گجرات فسادت، اجتماعی زیادتی ،مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث تمام ملزمان بری
شیئر کریں
بھارت کی عدالت نے گجرات فسادات میں اجتماعی زیادتی اور ایک درجن سے زائد مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث تمام 26 ملزمان کو 20 سال پرانے کیس میں عدم ثبوت کی بِنا پر بری کردیا۔بھارتی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق پنچم حل ضلع کے حلول کے ایڈیشنل سیشن جج لیلا بھائی چوڈاسما کی عدالت نے جمعہ کو 2002 کے فسادات کے دوران مسلمانوں کے قتل عام کے اور اجتماعی زیادتی کے الزام میں 20 سال پرانے کیس میں عدم ثبوت کی بنا پر تمام 26 ملزمان کو بری کردیا، کْل 39 ملزمان میں سے 13 ملزمان کی دورانِ ٹرائل موت ہوگئی تھی۔استغاثہ نے اپنی دلیل کی حمایت میں 190 گواہوں اور 334 دستاویزی ثبوتوں کا جائزہ لیا لیکن عدالت نے دہرا معیار اپناتے ہوئے دلائل کی حمایت نہیں کی۔رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ ملزمان اس ہجوم کا حصہ تھے جنہوں نے 27 فروری کو گودھرا میں سابرمتی ٹرین جلانے کے واقعہ کے بعد یکم مارچ 2002 کو ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات میں قتل عام اور مسلمان خواتین سے اجتماعی زیادتی کی تھی۔ اسی سال 2 مارچ کو کلول پولیس اسٹیشن میں ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی گئی تھی۔ایف آئی آر کے متن کے مطابق 39 ملزمان نے گجرات فسادات کے دوران ایک شخص کو ٹیمپو میں زندہ جبکہ حلول کی طرف آنے والے 38 افراد پر حملہ کرتے ہوئے ان میں سے 11 افراد کو زندہ جلادیا تھا جبکہ ایک خاتون کو اس وقت اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔دوسری جانب بھارت کی ہندو انتہا پسند جماعت شیو سینا نے بھی موجودہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے گجرات فسادات میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا تھا، اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے گجرات فسادات میں مودی کو راج دھرما نبھانے کا حکم دیا تھا جبکہ واجپائی نے مودی کو اپنی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری ادا کرنے کو کہا تھا اور 2004 کے اتنخابات میں شکست پر استعفیٰ بھی طلب کیا تھا۔