میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
عدلیہ کاوقار برقرار رکھنے کے لیے اقدام کی ضرورت

عدلیہ کاوقار برقرار رکھنے کے لیے اقدام کی ضرورت

منتظم
جمعه, ۲ مارچ ۲۰۱۸

شیئر کریں

سپریم کورٹ سے نااہل قرار دئے گئے سابق وزیراعظم نواز شریف نے ایک دفعہ پھر سپریم کورٹ کے فیصلے کو حقارت آمیز طریقے سے ٹھکراتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں آمریت نہیں لیکن پھر بھی اْس دور جیسے فیصلے ہورہے ہیں اور میں برملا کہوں گا کہ میں یہ فیصلے نہیں مانتا۔ لاہور میں مسلم لیگ (ن) کی مرکزی مجلس عامہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ تاریخ کو قبر میں دفن نہیں کیا جاسکتا، 70 سال سے اس ملک میں منتخب وزیراعظم کو کام نہیں کرنے دیا جا رہا ہے، عوام کے ووٹ کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے منتخب وزرائے اعظم کو ذلیل کرکے ہٹا دیا جاتا ہے، ہمیں جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آخر کب تک ایسا ہوتا رہے گا، یہ صورت حال جاری رہی تو ملک کیسے چلے گا؟ مملکتیں عوام کے ووٹ کا تقدس کرنے سے ترقی کرتی ہیں جب کہ اقتدار پر شب خون مارنے سے صرف بحرانی کیفیت پیدا ہوتی ہے جس سے ملک و قوم کا سراسر نقصان ہوتا ہے۔انھوں نے عزت مآب جج صاحبان پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ آپ فوجی آمر کی وفا داری کا حلف لیتے ہیں، آپ پی سی او کے تحت حلف لیتے رہو اور توقع کرتے ہو کہ ہم آپ کے فیصلوں کی تعظیم کرتے رہیں،کم سے کم میں آپ کے فیصلے قبول نہیں کرسکتا۔

اس ملک کی اعلیٰ عدلیہ اورجج صاحبان کے بارے میں نواز شریف کایہ بیانیہ نیا نہیں ہے، سپریم کورٹ سے نااہل قرار دئے جانے کے بعد سے ہی انھوں نے اور ان کی چہیتی صاحبزادی مریم نواز اور ان کے وفادار وزرا نے اس طرح کے ہتک آمیز بیانات کاسلسلہ شروع کررکھا ہے جنھیں سن کر بعض اوقات ان کی ذہنی صحت پر شک ہونے لگتاہے،جہاں تک انصاف کاتعلق ہے تو انصاف کی بنیادی شرط یہی ہے کہ یہ سب کے لیے یکساں ہونا چاہیے۔ بلا تفریق امیر و غریب طاقتور اور کمزور سب کے لیے برابر انصاف ہی انصاف کے نظام کی بنیادی شرط ہے۔ جہاں امیر کے لیے الگ اور غریب کے لیے الگ نظام انصاف موجود ہو اسے انصاف نہیں کہا جاتا۔ اس لیے سب کے لیے یکساں نظام انصاف ہی انصاف کے نظام کی بنیادی شرط ہے۔اس تناظر میں اگر ایک چور کو سزا دے دی جائے اور باقی چور آزاد پھریں تب بھی انصاف نہیں ہے۔ سب کو سزا ملنی ضروری ہے۔ نظام کی خرابی کے باعث اگر کوئی بچ بھی جائے تب بھی نظام انصاف کو ہر وقت یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ وہ سب کو ایک نظر سے دیکھتا اور ایک ترازو میں تولتا ہے۔ اسی لیے عرف عام میں کہا جاتا ہے کہ انصاف اندھا ہوتا ہے۔انصاف کی دیوی کی آنکھوں پر پٹی نظر آتی ہے۔ اس ساری تمہید کا مقصد یہ باور کرانا ہے کہ جب تک طاقتور کو انصاف کے شکنجے میں نہیں جکڑا جائے گا کمزور کے ساتھ انصاف بھی نا انصافی ہی تصور ہو گا۔کچھ اسی قسم کی صورتحال اس وقت ملک میں عدلیہ کے ساتھ بھی ہے۔

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ عدلیہ بطور ادارہ ایک نازک دور سے گزر رہی ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن عدلیہ اپنی بقا کی جنگ بھی لڑ رہی ہے۔ اگر آج عدلیہ کے ذمے دار اس ادارہ کی عزت اور وقار کا تحفظ کرنے میں ناکام ہو گئے تو کل یہ ادارہ پاکستان میں اپنی ساکھ کھو دے گا۔ نظام انصاف اور عدلیہ کسی بھی مہذب معاشرہ کے بنیادی ستو ن ہوتے ہیں۔ قانون کی حکمرانی اور عام آدمی کے حقیقی نگہبان ہوتے ہیں۔ کمزور طاقتور سے اپنا حق لینے کے لیے نظام اور عدلیہ سے ہی رجوع کرتا ہے۔ لیکن اگر کسی ملک میں عدلیہ ہی اپنا وقار کھو دے تو وہاں انصاف نا پید ہو جائے گا۔گلی گلی متوازی نظام انصاف قائم ہو جائے گا۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا نظام آجائے گا۔ آج ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت ملک کے نظام انصاف اور عدلیہ کو للکار رہی ہے۔ گلی گلی للکا رر ہی ہے۔ اس جماعت کی قیادت اپنے خلاف آنے والے فیصلوں کے خلاف رد عمل میں عدلیہ اور نظام انصاف کو چیلنج کر رہی ہے۔ عدلیہ کی ساکھ کو متنازعہ کر رہی ہے۔ جلسوں اور جلوسوں میں ان کو للکارا جا رہا ہے۔

