میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
لانگ مارچ روکنے کیلئے حکومتی اقدامات کے خلاف مقدمہ کا تحریری حکم نامہ آگیا

لانگ مارچ روکنے کیلئے حکومتی اقدامات کے خلاف مقدمہ کا تحریری حکم نامہ آگیا

ویب ڈیسک
جمعرات, ۲ جون ۲۰۲۲

شیئر کریں

سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کے احتجاج سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی آئینی درخواست اور حکومت کی جانب سے دائرمتفرق درخواست کا تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)قیادت کے خلاف کارروائی کا عندیہ دے دیا ہے جبکہ پانچ رکنی بینچ کے رکن جسٹس یحیی آفریدی نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے عدالتی حکم عدولی پرسابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا حکم دیا ہے۔ عدالت عظمی کی جانب سے کل 14صفحات پر مشتمل حکم نامہ جاری کیا گیاہے ، 12 صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا جس میں کہا گیا کہ حقائق جاننے کیلئے واقعات کی تصدیق کی ضرورت ہے، عدالتی احکامات اور دی گئی یقین دہانی کو نظر انداز کرنے پر علیحدہ کارروائی کی ضرورت ہے۔جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے دو صفحات پر مشتمل اختلانی نوٹ لکھا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے اکثریتی فیصلے میں کہا ہے کہ عدالت کی نیک نیتی سے کی جانے والی کوشش کی بے توقیری دیکھ کر مایوسی ہوئی، سپریم کورٹ کا حکمنامہ فریقین کے مابین عوام کے حقوق کے تحفظ کیلئے تھا، سپریم کورٹ کا فیصلہ فریقین کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے دیا گیا تھا۔فیصلے میں کہا گیا کہ موجودہ صورتحال میں فریقین کی اخلاقی بلندی میں کمی ہوئی ہے، توقع ہے کہ پی ٹی آئی قیادت اور حکومتی عہدیدارمنصفانہ ضابطہ اخلاق کی پاسداری کریں گی، پر امن احتجاج آئینی حق ہے، پرامن احتجاج کا آئینی حق ریاست کی اجازت سے مشروط ہے۔ علاوہ ازیں عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ آزادانہ کارروائی کے لیے قابل اعتماد مواد کی ضروت ہے، تحریک انصاف کی قیادت اور مظاہرین نے احتجاج ختم کردیا ہے، آزادانہ نقل و حرکت میں کوئی رکاوٹ نہیں۔تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ عدالت درخواست دائر کرنے کا مقصد پورا ہوچکا، عدالت اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست کو نمٹایا جاتا ہے، عدالت کا کہنا ہے کہ لانگ مارچ کے ختم ہونے کے بعد تمام شاہراوں کو کھول دیا گیا، احتجاج کے حق کو بغیر ٹھوس وجوہات کے نہیں روکنا چاہیے۔ عدالت نے آئی جی پولیس، چیف کمشنر اسلام آباد، ڈی جی آئی بی اور ڈی جی آئی ایس آئی، سیکرٹری وزارت داخلہ سے بھی ایک ہفتے میں سوالوں کے جواب طلب کر لیے۔سوالات میں پوچھا گیا کہ عمران خان نے پارٹی ورکرز کو کس وقت ڈی چوک جانے کی ہدایت کی؟ کس وقت پی ٹی آئی کارکنان ڈی چوک میں لگی رکاوٹوں سے آگے نکلے؟ کیا ڈی چوک ریڈ زون میں داخل ہونے والے ہجوم کی نگرانی کوئی کررہا تھا؟ کیا حکومت کی جانب سے دی گئی یقین دہائی کی خلاف ورزی کی گئی؟ کتنے مظاہرین ریڈزون میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے؟ سوالات میں پوچھا گیا کہ ریڈ زون کی سکیورٹی کے انتظامات کیا تھے؟ ایگزیکٹو حکام کی جانب سے سکیورٹی انتظامات میں کیا نرمی کی گئی؟ کیا سکیورٹی بیریئر کو توڑا گیا؟ کیا مظاہرین یا پارٹی ورکر جی نائن اور ایچ نائن گراونڈ میں گئے؟ عدالت نے زخمی، گرفتار اور ہسپتال میں داخل ہونے والے مظاہرین کی تفصیلات بھی طلب کر لیں۔ ثبوتوں کا جائزہ لے کر فیصلہ کیا جائیگا کہ عدالتی حکم کی عدم عدولی ہوئی یا نہیں، کیا حکومت کو دی گئی یقین دہائی کی خلاف ورزی کی گئی؟عدالت نے کہا ہے کہ یہ رپورٹس فاضل بینچ کے رکن ججز کے چیمبرز میں جمع کرائی جائیں ۔ عدالت نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد ہونے والے واقعات کی تصدیق کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سپریم کورٹ کو یقین دہانی کے بعد جاری فیصلے کی حکم عدولی کی کاروائی کس کے خلاف کی جانی چاہیئے۔ عدالت نے ابزرویشن دی ہے کہ یہ ممکن ہے کہ عدالت کو کرائی گئی یقین دہانی کی خلاف ورزی کی گئی ہے تو ااس کی الگ سے کارروائی کی جاسکتی ہے ۔اٹارنی جنرل کی استدعا غلط طریقے سے اخذ کی گئی ہے اس لئے اٹارنی جنرل کی طرف سے دائر درخواست خارج کی جاتی ہے۔ جسٹس یحیی آفریدی نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔ پی ٹی آئی چیئر مین کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا کافی مواد موجود ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں