیان شائع ہوا اس میں ان سے یہ منسوب کیاگیا ہے کہ انھوں نے کہا ایک بار پھر نظریہ ضرورت زندہ کردیا گیا۔ یہ کونسا فیئر ٹرائل ہے کہ نواز شریف کو اپیل کا بھی حق نہیں اب بطور کشمیری سوچنا پڑے گا کہ کس ملک سے الحاق کرنا ہے۔ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم نواز شریف کے ذاتی دوست بلکہ نمک خوار رہے ہیںان کے اس بیان سے قطع نظر خود جناب نواز شریف کا ردعمل راجہ فاروق حیدر کے لب ولہجے سے کچھ کم نہیں تھاانھوں نے اپنے بیان میں بھی یہ کہہ کر کم وبیش اسی طرح کااشارہ دیا تھا کہ وزیراعظم اگر ایسے ہی جاتے رہے تو ڈر ہے ملک کو کوئی حادثہ نہ ہوجائے۔ بعض دیگر لیگی رہنماؤں کی جانب سے بھی نااہلی کے فیصلے کو ظلم قرار دیا گیا ہے،اگرچہ راجہ فاروق حیدر خان نے اپنے اس مبینہ بیان کی وضاحت کرنا شروع کردی ہے،لیکن ان کی وضاحتوں میںبھی ان کے دل میں لگی ہوئی آگ کی تپش باآسانی محسوس کی جاسکتی ہے۔ اس حوالے سے اب یہی کہاجاسکتاہے کہ عدلیہ کے فیصلے پر ردعمل کااظہار ضرور کریں لیکن عدلیہ کے کسی فیصلے کو بنیاد بناکر بہتان تراشی کی سیاست کسی طور مناسب نہیں ہے۔نواز شریف اور ان کے رفقا کو بطور خاص اس کاخیال رکھنا چاہئے اور اس پر سختی سے عمل کرنا چاہئے تاکہ ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کا وقار مجروح نہ ہو۔
دوسری جانب پی ایم ایل ن کی پارلیمانی پارٹی نے نواز شریف کی سربراہی میں شاہد خاقان عباسی کو عبوری وزیراعظم اور شہباز شریف کو مستقل وزیراعظم نامزد کردیا ہے۔اس سے یہ حقیقت بہر حال واضح ہوگئی ہے کہ شریف خاندان وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے کو اپنے خاندان کی وراثت تصور کرتاہے اوراس کاخیال ہے کہ کوئی دوسرا اس کا اہل ہی نہیں اور نہ ہی عوام کو یہ موقع مل سکتا ہے کہ وہ خاندان کے باہر کسی دوسرے کو اقتدار میں لانے کا سوچیں۔ اس سارے منظر نامے میں فاروق حیدر اور حفیظ الرحمن کا ردعمل محل نظر ہے انہیں ایسی کیا مجبوری درپیش ہے کہ وہ حد سے ہی تجاوز کرگئے۔ فاروق حیدر کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ کشمیر کے مستقبل کے بارے میں اپنی سوچ میں تبدیلی لائیں۔ تحریک آزادی کشمیر کے بیس کیمپ میں بیٹھ کر اس طرح کے بیانات دینا سیاسی اخلاقی لحاظ سے کسی طور مناسب نہیں۔ ارباب اقتدار ہی کو نہیں خود نواز شریف کو بھی فاروق حیدر کے اس بیان کا فوری نوٹس لینا چاہئے کہ انہوں نے ایسا بیان کس مجبوری یا کس ضرورت کے تحت دیا ہے۔ اسی طرح جناب حفیظ الرحمن کا مملکت کی عدالت عظمیٰ کے بارے میں ایسے خوفناک ریمارکس بذات خود بغاوت کے زمرے میں آتے ہیں۔ پانامہ ایشو جب شروع ہوا تو یہی کہا گیا تھا کہ پارلیمنٹ میں اسے زیر بحث لایا جائے اور اس کا حل نکالا جائے گا مگر خود حکومت کی عدم دلچسپی اور عدم پیروی کی بنیاد پر یہ مقدمہ عدلیہ کو لینا پڑا۔ اور عدلیہ میں بھی اس مقدمے کو قانونی اور آئینی طریقے سے لڑنے کے بجائے حکومتی پارٹی نے سیاسی جنگ میں تبدیل کیا اور ہمیشہ یہی کہا جاتا رہا کہ کسی مائی کے لال کو جرات نہیں کہ وزیراعظم کو فارغ کرسکے یہ حق صرف اور صرف عوام کو حاصل ہے۔20 کروڑ عوام نے منتخب کیا ہے اور وہی انھیں ہٹا سکتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا رہا کہ ہر حال میں وزیراعظم کو اپنی مقررہ مدت پوری کرنا ہے۔ ابھی بھی یہی کہا جارہا ہے کہ کرپشن پر نااہل نہیں ہوا جبکہ دیگر جملہ معاملات پر ریفرنس دائر کئے جارہے ہیں ایس ای سی پی کہے جارہا ہے کہ ریکارڈ میںٹمپرنگ کی گئی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آئین میں 63,62 غیر ضروری ہیں اس پر تو کوئی بھی پورا نہیں اترتا جبکہ تقریروں میں مثالیں حضرت عمرؓکی دی جاتی ہیں۔ تو کیا حکمران اپنے دور اقتدار میں جوابدہ نہیں ہوتا؟ کہنے کو تو پارلیمنٹ سپریم ہے اور اصولی طور پر وزیراعظم اور وزرا پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں کیونکہ یہ عوام کا نمائندہ فورم ہے مگر اہم ایشوز پر پارلیمنٹ کو کبھی اعتماد میں نہیں لیا گیا ، پانامہ ایشو پر بھی پارلیمنٹ میں کی گئی تقریر سپریم کورٹ میں سیاسی بیان قرار دے کر جان چھڑالی گئی گویا یہ تسلیم کیا گیا کہ پارلیمنٹ کو بیوقوف بنایا یا دھوکہ دیاگیا۔ نواز شریف اور لیگی رہنمائوں نے بار بار کہا کہ عدلیہ کے فیصلے کو من و عن تسلیم کیا جائیگا مگر اب جس طرح مختلف طریقوں سے فیصلے کو نشانہ تنقید بنایا جارہا ہے وہ کوئی صحت مند سیاسی رجحان کی نشاندہی نہیں کرتا یوں لگتا ہے کہ ہم ایک روایت کو جنم دے رہے ہیں جو نہ جمہوریت کیلئے بہتر ہے اور نہ ہی ملکی سیاست کیلئے بہتری کا باعث ہوگی۔ ریاستوں کے معاملات کو احسن اور فعال طریقے سے چلانے میں اداروں کا رول بڑا اہم ہوتا ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ جمہوریت میں ادارے مستحکم اور آزاد ہوتے ہیں۔ اگر محض سیاسی اور ذاتی مفادات کی خاطر اداروں کو متنازعہ بنایا جائے تو یہ کسی طور بھی نہ ریاست کیلئے نہ سیاست کیلئے نہ جمہوریت کیلئے نہ عوام کیلئے مناسب ہوگا۔ نواز شریف کو ہمیشہ اداروں سے انصاف ملا ہے تین وزرا اعظموں کی حکومتیں عدالتوں سے بحال نہ ہوسکیں مگر نواز شریف کی حکومت بحال ہوئی۔ بھٹو دور میں بڑے بڑے ادارے قومیائے گئے مگر محض چند سال بعد ہی صرف اتفاق فونڈری ہی واپس کی گئی ان کے ساتھ ہی بیکو بھی تھی مگر وہ ابھی تک حکومت کے کنٹرول میں ہے۔ نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کو عدلیہ پر اعتماد ہونا چاہئے۔ انہیں ضرور انصاف ملے گا مگر انصاف مرضی کا نہیں ملتا انصاف تو انصاف اور قانون کے تحت ہی ہوتا ہے۔ ساتھ ہی انہیں اللہ سے اپنی ان تمام کوتاہیوں کی معافی مانگنی چاہئے جن کی بناپروہ انصاف مانگنے والوں کو انصاف دلانے میں ناکام رہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں