موت کافرشتہ
شیئر کریں
15 اکتوبر 1218ء کو پیدا ہونے والے ہلاکو خان کو دنیا کا سفاک ترین انسان کہاجاسکتاہے ظلم و بربریت کی نئی مثالیں قائم کرنے کے حوالے سے اس نے اتنے ریکارڈبنائے کہ انسانیت بھی شرما گئی مفتوح ملکوں کے شہریوں کی کھوپڑیوںکے میناربنانا ہلاکو خان کا محبوب مشغلہ تھا یہی وجہ تھی کہ وہ وحشت،ظلم اور تباہی وبربادی کی علامت بن کر آج بھی تاریخ میں زندہ ہے۔
8 فروری 1265 ء کا سورج بڑی آب وتاب سے چمک رہاتھادوپہرکے وقت مسلمان قیدیوں کو جب قطاراندرقطار دنیا کے سب سے بڑے ظالم ا ور وحشی ترین انسان ہلاکو خان کے سامنے لایا گیاڈرے ڈرے سہمے سہمے قیدی اپنے گھوڑے پہ شان سے بیٹھے ہلاکو خان کو دیکھ کر مزید خوفزدہ ہوگئے ،ان کے چاروں طرف تاتاری افواج کی صف آراستہ کھڑی تھیں، اس کے حکم پر قیدی مسلمانوں کی تین صفیں بنادی گئیں اسی اثناء میں کئی جلاد ننگی تلواریں لیے ،ان کے سامنے آکھڑے ہوئے دھوپ میں تلواروںکے پھل چمکتے تو کئی قیدیوںکے دل دہل دہل جاتے ہلاکو خان نے اپنے گھوڑے کو ایڑھی لگائی اور ایک صف کے مقابل آن کھڑاہوا اس نے اشارے ے دو ہٹے کٹے جلادوںکوآنے کا اشارہ کیا انہوںنے حکم کی تعمیل کی ہلاکو خان نے بڑی نخوت اورفرعونیت سے کہا انکے سر قلم کردو!اس کے لہجے میں بلاکی سفاکیت تھی دونوں جلادوں نے لوگوں کے سر قلم کرنا شروع کردئیے صف میں آہ ہ فغان اور رونے کی آوازوں سے رقت طاری ہوگئی ،آن واحد میں سر تن سے جدا ہونے لگے تھے ،چاروں جانب قتل ہونے والے مسلمان قیدیوں کے جسموںسے ابلنے والے لہو کے فواروں کے چھینٹے دور دور گرنے لگے ، پہلی صف میں ایک کی گردن گئی ،پھردوسرے کی گردن کٹ گئی، تیسرے چوتھے کا سرتن سے جدا ہو اپھر درجنوں بے گناہ مارے گئے، پہلی صف کے آخرمیں نورانی چہرے والا ایک بوڑھا قیدی بھی کھڑا تھا جب اس کی باری آئی ،وہ موت کے ڈر سے دوسری صف میں ،بھاگ گیاہلاکو خان نے بوڑھے کی ا س حرکت کو دیکھا تواس کے چہرے پر سفاکیت ابھر آئی موت کی سفاکیت ۔
ہلاکوخان گھوڑے پہ بیٹھا ہوا ہاتھ میں ایک طاقتور گرز اچھال کر اس موت کے کھیل سے لطف اندوز ہونے لگا ۔اب دوسری صف میں جلادوں نے قیدیوں کوموت کا کفن پہناناشروع کردیا تھا تلوار کے وار سے قیدی گاجرمولیوں کی طرح کٹ کٹ کر گرنے لگے درندگی ماحول پر اس قدر غالب آگئی کہ مسلمان قیدیوںکی آہ وفغان جیسے ان کے سینوںمیں گھٹ کرہ گئی ،آنسو جیسے آنکھوںمیں منجمد ہوگئے ہوں اتنی بے بسی، اتنی ذلت، اتناظلم کہ ہرقسم کی دعائیں،خداتعالیٰ سے شکوے دل ہی دل میں دم توڑ گئے انہوںنے جان لیا تھا کہ اس قضا کو کوئی نہیں ٹال سکتا۔ادھرجلاد بڑی مہارت ے تلوار چلا رہے تھے اور قیدیوںکے جسموں سے خون کے فوارے چھوٹتے اور سر تن سے جداہوکر لاشے زمین پرگرتے کچھ دیر تڑپتے اورپھر آرے ترچھے ہوکر ٹھنڈے ہوجاتے نہ جانے کب تلک موت کا یہ کھیل جاری رہا ،پہلی صف سے بھاگ کر آنے والے بوڑھے کو اس وقت ہوش آیا جب اس نے محسوس کیا کہ اب میری باری آنے والی ہے تو وہ بھاگ کر تیسری صف کے آخرمیں کھڑا ہوگیا ایک جلاد تیزی سے اس کی طرف لپکا لیکن ہلاکو خان نے اسے اشارے سے روک دیا شاید اسے بوڑھے کی بے بسی پر مزا آنے لگا تھا ،ہلاکو خان نے دل ہی دل میں سوچا بکرے کی ماں آخر کب تک خیرمنائے گی؟ اس کی نظریں مسلسل بوڑھے پر جمی ہوئی تھیں کہ تیسری صف تو آخری ہے اسکے بعد یہ بوڑھاکہاں چھپنے کی کوشش میںبھاگ کر کہاںجائے گا ؟ بیوقوف کہیں کا۔ ہلاکو خان سوچ رہاتھا، میرے حکم پر نہ جانے کتنے لاکھوں انسان قتل کردئیے گئے نہ جانے کتنے انسانی کھوپڑیوںکے مینار بنا کرمیں تاریخ میں امر ہوگیاہوں، یہ بوڑھا کب تک موت سے بچے گا ؟اسے بوڑھے کی حرکت پر غصہ بھی آرہاتھا حیرت بھی ہونے لگی تیسری صف کااختتام قریب تھا، ہلاکو خان کی نظریں مسلسل اس بوڑھے پہ تھیں جو انتہائی مضطرب تھا ،بے چین بھی،بے قرار بھی۔۔۔پھر اس کی باری بھی آگئی بھاگنے کو کوئی جا نہیں تھی لیکن اس عالم میں بھی بوڑھے کے چہرے پر ایک عجب آسودگی تھی ۔ جلاد نے تلوار بلندکی بوڑھے نے کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے آنکھیں بندکرلیں اسی اثناء میں ہلاکو خان کی آواز نے ماحول کا طلسم توڑ ڈالا رک جاؤ! اس کو ابھی کچھ نہ کہو ۔۔یقینی موت ٹل چکی تھی تین صفوںکے سینکڑوں قیدیوںمیں ایک وہی زندہ بچا تھا، وہ اس کے سامنے ابھی تک سانس لے رہاتھا جس کے حکم پرسینکڑوں افراد کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا بوڑھے کے ہونٹوںپر مسکراہٹ پھیل گئی یقینا مارنے والے سے بچانے والا قوی ہے۔اسی دوران ہلاکوخان ایک شان ِ بے نیازی سے لاشوں کے درمیان سے گھوڑا لیے اس کے پاس آکھڑاہوااس نے قہقہہ لگاکر کہا بوڑھے موت کے خوف سے توپہلی صف سے تو دوسری صف میں بھاگ گیا پھر تیسری صف تک آگیا بتا اب تو بھاگ کر کہاں جائیگا؟۔ بوڑھا خاموشی سے اسے تکنے لگا پھر ہلاکو خان نے بڑے تکبرسے پوچھا اب تجھے مجھ سے کون بچائے گا ؟
بوڑھے نے آسمان کی طرف دیکھا اور بڑی متانت سے کہا، میں پہلی صف کو اس لیے چھوڑدیا کہ شاید میں دوسری صف میں جاکرموت سے بچ جاؤں، لیکن ایسا نہ ہوا وہاں بھی موت میرے تعاقب میں تھی پھراس امیدپراس صف بھی کو چھوڑ دیا کہ شاید میں بچ جاؤں۔
