میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
'گؤرکشا'کے نام پر درندگی اور بربریت

'گؤرکشا'کے نام پر درندگی اور بربریت

ویب ڈیسک
پیر, ۲ جون ۲۰۲۵

شیئر کریں

معصوم مرادآبادی

 

گائے کی حفاظت کے نام پر ملک میں جو کچھ ہورہا ہے ، وہ درندگی اور بربریت کے سواکچھ نہیں ہے ۔ کسی بھی بے گناہ پر گؤ کشی کا الزام لگاکر اس کی جان لی جاسکتی ہے یا اسے اس حدتک مجروح کیا جاسکتا ہے کہ وہ ساری عمر دردوکرب سے کراہتا رہے ۔بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں گائے کی حفاظت کے لیے ایسے سخت قانون بنائے گئے ہیں کہ کوئی بھول کر بھی گؤکشی کا ارتکاب نہیں کرسکتا۔لیکن اس معاملے میں حکومت کی مشنری نے نام نہاد ‘گؤرکشکوں’ کو جو اختیار دے رکھے ہیں، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک میں ‘گؤ رکشکوں’ کی مساوی حکومت قائم ہے ۔ یوں تو ملک میں قانون کی حکمرانی کا ڈھول پیٹا جاتا ہے ، لیکن نام نہاد گؤ رکشکوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ جب اور جہاں چاہیں گوشت کا کاروبار کرنے والوں پر قہر ڈھاسکتے ہیں۔ ان پر گؤ کشی کا جھوٹا الزام لگاکر ان کی جان بھیلیسکتے ہیں۔ پولیس ایسے معاملوں میں خاموش تماشائی کی ‘بھومیکا’ میں نظر آتی ہے ۔ گویا اب ملک میں انسانی جان سے زیادہ قیمتی جانوروں کی کھال ہے ، جس میں بھوکے بھیڑئیے چھپے بیٹھے ہیں، جو صرف مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ مسلمانوں کی جان اس ملک میں کتنی ارزاں ہے ،اس کا اندازہ گزشتہ ہفتہ علی گڑھ میں ہوئی اس واردات سے بھی ہوتا ہے جس میں ‘گؤ کشی’ کا جھوٹا الزام لگاکر چار بے گنا ہ مسلمانوں کو اتنی بے دردی سے مارا گیا ہے کہ اسے دیکھ کر شیطان بھی پناہ مانگنے لگے ۔
درحقیقت ملک میں گائے کی حفاظت کے نام پر جرائم پیشہ ہندتو وادیوں کے ایسے منظم گروہ سرگرم ہیں جو گوشت کے تاجروں سے ناجائز وصولی کرتے ہیں اور اگر یہ تاجر ان کے مطالبات کوپورا نہیں کرتے تو انھیں جان سے مارنے کی کوشش کی جاتی ہے ، کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ گائے ذبح کرنے کا الزام عائد کرکے جس کسی کو مارا جائے گا، اس کے معاملے میں سرکاری مشنری گھٹنوں پر آجاتی ہے اور وہ قانون شکنی کرنے والوں پر کارروائی کرنے کی بجائے الٹے مظلوموں کو ہی پکڑتی ہے ۔ علی گڑھ میں بھی گزشتہ سنیچر کویہی ہواہے ۔پہلے ان چار مسلمانوں کے خلاف کارروائی کی گئی جنھیں گائے کا گوشت اسمگل کرنے کے جھوٹے الزام میں برہنہ کرکے لوہے کی سلاخوں،دھاردار ہتھیاروں اور پتھروں سے اس قدر سفاکی سے پیٹا گیا کہ وہ بری طرح لہولہان ہوگئے ۔ حالانکہ ان کے پاس باقاعدہ بھینس کے گوشت کی رسید تھی۔اگر بروقت انھیں اسپتال نہیں پہنچایا جاتا تو ان چاروں کی موت واقع ہوسکتی تھی۔ان میں ایک کی حالت اب بھی نازک ہے ۔ایک تازہ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے جس وقت ان چاروں کو پولیس نے اپنی گاڑی میں بٹھایا اس وقت بھی شرپسند انھیں زدوکوب کررہے تھے اور پولیس خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی۔ان چاروں بے گناہوں کے نام عقیل (26سال)ارباز(27سال)قدیم (28سال)اور عاقل (28سال)ہیں
حالانکہ مسلمانوں کے احتجاج کے بعد پولیس نے حملہ آوروں کے خلاف بھی کارروائی کی ہے اور بعض کو گرفتار بھی کیا گیا ہے ، لیکن یہ کارروائی اتنی ہلکی ہے کہ ملزمان آسانی سے چھوٹ جائیں گے اور مظلوموں کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے ساری عمر ایڑیاں رگڑنی پڑیں گی۔ حالانکہ جسے گائے کا گوشت قرار دے کر انھیں وحشت وبربریت کا نشانہ بنایا گیاتھا، وہ لیب رپورٹ میں بھینس کا گوشت ثابت ہوچکا ہے ۔اس بات کی تصدیق خود علی گڑھ کے ڈی آئی جی پربھاکر چودھری نے کی ہے ۔اس کے بعد مظلومین پر سے گؤ کشی کے الزامات تو ہٹالئے گئے ہیں، لیکن انھیں مویشیوں سے متعلق دیگر قوانین کے تحت ماخوذ کرلیا گیا ہے ۔
واضح رہے کہ متاثرین جس گاڑی میں سفر کررہے تھے وہ ‘العمار فروزن فوڈ ز ایکسپورٹ پرائیویٹ لمیٹڈ’ کی ملکیت ہے جو بھینس کے گوشت کی ایک لائسنس یافتہ کمپنی ہے ۔ حملہ آوروں نے متاثرین کو راستے میں روک کر ان سے رقم مانگی اورانکارکرنے پرپہلے گاڑی کو نذرآتش کیا اور پھر ان پر بھونکے بھیڑیوں کی طرح ٹوٹ پڑے ۔ اس سلسلہ میں ‘سٹیزن فار فریٹر نٹی’ نامی تنظیم نے یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو جو خط لکھا ہے اس میں اس واقعہ کی گؤ دہشت گردی کا کھلا اور سنگین مظاہرہ قراردیتے ہوئے متاثرین کو فوری انصاف فراہم کرنے اور اس قسم کی وارداتوں کی روک تھام کے لیے سخت اقدامات کی اپیل کی ہے ۔ دوسری طرف سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے سپریم کورٹ سے اپیل کی ہے کہ علی گڑھ میں گوشت کے تاجروں کو بے دردی سے پیٹے جانے کے واقعہ پروہ ازخود نوٹس لے کر کارروائی کرے ۔ انھوں نے سپریم کورٹ کے نام اپنے خط میں سوال کیا ہے کہ”کیا امن امان برقرار رکھنے اور انصاف فراہم کرنے کے لیے پولیس اور عدلیہ موجود نہیں ہے ؟ کیا اب مشتعل ہجوم سڑکوں پر جھوٹے الزامات لگاکر بے گناہ شہریوں کو بے دردی سے مارے گا’؟ انھوں نیلکھاکہ”یہ انتشار پسند اور تشدد پسند عناصر معاشرے میں نفرت کا زہر پھیلارہے ہیں اور ملک کی داخلی سلامتی اور اتحاد کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔
درندگی اور بربریت کا شکار ہونے والے اترولی کے باشندے عقیل کے والد سلیم خان نے پولیس میں رپورٹ درج کرائی ہے کہ ان کا بیٹا عقیل، بھتیجا ارباز اپنے دوساتھیوں کے ساتھ العمار گوشت فیکٹری سے بھینس کا گوشت لے کر اترولی آرہے تھے ۔ جب گاڑی سادھو آشرم مارگ پر پہنچی تو وہاں رام کمار آریہ اور ارجن سنگھ عرف بھولو نے اپنے بیس پچیس ساتھیوں کے ہمراہ ان کی گاڑی کوروک لیا اور پچاس ہزار روپے کا مطالبہ کیا۔ جب انھوں نے پیسے دینے سے انکار کیا تو سب نے انھیں جان سے مارنے کی نیت سے بری طرح مارنا پیٹنا شروع کردیا۔ ان سبھی نے چاروں کو انتہائی بے رحمی سے پیٹا۔ ملزمین نے زخمیوں سے نقدی اور موبائل بھی چھینے ۔ واضح رہے کہ اب سے پندرہ دن پہلے بھی اترولی کی جانب گوشت لے جارہی اسی گاڑی کوروکا گیاتھا اور ہفتہ وصولی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ لیکن اکبرآباد پولیس نے تاجروں کے پاس لائسنس اور بھینس کے گوشت کی رسید ہونے کی وجہ سے اس گاڑی کو چھڑوادیا تھا۔ اس کے بعد سے شرپسند پولیس پر الزام لگارہے تھے کہ وہ گوشت تاجروں سے ملی ہوئی ہے ۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس معاملے میں گوشت کے تاجروں کے خلاف وجے بجرنگی نے یوپی کے گائے ذبیحہ روک تھام ایکٹ کے تحت جو رپورٹ درج کرائی ہے اس میں مظلومین پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ پولیس کو تین لاکھ روپے کی رشوت دے کر گائے کا گوشت اسمگل کررہے تھے ۔ اس سے دوباتیں ثابت ہوتی ہیں کہ اترپردیش کی یوگی سرکار نے گائے کے ذبیحہ کو روکنے کے لیے جو قانون بنایا ہے وہ دراصل ناجائز وصولی کا ایک ذریعہ ہے اور اس کی آڑ میں نام نہاد گؤ رکشک اور پولیس خوب پیسہ کمارہے ہیں۔ ناجائز وصولی کے اس دھندے نے گوشت کے تاجروں کا جینا حرام کردیا ہے ۔گوشت کی نقل وحمل میں دی جانے والی رشوت کے سبب گوشت کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں۔اس وقت بی جے پی ریاستوں میں گائے کے ذبیحہ کے خلاف جو سخت ترین قانون موجود ہے ، اس کی روشنی میں کوئی بھی گائے ذبح کرنے یا اس کا گوشت اسمگل کرنے کی ہمت نہیں کرسکتا۔ لیکن اسن کے باوجود ملک میں گائے کے نام پر بے گناہوں کا جینا حرام کردیا گیا ہے اور اس سلسلے میں اب تک 100سے زیادہ بے گناہ مسلمانوں کو ہجومی تشدد میں انتہائی بے دردی سے ہلاک کیا جاچکا ہے ۔ یہاں تک کہ بعض واقعات میں گؤرکشکوں نے ہندو نوجوانوں کو بھی مسلمان سمجھ کر نشانہ بنایا ہے ، لیکن حکومت ابھی تک اس ظلم وبربریت کو روکنے میں ناکام ہے ۔ علی گڑھ کے واقعہ میں نام نہاد گؤ رکشکوں نے جن چار مسلمانوں کو درندے بن کر بری طرح مارا پیٹا ہے ، ان کے لہولہان جسم کو دیکھ کر کوئی بھی انسان اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پایا۔ ان چاروں کے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں تھا جسے لوہے کی راڈوں اور دیگر ہتھیاروں سے زخمی نہ کیا گیا ہو۔ ان لہولہان نوجوانوں کو دیکھ کر ہمیں سیدحامد کا یہ شعر یاد آیا، جو انھوں نے بہت پہلے مسلمانوں کی حالت زار کے بارے میں کہا تھا
ایک دوزخم نہیں جسم ہے ساراچھلنی
دردبیچارہ پریشاں ہے کہاں سے اٹھے


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں