مالی بحران‘ کے ڈی اے نے ماہانہ 17کروڑ روپے گرانٹ مانگ لی
شیئر کریں
الیاس احمد
قیام پاکستان کے بعدکراچی میں رہائشی منصوبوں کوبڑھانے اورشہر میں تعمیراتی کام تیز کرنے کے لیے کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے)کا عمل وجود میں لایاگیا۔© کے ڈی اے شہری اداروں میں سب سے امیر ادارہ گنا جاتاتھا اوراس ادارے کا بجٹ ہمیشہ منافع میں رہا۔ اورایک وقت ایسا تھا کہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے گلشن اقبال آباد کرنے کا منصوبہ بنایاتواس وقت کے وزیر بلدیات جام صادق علی خان سے کہا تھا کہ خیال رکھنا کہیں ایسا نہ ہوکہ مزار قائد کی زمین بھی فروخت ہوجائے۔کے ڈی اے نے کراچی کی تعمیر میں اہم کردارادا کیا ہے ۔ایک وقت ایسا بھی تھا جب الٰہی بخش سومرو جیسے دبنگ افسر ڈائریکٹر جنرل کے ڈی اے تھے انہوں نے اپنے دورمیں کرپشن کوقریب بھی آنے نہ دیا اورایک وقت ایسا بھی آیا کہ کے ڈی اے میں کرپشن کا بازار گرم رہا اورکوئی کہنے سننے والا بھی نہیں ہے۔
کے ڈی اے2000ءتک اپنے پاﺅں پرکھڑا رہا کیونکہ کے ڈی اے کے پاس اپنی زمین، تعمیراتی منصوبے (فلیٹس اوربنگلوز)تھے جس سے کے ڈی اے کا ریونیو اچھا نکلتاتھا لیکن اب کے ڈی اے کا دیوالیہ نکل گیاہے۔ اس بارے میں ڈائریکٹر جنرل کے ڈی اے نے محکمہ خزانہ اور محکمہ بلدیات کوایک مکتوب ارسال کیاہے جس میں جوتفصیلات درج کی گئی ہیں وہ حیرت انگیز ہیں۔ اس خط میں بتایا گیاہے کہ جب2001ءمیں کے ڈی اے کوختم کرکے شہری حکومت میں ضم کیا گیا اس وقت سے کے ڈی اے کازوال شروع ہوا ہے۔ کے ڈی اے کی انفرادی حیثیت ختم کرکے اس ادارے کوتباہ کیاگیا۔ اب2016ءمیں موجودہ حکومت نے 15سال بعد کے ڈی اے کی انفرادی حیثیت بحال کی ہے تواب کے ڈی اے کے پاس نہ تو تنخواہوں اورپنشن کے لیے پیسے ہیں اورنہ ہی جی پی فنڈز کے لیے رقم ہے۔ ادارے کی 3ارب 40کروڑروپے سے زائد پینشن کی رقم بھی پیشگی کاٹ لی گئی تھی، اس لیے ادارہ دیوالیہ ہوچکا ہے۔ اب صرف گرانٹ دے کراس ادارے کوبچایا جاسکتاہے۔ادارے کو ہرماہ 20کروڑروپے کی گرانٹ ملتی ہے جس سے اس ادارے کے ملازمین کوتنخواہیں ملتی ہیں اوران کے معمول کے اخراجات پورے ہوتے ہیں ،اب جب سپریم کورٹ نے ان تمام ملازمین کوواپس اپنے محکموں میں بھیجا ہے جواصل محکموں کوچھوڑ کردوسرے محکموں میں چلے گئے تھے ،اس حکم کی روشنی میں ملازمین کی بہت بڑی تعداد کے ڈی اے میںواپس آگئی ہے۔ اس لیے اضافی گرانٹ کے طورپر مزید17کروڑروپے دیے جائیں۔ ڈی جی کے ڈی اے نے اپنے لیٹر میں چونکا دینے والے انکشافات کئے ہیں کہ جب کے ڈی اے کی انفرادی حیثیت ختم ہوئی تو اس وقت اس کی قیمتی زمینوں پرقبضے کئے گئے اورمہنگی مشینوں کوکوڑیوں کے دام فروخت کیاگیا ۔اس صورت حال میں کے ڈی اے کے لیے اپنی بقا کا بھی کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا کیونکہ ریونیو پیدا کرنے کے اب مواقع بھی نہیں رہے۔ اس لیے اب کے ڈی اے کوصرف گرانٹ دے کرچلا یاجاسکتا ہے یعنی حکومت سندھ 37کروڑروپے ہرماہ گرانٹ ان ایڈ کی شکل میں دے گی توکے ڈی اے کوچلایا جائے گا اوراگرہرماہ گرانٹ نہیں ملے گی توکے ڈی اے کا چلنا مشکل ہوگا۔
تاہم ابھی کے ڈی اے کی اس درخواست کا فیصلہ ہوا بھی نہیں ہوا ہے،اوپر سے محکمہ بلدیات نے ایک لیٹر لکھ کرکے ڈی اے کے لیے پریشانی کھڑی کردی ہے جس میں استفسار کیا گیا ہے کہ کے ڈی اے کو دوارب روپے رواں مالی سال میں خصوصی پیکیج کی شکل میں دیئے گئے تھے، اس رقم سے کتنے ترقیاتی منصوبے بنائے گئے ؟ ان پرتاحال کتنی رقم خرچ کی گئی؟ منصوبوں پر اب تک کتنا کام ہوا ہے ؟ ٹھیکے کس کو دیئے گئے ہیں؟ اوررواں مالی سال میں اس پرکتنے فیصد کام ہوگا،اورکتنے فیصد کام آئندہ مالی سال میں کیاجائے گا ؟ اس لیٹر کے بعد کے ڈی اے میں ہلچل مچ گئی ہے اورادارے میں چہ مگوئیاں شروع ہوگئی ہیں۔ کے ڈی اے ایک امیر اورساہوکار ادارہ تھا جس کو مشرف دور میں اوراس سے قبل پی پی کے پہلے دور تک تباہ کیاگیا اوراب جاکر اس ادارے کوانفرادی حیثیت کے طورپر بحال کیاگیا لیکن سب کومل کر سوچنا ہوگا کہ کے ڈی اے کواس نہج پرکس نے اورکیوں پہنچایا؟ اوراب کیسے اس ادارے کواس قدر مضبوط اورخو دمختار بنایا جائے کہ اس کومثال بنا کردوسرے ادارے بھی مضبوط بنایاجاسکے۔