ہلاکو خان نے گرز کو ہاتھ میں اچھالتے ہوئے کہا بوڑھے لگتاہے موت کو سامنے دیکھ کر تمہارا دماغ چل گیاہے اسی لیے تم بہکی بہکی باتیں کررہے ہو بھلا کوئی تمہیں موت بھی بچا سکتا ہے؟
’’یقینا بچا سکتاہے بوڑھے نے ہلاکو خان کی آنکھوںمیں آنکھیں ڈال کر بڑی جرأت سے جواب دیا
ہلاکو خان نے ایک زور دار قہقہہ لگایاجب تمہارے سامنے سینکڑوں افراد قتل کردئیے گئے تو تم کس باغ کی مولی ہو وہ دیکھو میرے سپاہی قتل ہونے والوں کی کھوپڑیوں کا مینار بنارہے ہیں تمہاری کھوپڑی میں سب سے اوپررکھنے کا حکم دوں گا۔ بوڑھے نے کہا زمین وآسمان کی ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہے جس کی مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا وہی زندگی اور موت پر قادرہے وہ چاہے تو مجھے تجھ سے بچا سکتا ہے ۔
’’کیسے بچا سکتا ہے؟ میں دیکھتاہوں وہ تمہیں مجھ سے کیسے بچاتاہے؟ ہلاکو خان نے ا نتہائی تکبر میں آکر غصے سے کہا ۔ یہ کہتے ہوئے ا سکے ہاتھ سے گرز گر پڑا۔ہلاکو خان ایک بہترین سپہ سالار، چابک دست ہوشیار جنگجو اور چالاک انسان تھا اس نے گھوڑے کے اوپر بیٹھے بیٹھے گرے ہوئے گرز کو اٹھانے کے لیے خود کو جھکایا اس کی کوشش کی تھی کہ گرز کو زمین پہ گرنے سے پہلے اسے ہوا میں ہی پکڑ لے لیکن وہ
توازن کھو بیٹھا ہلاکو خان کا ایک پاؤں رکاب سے نکل گیاجبکہ دوسرا پاؤں رکاب میں ہی پھنس کر رہ گیا تھا لوگوںکے سامنے عجیب منظرتھا دنیاکا بے ر حم ترین انسان کا آدھا جسم گھوڑے پرتھا وہ خودسرکے بل الٹا ہوگیاتھا اس صورت ِ حال میں ہلاکو خان کا گھوڑا اتنا خوفزدہ ہوا کہ آناً فاناً بھاگ کھڑا ہوا ہلاکو خان نے سنبھلنے اور خود کو بچانے کی بڑی کو شش کی لشکر بھی حرکت میں آگیا لیکن طاقتورگھوڑا اس قدر تیزرفتار تھا کہ کسی کے قابو میں نہ آیاوہ ہلاکو خان کو پتھروں میں گھسیٹتا ہوابھاگتا رہا ہلاکو خان کا سر پتھروں سے پٹخ پٹخ کر اس قدر لہولہان ہوگیا کہ اس کی شکل کسی سے پہچانی نہیں جارہی تھی ،چند ہی منٹوں میں ہلاکو خان تڑپ تڑپ کرہلاک ہوگیا ،دنیا کے سب سے بڑے مطلق العنان حکمران کی المناک موت نے سب کو حیران پریشان کردیا ،بوڑھا اللہ کے حضور ربسجدہ ہوگیا پھروہ اٹھا اسے دیکھ کر فوجی انتہائی خوفزدہ ہوگئے وہ جدھرسے گزرتا اسے دیکھ کر تاتارری فوجی چیخیں مارتے ہوئے بھاگ کھڑے ہوتے جیسے انہوںنے موت کے فرشتے کو دیکھ لیا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