عدلیہ اور نظام انصاف کو سیاست کے میدان میں گھسیٹا جا رہا ہے۔ ایسے میں پاکستان کی عدلیہ اور نظام انصاف کی بقا اور ساکھ سب خطرہ میں آگیا ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ پاکستان میں عام آدمی کو نظام انصاف کی کارکر د گی کے حوالے سے پہلے ہی بہت سے خدشات اور تحفظات ہیں۔ مقدمات میں تاخیر کی وجہ سے لوگ نظام انصاف پر سوال کرتے ہیں۔ ایسے میں اگر اس کی ساکھ بھی چلی گئی تو باقی کچھ نہیں بچے گا۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کیا جائے۔ عدلیہ نے غالباً اسی لیے توہین عدالت کے حوالے سے اپنا رویہ نہایت سخت کرتے ہوئے یہ اعلان کر دیا ہے کہ اب توہین عدالت کرنے والوں کو معافی مانگنے پر بھی معافی نہیں دی جائے گی۔ غیر مشروط معافی کا راستہ بھی بند کر دیا ہے۔ دیکھیں نہال ہاشمی کو سخت سزا دی گئی ہے۔ جیل بھیج دیا گیا ہے۔ دو وفاقی وزرا طلال چوہدری اور دانیال عزیز جو بے وجہ بہت زیادہ بولتے تھے۔ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بن رہے تھے۔سیاسی طور پر غیر اہم ہوتے ہوئے بھی اہم بننے کی کوشش کر رہے تھے۔ انھیں بھی توہین عدالت کے نوٹس جاری کیے گئے۔ کیا یہ کافی نہیں۔ لیکن اگر صورتحال کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ کافی نہیں ہے۔ صورتحال ویسے کی ویسی ہے۔ عدلیہ کی ساکھ پر حملہ کی شدت میں کمی نہیں آئی ہے۔ صورتحال صاف ظا ہر کر رہی ہے کہ عدلیہ کی جانب سے اپنی حفاظت کے لیے کیے جانے والے اقدمات ناکافی ثابت ہو رہے ہیں۔

ہمارے خیال میں توہین عدالت کے قانون کے حوالے سے نرمی برتی جا رہی ہے۔جو اس ساری کھیل کے ذمے دار ہیں ان کو توہین عدالت کے نوٹس نہیں دیے جا رہے۔ چھوٹے موٹے مہروں کے مرنے سے یہ لڑائی ختم نہیں ہو گی۔ ان کی سیاست داؤ پر ہے، انھیں نہال ہاشمی دانیال عزیز او ر طلال چوہدری کو سزا ہونے کی کیا پرواہ۔ بلکہ وہ اس کو اپنے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کریں گے۔ اگر اب بھی عدلیہ نے چھوٹے مہروں کے ساتھ ہی بڑوں اور اس پورے کھیل کے ذمہ داروں کو توہین عدالت پر سخت سزائیں نہیں دی گئیں تو پھر اس لڑائی میں یہ نظا م زمین بوس ہوسکتا ہے،اس صورت حال کے تحت عدلیہ کو بہت سخت اور مثالی فیصلوں کے ساتھ سامنے آنا ہو گا۔ عدلیہ پر تنقید کے زمرے میں آنے والے ہر قسم کے بیانات پر پابندی لگنی چاہیے۔ الفاظ سے اور عوام کے جذبات سے کھیلنے کی اس طرح اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔اس حوالے سے مزید تاخیر اس نظام کو زمین بوس کر دے گی۔ مقدمات میں تاخیر اور تاریخ پر تاریخ کے کلچر کو ختم کرنا ہو گا۔ اس حوالے سے بھی ایک یکساں پالیسی کے ساتھ سامنے آنا ہو گا۔ ایسے نہیں چلے گا کہ طاقتور کو تو تاریخ مل جائے اور کمزور کو نہ ملے۔ طاقتور نظام سے بچنے کی راہ تلاش کر لے لیکن کمزور پھنس جائے۔

امید ہے کہ چیف جسٹس پاکستان حالات کی سنگینی کا ادارک کریں گے اور عدلیہ کے وقار کوقائم رکھنے کے لیے اس کوپامال کرنے کے درپے لوگوں پر تاحیات سیاست میں حصہ لینے اور جلسوں سے خطاب کرنے اور ان کی تقاریر اور بیانات کی اشاعت پر مکمل پابندی عاید کرنے کااعلان کریں گے تاکہ آئندہ کسی کو عدلیہ کے وقار سے کھیلنے کی جرات نہ ہوسکے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں